ریاست جموں کشمیر کے عوا م کیلئے ماہ جولائی کے ایام
جدوجہد آزادی کی تاریخ قربانیوں کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل یادگار
حیثیت رکھتے ہیں جس میں برصغیر کے عوام کو انگریز سے آزادی کے بعد کشمیریوں
کو انکے کے حق سے محروم رکھا گیا اور زبردستی بھارت سے جوڑ رکھنے کیلئے قتل
عام کیا گیا جس میں جموں کے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا گیا یا پھر یہاں
آزاد کشمیر اور پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جن کی یاد میں 13ء
جولائی یوم شہدائے جموں منایا جاتا ہے تو 19ء جولائی کا دن کشمیریوں ملت
پاکستان کے رشتوں کی تجدید کا دن ہے ۔ مگر 8ء جولائی کا دن ان سب ایام کی
شان بن چکا ہے جب ایک سال قبل مقبوضہ کشمیر میں 22سالہ برہان وانی کو ظلم
کے راستے میں مزاحمت بننے پر قابض افواج نے شہید کیا مگر اس کی شہادت
شہدائے جموں کشمیر کی آواز بن کر ایسی گونجی ہے اس کا نام اقوام متحدہ سے
لیکر ساری دنیا میں کشمیریوں کی آزادی کا عنوان بن چکا ہے جس کی شہادت
مناسبت سے 8ء جولائی کو مقبوضہ کشمیر کے شہر شہر گاؤں گاؤں نگر نگر گلی گلی
کشمیریوں نے اپنے ہیرو کو سلامی دینے کے انتظامات کئے جلسے جلوس مظاہروں کا
آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے ریکارڈ توڑ دیا تو یہاں آزاد کشمیر کے دارلحکومت
مظفرآباد سمیت سب اضلاع علاقوں میں بھی کانفرنسیں ، جلسے جلوسوں میں برہان
کے نعرے گونجتے رہے ، اندرون بیرون ملک مقیم کشمیریوں نے پہلے سے زیادہ جوش
و خروش کے ساتھ ریلیوں مظاہروں کے زبردست اجتماعات کیئے جن میں بچے ، بوڑھے،
نوجوان مردو خواتین کی بھرپور شرکت بتارہی تھی کشمیری جہاں بھی ہیں وہاں
اپنے برہان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر کی آواز بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم
فاروق حیدر بھی جنوبی افریقہ کے ملک دلواری میں او آئی سی کے وزراء خارجہ
اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچ گئے ہیں اور بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر حریت
کانفرنس کے قائدین علی گیلانی، عمر فاروق کو گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا
اسطرح فاروق حیدر ہی دونوں حصوں کی نمائندگی کریں گے۔ مبصر کا یہ درجہ آزاد
حکومت اور حریت قیادت مقبوضہ کشمیر کو بطور وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید نے دلایا تھا جب راجہ فاروق حیدر پی پی کی قیادت کے حوالے
سے کشمیر کے متعلق ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو یقیناًاو آئی سی
کانفرنس میں بطور مبصر شرکت کو اس کی قیادت کی کاوش ہونے کا اعتراف بھی
کریں گے؟؟؟۔ جنہوں نے جاتے ہوئے اپنے قائد میاں نواز شریف کی حمایت میں
ایسے بیان داغے ہیں جیسے انکے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا ہے ۔ ماضی میں
سردار عبدالقیوم خان (مرحوم )بھی حمایت اور مخالفت میں بہت آگے جاکر بات
کردیا کرتے تھے جن کی دوسری برسی رواں عشرے منائی جارہی ہے۔سیاست دان وہی
ہوتا ہے جو غیر متنازعہ نہیں ہوتا ،سردار عبدالقیوم خان کی سیاست طرز
حکمرانی بھی متنازعہ رہی ہے مگر وہ بلاشبہ آزاد خطہ کی سیاست کا ایک بہت
بڑا نام بن چھائے رہے جنہوں نے بوسیدہ لباس مٹی کے ڈھارے گھر سے سیاست کا
آغاز کیا جب انکا مختصر سا کنبہ ، قبیلہ اس پوزیشن میں نہیں تھا انکی کوئی
