دہشت گردی کے خلاف جس قدر فعال امریکہ ہے شاید ہی کوئی
دوجا ملک ہو۔دینا میں امریکہ سے بھی زیادہ حساس او ربڑے ملک وجود رکھتے
ہیں۔ مگر تو کون میں خواہ مخواہ والا رویہ صرف امریکہ بہادر کا ہی طرہ
امتیاز ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک کی گردن دبوچنے کے لیے اسے نہ کسی بہانے کی
ضرورت ہے۔نہ کسی عذر کی امریکہ صدر کی زبان سے بولے چند الفاظ ہی اس ملک کے
خلاف کاروائی کا جواز بن جاتے ہیں۔دینا کے دیگر ممالک دہشت گردی کو صرف
حقیقی انداز تک ہی دیکھتے ہیں۔کہیں اکا دکا دہشت گردی کا واقعہ ہونے پر یہ
ممالک کچھ متحرک تو ہوجاتے ہیں۔مگر اپنی ضرور ی کاروائی کے بعد پھر سے منہ
دھیان اپنے روزمر ہ کے امور میں محو ہوجاتے ہیں۔امریکہ کی طرح وہ ا س واقعہ
کے تانے بانے کسی ایک ملک سے جوڑنے کی سوچ نہیں رکھتے ۔انہیں نہ تو کسی ملک
پر دھونس جمانے کا شوق ہے ۔او رنہ ہی انہیں کسی کو ڈرادھمکا کر اپنا گھٹیا
مال فروخت کرنا ہے۔امریکہ کا یہ غیر مہذبانہ رویہ دہشت گردی میں کمی کی راہ
میں رکاوٹ بن رہاہے۔جانے کتنے ہی دہشت گرد نیٹ ورک تباہ ہوئے مگر امریکی
رویہ اس سے بھی زیادہ تعداد میں مزاحمتی دھڑے پیداکرنے کا موجب بن رہاہے۔
امریکہ کی ٹیڑھی آنکھوں کا ایک شکار پاکستان بھی ہے۔جہاں کے عوام امریکہ کی
بے وفائیوں او رخودغرضی کے سبب متنفرہیں۔مگر یہا ں کا حکمران طبقہ کسی طور
امریکہ کا دست شفقت گنوانا نہیں چاہ رہا۔سابق صدر پرویز مشر ف نے یہ خدشہ
ظاہر کرکے اس بے ایمان دوستی کی اہمیت بیان کی ہے کہ امریکہ اگر افغانستان
سے نکل گیاتو یہاں طالبان آجائیں گے۔پاکستانی حکمرانوں کی اسی چاپلوس طبیعت
کے باعث امریکہ کو پاکستان میں مداخلت کی بار بار جراء ت ہوتی ہے۔وزیر اعظم
نواز شریف نے اپنے ہر دور اقتدار میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنا
نے کی حکمت عملی اپنا کر ایک طرح سے امریکہ سے بے زاری کا اظہار کیا ہے۔مگر
بد قسمتی سے بعض لوگ وزیر اعظم کی اس پالیسی کو ناکام بنانے کا عزم لیے
ہوئے ہیں۔اس کا سبب شاید یہ ہے کہ رو س اور چین امریکہ کی طرح ریشہ دوانیوں
پر یقین نہیں رکھتے ۔انہیں تو قابل لیڈرشب نظر آنی چاہیے وہ اس سے تعاون
کریں گے۔جبکہ امریکہ کو یہاں کے لوگوں کی قابلیت اور اہلیت سے کچھ غرض
نہیںیہاں جو بھی اس کے جائز ناجائز احکام پر صاد کرے گا۔امریکی ڈالرو ں میں
لد جائے گا۔بے ایما ن او رنکھٹو قسم کے لوگ اسی لیے امریکہ کا آسرا گنوانے
سے ڈرتے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد
کردیا ہے ۔وہ اس رپورٹ کو ردی قرار دیتے ہیں جو مخالفین نے سی پیک سمیت
دیگر حکومتی منصوبوں کی کامیابی سے گھبرا کر تیار کروائی۔ لیگی حلقے گلہ
کرتے ہیں کہ ایک دھڑا مسلسل وزیر اعظم کے خلاف سرگرم ہے۔کبھی دھاندلی کے
نام پر یہ لوگ شور شرابہ شروع کردیتے ہیں ۔کبھی پانامہ کے نام پر ۔جے آئی
ٹی کو حکمران جماعت پہلے ہی متعصب قرار دے چکی ہے۔اسے اس جے آئی ٹی سے اسی
قسم کی رپورٹ کی توقع تھی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے بچے اپنے ذرائع آمدن سے
زیادہ کے سرمائے کے مالک ہیں۔جے آئی ٹی نے وزیر اعظم او ران کے بچوں کا
معاملہ نیب کورٹ میں بھجوانے کی سفارش کی ہے۔اپوزیشن جے آئی ٹی کے فیصلے پر
مٹھائیاں بانٹ رہی ہے۔مگر لگتانہیں کہ یہ مٹھائی بانٹنے کا سلسلہ زیادہ دن
