حال ہی میں امریکی سی آئی اے کے سابق آفسر کی لکھی گئی
کتاب The Contractor پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس کتاب کے منظر ِ عام پر آتے ہی
ہر طرح کے تبصرے بھی سننے کو ملنے لگے ۔ میرے اس کالم میں کم و بیش ہر اس
سوال کا جواب موجود ہے خصوصا ان لوگوں کے لیے جو اس کتاب کو سچ سمجھ رہے
ہیں ۔ میری گذارش ہے کہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کتاب کو مکمل
پڑھ لیجئے ۔
ہم میں سے اکژکو ریمنڈڈیوس نام کا ایک امریکی یاد ہو گا جس نے چند برس پہلے
لاہور میں دو جوانوانوں کو بیدردی سے قتل کیا اور چند ناگزیر وجوہات کی بنا
پر اسے رہا کر دیا گیاتھا جس پرعوام کی اکثریت خوش نہیں تھی ۔ریمنڈڈیوس کی
یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے اور کم و بیش پاکستان میں جس کے پاس
انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اس تک اس کتاب کی رسائی ممکن بنا دی گئی ہے ۔کتاب
کے سر ورق پر احتجا ج کرتے ہوئے ، پلے کارڈ ہاتھوں میں جماعت اسلامی کے
افراد کی تصویر ہے جس میں انھوں نے ریمنڈ ڈیوس کی پھانسی کا مطالعہ کیا ۔
یہ کتاب ریمنڈ ڈیوس کی خود نوشت ہے ۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد خود لکھنے
والے کے قلم کے تضاد کا اندازہ ہوااور کوئی بھی ذی شعور انسان اس کتاب کے
مقاصد کا اندازہ کرسکتا ہے ۔ ریمڈڈیوس نے اس کتاب میں دنیا کو باور کروانے
کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ تھا لیکن ایمبیسی کا
تنخواہ دار ملازم تھ ۔ پاکستان میں اس کا کام صرف اور صرف ایمبیسی سٹاف کی
حفاظت تھی ۔ صرف یہی نہیں اس نے دو نوجوانوں جو قتل کیا اپنے دفاع میں کیا۔
ذرا سوچیے !کسی پرائیویٹ سیکیورٹی جس کے ذمہ سٹاف کی حفاظت ہو وہ کبھی بھی
کسی کو دفاع میں قتل نہیں کرتابلکہ دفاع میں اگر کوئی اسلحہ تان بھی لے تو
اس کے ہاتھ یا پاؤں پر فائر کرکے اس اقدام کوروکا جا تا ہے مبادہ کہ جس نے
ابھی تک حملہ کیا بھی نہیں اس کے جسم میں پانچ گولیاں اور موٹرسائیکل چلانے
والے کے جسم کو بھی چھلنی کر دے ۔گولیاں اس قدر ماہرانہ انداز میں ماری گئی
کہ مقتولوں کی موت لازمی ہوجائے اور کسی بھی صورت ان میں سے کوئی بچ نہ
پائے ۔ سونے پر سوہاگہ پھرمقتولوں کی تصاویر بھی بنائی جائیں۔تصاویر بنانے
کے بعد ریمنڈ ڈیوس بھاگ نکلا اور اس ی حفاظت کے لیے دمزید افراد آئے جو کہ
بلٹ پروف گاڑی میں ایک اور موٹر سائیکل سوار کو کچل کر بھاگ نکلے ۔
واضع رہے کہ ریمنڈ ڈیوس کس حیثیت سے پاکستان میں کام کر رہا تھا اس کا تعین
کرنا اس لیے مشکل تھا جس طرح ریمنڈڈیوس نے خود اپنی کتاب میں لکھا کہ وہ کس
حیثیت سے پاکستان میں کام کر رہا تھا یہ ایمبیسی کے ریکارڈ میں بھی موجود
نہیں تھا۔کبھی اسے ایمبیسی کا آفسر ، کبھی سپورٹ اور ٹیکنکل سٹاف کے طور پر
متعارف کروایا گیا۔اگر یہ کوئی پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ ہوتا تو ایمنیسی میں
اس کاریکارڈ لازمی موجود ہوتا۔اگر وہ ایک پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ ہوتا تو
اس کی رہائی کے لیے امریکہ کے اعلیٰ ترین حکام پاکستان کے اعلیٰ احکام
خصوصا فوج کے سربراہ سے نہ ملتے ۔خود امریکی اخبارات میں یہ خبر شائع ہو
چکی ہے کہ ریمنڈڈیوس سی آئی اے کاباقاعدہ تنخواہ دوار ملازم تھا۔
ریمنڈ ڈیوس نے اس کتاب میں گاہے بگاہے پاکستان اور اسلام کے خلاف زہر اگلا
ہے ۔صرف یہی نہیں ریمنڈ ڈیوس جابجا چاہے وہ جیل میں گزارے گئے شب و رو ز
ہوں ، رہائی کے بعد یا پہلے کے واقعات ہوں وہ اپنے جسم اورامریکہ میں
کروائی جانے والی ٹرینگ کی تعریف کرنا نہیں بھولتا ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے
بعد انداز ہ ہوتا ہے کہ لکھار ی کے ذہن میں از خود ابہام ہے کیونکہ ایک جگہ
