امتیاز عالم صاحب نے ٥ جولائی کو امتیازات سے بھرپور کالم
پانچ جولائی کا شب خون کب تھمے گا؟ کے عنوان سے تحریر فرمایا اور حب
جمہوریت کی آڑ میں بھرپور اشرافیہ کا تحفظ فرمایا یہی خارش زدہ ذہنیت ہے جو
پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ انھوں نے اپنے اوپر فرض کرلیا
ہے کہ انھوں نے ہر حال میں کرپٹ اشرافیہ کا دفاع کرنا ہے ۔ دور حاضر کے
ارسطو امتیاز عالم گٹکو کی تحریر ملاحظہ فرمائیں موصوف لکھتے ہیں پھر پانچ
جولائی آئی اور دل کے زخم تازہ ہو گئے اور تلخ یادوں نے آن گھیرا کہ کہیں
تو جا کے رُکے گا سفینہ غمِ دل۔
اب جبکہ جمہوری عبور اپنی دوسری ٹرم کے آخری برس میں ہے اور تیسرے
انتخابات کی تیاری ہے، آمرانہ قوتیں پھر سے متحرک ہوتی دکھائی پڑتی ہیں۔
وزیراعظم سمیت سب کا احتساب ہو، اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو تو کسی کو
کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر احتساب کی آڑ میں جو کچھ پھر سے ہو رہا ہے،
آخر یہ کھچڑی پکنا کبھی بند بھی ہوگی؟
جتنا خیال ان نیم دانشوروں کو جعلی جمہوریت کا ہے اسکا ایک چوتھائی درد بھی
اگر انھیں جمہور کا ہوتا تو آج پاکستانی عوام بھی خوشحال ہوتی اور آئین
وقانون کی حکمرآنی ہوتی۔ ان خارشی نیم دانشوروں سے جی چاہتا ہےسامنےبٹھا
کرجمہوریت کی تعریف پوچھوں یقینی طور پر یہ جمہوریت کی تعریف سے نابلد ہوں
گے یا منافقت کے دامن میں پناہ لیں گے۔ دنیا جہان میں اہل دانش کا کام عوام
الناس کو علم وشعور اور آگہی دینا ہے مگر ہمارے ہاں انکا کام مال بنانا اور
اشرافیہ کے قصائد لکھنا ہے ۔ خدا خیر کرے عطاالحق قاسمی صاحب علیل نہ ہوں
آل شریف کا نیا قصیدہ پڑھنے کو نہیں ملا کچھ دنوں سے ۔ ہمارے ہاں نیم
دانشوروں کی غالب اکثریت کے نذدیک نواز شریف اور زرداری کا نام ہی جمہوریت
ہے یہ اگر اقتدار میں ہیں تو جمہوریت کو دوام ہے ورنہ جمہوریت کو خطرہ ہی
خطرہ ہے ۔ پانچ جولائی آتی ہے امتیاز عالم کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں کیونکہ
ضیاالحق نے مارشل لاء لگایا تھا مگر جب نواز شریف اسی ضیاالحقی مارشل لاء
کا حصہ بنتا ہے تو انکے زخم مندمل ہوجاتے ہیں ۔ ضیاالحق کو معاف کرنے کو یہ
نیم دانشور تیار نہیں مگر نواز شریف کو گنگا اشنان کروا کر انھوں نے پوتر
بنا کر اسکے آج بھی قصیدے لکھتے ہیں ۔ جناب یہ امتیازی سلوک نہیں تاریخ کے
ساتھ ؟ آج عصر حاضر میں آل شریف کی کرپشن اقرباء پروری اظہر من الشمش ہوکر
دنیا کے سامنے آشکار ہے مگر امتیازعالم جیسے لکیر کے فقیر دانشور اسکے
پیچھے بھی فوج کا ہاتھ تلاش کررہے ہیں ۔ حالانکہ اہل دانش پر یہ نکتہ آشکار
ہے کہ پانامہ لیکس کے پیچھے کسی فوج کا ہاتھ نہیں ۔ یہ قدرت کا اٹل قانون
ہے اسنے شرفاء کی شرافت دنیا کو دکھلانی تھی ، قلمکار آل شریف کی پارسائی
پر انکے تقوے پر کالم پر کالم لکھکر قوم کو بتلا رہے تھے کہ آل شریف متقی
پرہیزگار اور ہمیشہ سچ بولنے والے اور باوضو رہنے والے ہیں ۔ پھر قدرت نے
سوموٹو ایکشن لیا اور آل شریف کی اصلیت پوری دنیا کو دکھلا دی ۔ رہی بات
نیم دانشوروں کی توتاریخ انکے تھوبڑوں پر سیاہی ملے گی۔ میاں محمد نواز
شریف کو داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے بڑی کمال مہارت سے نیم دانشوروں کا
ٹولہ مٹھی میں کررکھا ہے جو قصیدے لکھ لکھ کر تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔
خارش زدہ نیم دانشور قانون وآئین کی بالادستی کا نعرہ مستانہ بھی بڑی دیدہ
دلیری سے لگاتے ہیں مگر جب قانون کا شکنجہ آل شریف کے گرد کسا جانے لگتا ہے
تو پھر چیختے ہیں کہ فوج اور عدلیہ جمہوریت کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ معلوم
ہوا یہ قانون کی بالادستی نہیں چاہتے یہ صرف آل شریف کی بالادستی چاہتے ہیں
ڈھونگ رچاتے ہیں آئین اور قانون کی بالادستی کا ۔ دو ادارے آل شریف کی
دسترس سے بچے ہیں افواج پاکستان اور عدالت عالیہ ان دو اداروں کو بھی نیم
دانشور برباد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس مشن پر نیم دانشور گامزن ہیں۔
|