چل سکے۔وزیر اعطم نواز شریف کے خلاف جن الزامات کا ذکر جے آئی ٹی نے
کیاہے۔تقریبا ایسے ہی الزامات کے سلسلے میں تحریک انصاف کے چیئرمین کٹہرے
میں کھڑے ہیں۔صورتحال بالکل ملتی جلتی ہے۔شریف فیملی جے آئی ٹی کو متعصب
قراردے چکی ہے۔اور اس متعصب جے آئی ٹی کا فیصلہ اس کے خلاف آچکا۔اب عمران
خان الیکشن کمیشن کو متعصب قرار دے رہے ہیں۔او رمزے کی بات الیکشن کمیشن
بھی اپنا فیصلہ محفوظ کیے ہوئے ہے۔جس دن جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کرنا
تھی۔اسی دن الیکشن کمیشن نے توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنانا تھا۔مگر خوش
قسمتی سے خاں صاحب کو سولہ تاریخ تک کی مہلت دے دی گئی۔الیکشن کمیشن اور
سپریم کورٹ کے جج حضرات اپنے ریماکس میں تحریک انصاف کے راہنما کے دلائل او
رطرز عمل سے متعلق عدم اطمینان ظاہر کرچکے ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے تو
یہ تک کہ دیا گیا کہ اب ہمیں تحریک انصاف کے جواب کی ضرورت نہیں اب فیصلہ
ہی سنائیں گے۔اگر ایسے میں کچھ اسی طرح کا فیصلہ آگیاتو دشمن کے مرنے پر
خوش کرنے والوں کو سجنوں کے مرنے کی خبر بھی آسکتی ہے۔جے آئی ٹی اور الیکشن
کمیشن کی طرف فریقین کے لیے ایک سے رویے کے باعث ایک سے فیصلے آنا بھی غیر
متوقع نہ ہوگا۔جے آئی ٹی کی طرف سے اپنا فرض اداکیے جانے کے بعد اب مقتدار
حلقے اپنے اگلے اقدام کی نوک پلک درست کررہے ہیں۔وہ جو بھی کریں ۔انہیں
روکنے والا کوئی نہیں۔ان کا اگلا پڑاؤ کیا ہوگا کسی کو کچھ پتا نہیں۔مگر
قوم پوچھتی ہے۔کہ ایک برموقع وزیر اعظم کو پندرہ بیس سال پچھلے معاملا ت کی
بھینٹ چڑھانے سے آخر کیاثابت کرنا مقصود ہے۔زرداری اور مشر ف دور میں بے
انتہا گند مچایا گیا۔یہ دونوں اب حکومت میں بھی نہیں ۔اب بجائے انہیں
رگیدنے کے آسان کام کے نواز شریف سے نبٹنا کیوں ترجیح بن گئی۔کیا اس کا سبب
نواز شریف کا موج مناؤ پروگرام کی مخالفت ہے۔قومی وسائل کو جس طرح زرداری
اور مشر ف ادوار میں بندر بانٹ کی نذر کیا گیا۔آج اس طرح کی صورتحال نہیں
۔تب کہ تمام شرکا ء دسترخوان ان دنوں بھوکوں مر رہے ہیں۔شاید یہی محرومی
انہیں طیش دلا رہی ہے۔اکٹھا کررہی ہے۔نواز شریف کو پہلے دن سے ہی چھوٹی
برائی قراردیا گیاہے۔اسے کبھی بھی فرشتہ تسلیم نہیں کیا گیا۔مگر اس کے خلا
ف بھونڈے انداز میں بے ایمانہ احتساب کرکے آخر کیا بتانا مقصود ہے۔کیا عام
آدی سمجھ لے کہ پاکستان میں صرف بے ایمانوں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس
والو ں کی گنجائش ہے۔یہاں کم برے اور اچھے لوگ کو برداشت کرنے کا حوصلہ
کیوں نہیں ہورہا۔نوازشریف کو شیطانی طریقے سے ماضی کے معاملات کی بنیادوں
پر راہ سے ہٹا کر پورے شیطان اور پورے بے ایمان مسلط کرنے کا یہ طریقہ آخر
کیا پیغام چھپائے ہوئے ہے۔ایسا کرنے والے جانے پاکستان کو کہاں لے جانا
چاہتے ہیں۔اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو یہاں سے ہجرت کرجانے کے سوا کیا چارہ بچے
گا۔امن وسکون اور انصاف کے لیے تو ولیوں پیغمبروں نے بھی اپنے وطن چھوڑ
دیے۔عام آدمی سے کیا گلہ ہوگا۔ایک بھلے مانس کو کسی بھی طریقے سے گھیر گھار
کر سب سے بڑا چور ثابت کرنے کا یہ طریقہ کسی طور ہضم نہیں ہورہا۔ڈر ہے کہ
لوگ کہیں انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو کی اجتماعی کردان نہ رٹنے لگیں۔ |