وہ لکھتا ہے کہ اسے اردو نہ تو پڑھنا آتی ہے جبکہ دوسر ی جگہ وہ یہ کہتا ہے
کہ اردو یا پنجابی میں بات کی گئی۔ گویا اس نے خود ہی اپنی بات کی تردید کر
دی کہ وہ اردو نہیں جانتا اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ نہ صرف اردو
جانتا ہے بلکہ اردو اور پنجابی میں فرق بھی کر سکتا ہے ۔
ہر ملک دنیا میں قائم دوسرے ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے جڑا ہوا اور
ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات
قائم رکھے جائیں ۔ سفارتی ضروریات اور دہشت گردی کی جنگ میں پاک امریک
تعلقات کو بچانے کے لیے دیت کے قانون کا استعمال کیا گیا تاہم ریمنڈڈیوس نے
خود کو بے گناہ ثابت کرتے ہوئے اس قانون کے خلاف بھی زہر اگلنے سے گریز نہ
کیا ۔واضع رہے کہ اگریہ قانون استعمال نہ کیا جاتا تو دوسری صورت میں
ریمنڈڈیوس کو پھانسی دی جاتی یا کم از کم عمر قید کی سزا ضرور دی جاتی ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی عوام ریمنڈڈیوس کے وحشیانہ
اقدام کی وجہ سے غم و غصہ کا شکار تھے اور اس کی پھانسی کے خواہاں تھے ۔ ان
جذبات کو ائی ایس آئی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کے طور پر اس کتابب میں
آئی ایس آئی کو ریمنڈڈیوس کا ہمدرد ظاہر کیا گیا کہ سابق چیف آئی ایس آئی
جنرل پاشا کو عوام کی نظروں سے گرا دیا جائے ۔لکھاری نے یہاں تک لکھا کہ
جنرل پاشا مسلسل امریکی سفیر کیمرون منٹر کو میسج کرکے آگاہی دیتے رہی
گویاملک کے معزز ترین ادارے کا ڈائیکڑ جنرل امریکہ کا اس قدر ہامی ہے کہ وہ
امریکی سفیر کو ہر لمحہ کی خبر دینا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ ان جملوں سے عوام
کے دل میں پھر سے غصہ کی لہر دوڑا کر کوشش کی گئی ہے کہ اس طرح عوام کا
اعتماد اس ادارے سے ختم کر دیا جائے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ سی آئی اے کو جتنا نقصان جنرل پاشا کے
دور میں ہوا یہ ایک ریکارڈہے ۔ اسی دور میں ریمنڈڈیوس کی حقییت دنیا پر
آشکار ہوئی جو کہ سی آئی اے کی کارکردگی پر ایک داغ ثابت ہوئی ۔پہلی بار سی
آئی اے کسی ملک میں پوری طرح منظر ِ عام پر آگئی ۔ریمنڈ ڈیوس نہ صرف پکڑا
گیا بلکہ پنچاب پولیس کی جانب سے پکڑے جانے کے بعد ایک ایک کرکے سی آئی اے
ہر فرد کی حقیقت کھلتی چلی گئی جس کے بعد سی آئی اے کو پاکستان میں آپریشن
کرنا ممکن نہیں رہا۔ سی آئی اے کسی بھی طرح اس داغ کو اپنے کھاتہ سے نکالنا
چاہتی ہے اس لیے یہ کتاب نہ صرف لکھی گئی یا لکھوائی گئی بلکہ اس کتاب کو
فورا پی ڈی ایف فارمیٹ میں انٹر نیٹ پر موجود ہونے کا مقصد یہ ہے کہ جلد از
جلد یہ کتاب زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچائی جائے ۔
یاد رکھیے ! ملک اس وقت قائم رہتے ہیں جب ان کے اداروں پر عوام کا اعتماد
باقی رہے ۔آئی ایس آئی ایک طویل عرصے سے دنیا کی نمبر ون سیکرٹ ایجنسی رہی
ہے ۔ کئی برس سے دنیا کی نمبر ون ایجنسیوں کی لسٹ میں براجمان یہ ادارہ آج
بھی اپنی بہترین خدمات کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کی نظروں میں غیر پسندیدہ
رہا ہے ۔آئی ایس آئی وہ واحد ادارہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا دفاع اس سطح
پر ہے کہ یہ ملک ہر طرح سے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہے اور دنیا کے
نقشے پر قائم ہے ۔ یہ وہ سپاہی ہیں جنھیں دنیا کے کسی ایوارڈ کی خواہش نہیں
ہوتی ۔اس کتاب میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت اس ادارے کو امریکہ کا حامی ظاہر
کے کے عوام کو بدظن کر دیا جائے تاکہ عوام اور اس ادارہ کے درمیان اعتبار
کا قفدان پیدا کرکے پاکستان کے دفاع کو عملی طور پر نقصان پہنچایا جائے ۔
|