مدد اور کردار ادا کر سکے مگر سب کو ساتھ لیکر وہ وسعت قلبی کے اسلوب سے وہ
آگے بڑھتے ہی گئے اور جب کار کوٹھی اونچی شان بان پر یقین رکھنے والے ارد
گرد ہوتے گئے تو پھر ان کے قافلے جماعت کو وہاں لے گئے جہاں کے ۔ ایچ
خورشید جیسے عظیم لیڈر کی اپنی اکلوتی وراثت لبریش لیگ پہنچ کر اب یاد گار
بن چکی ہے تو اس کا پیچھا کرتے ہوئے مزید بھی رواں دواں ہیں یہاں آزاد
کشمیر میں شروع دن سے کبھی بھی پرائیویٹ بزنس ہنر مندی، صنعت کاری، تجارت
جیسے زرائع روزگار پر توجہ نہیں دی گئی صرف سرکاری ملازمتوں کو ہی واحد
زریعہ بنائے رکھا ورنہ کبھی کسی نے باہر سے آکر ایسا کرنے سے روکا نہیں تھا
لوگوں کو پسماندہ رکھ کر مذہب نظریات نعروں کے نام پر اپنی اجارہ دار قائم
رکھنے کی روش نے معاشرے کو کاہل بنا کر رکھ دیا اب گزشتہ کچھ عرصے سے سیاحت
کا کلچر پروان چڑھنا شروع ہوا ہے ۔لوگوں کو روزگار کے وسیع زرائع سمیت
آسودگی کے آثار میسر آئے ہیں مگر سیاحتی اور ان سے منسلک علاقوں ، راستوں
خصوصاََ نیلم میں انڈے دینے والی مرغی کو زبح کرکے کھانے کے رویوں نے کمروں
کے کرائیوں سے لیکر کھانے کی اشیاء تک ایک دو نہیں چار چھ گناء زیادہ
قیمتوں فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کے دوبارہ کوہالہ برار کوٹ سے پہلے ہی
مقامات پر جانے کے انداز کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا ہے اور پھر منہ
سونگنے نکاح نامے پوچھنے سمیت رشتے ناطوں کے سوالات جیسے یہ سیاحت کیلئے
نہیں انکوائری کیلئے کسی جگہ آگئے ہیں راستوں میں خاص کر جگہ جگہ چوکیاں
اور باربار انکوائریاں ختم کر کے ہر ضلعے کی حدود میں صرف ایک بار ایک چوکی
پر شناخت کی جائے بلکہ جسطرح پورے ملک میں ڈرائیور دستخط پتہ شناختی کارڈ
والا فارم پوچھنے پر سپرد کرتا ہے وہ طریقہ کار اختیار کر کے سب اپنی ذمہ
داریاں پوری کریں توکمال ہو جائے گا۔وزیر اعظم فاروق حیدر نے کوہالہ چوکی
سیاحوں کا استقبال کر کے اچھا پیغام دیا جس کے دوسرے دن ہی وزیر سیاحت
مشتاق منہاس کو ایک سیاح فیملی کو نکاح نامہ طلب کرنے پر روکے جانے کے
حوالے سے فون کرنا پڑ گیا۔ ضروری ہے کہ داخلی دروازوں چوکیوں ، ہوٹلوں ،
ریسٹ ہاؤس سمیت اس حوالے سے صرف لائن نمبر نہیں بلکہ موبائل نمبر درج کئے
جائیں جن پر شکایت ہو سکے اور موجودہ پولیس میں سے ہی سیاحت کیلئے نوجوانوں
کی ایک تربیت یافتہ فورس تیار کی جائے جو چوکیوں داخلی راستوں سمیت ایسے
علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔وزیر اعظم فاروق حیدر کی عدم موجودگی میں
سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے قائم مقام وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض کی
بجاآوری کا آغاز کر دیا ہے ۔جو نہ صرف اپنے ضلع بھمبر بلکہ آزادکشمیر میں
مسلم لیگ ن اور سیاست کا پرجوش کردار بن چکے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کی
جانب بھرپور توجہ دیتے ہوئے امور سر انجام دیتے ہیں ۔نہ صرف اسمبلی اجلاسوں
میں چوہدری طارق فاروق نے وزیر اعظم فاروق حیدر کے معاون و مدد گار ہونے کا
ہمیشہ ثبوت دیا بلکہ اسمبلی سے باہر چوہدری طارق فاورق ایسی دو چار شخصیات
میں شمار ہوتے ہیں جن کے پاس آزادکشمیر بھر اور پاکستان مقیم کشمیریوں سمیت
بیرون ممالک تارکین وطن کشمیری آتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ |