پنجرہ

کمرے کا دروازہ زور دار آواز سے کھُلا اور میرے سامنے ننگ دھڑنگ ننگا اُدھیڑ عمر کا شخص آکر کھڑا ہو گیا ‘اندر آتے ہی بے تکلفی سے اُس نے مصافحے کے لیے اپنا ہا تھ میری طرف بڑھا یا میں اِس حیران کن حا دثے کے لیے بلکل بھی تیا رنہیں تھا میر ے اعصاب بکھر چکے تھے سانس رک چکی تھی اور سوچیں فالج زدہ ‘میرا دل و دما غ دونو ں خالی ہو چکے تھے میں خالی حیران نظروں سے اُس شخص کو دیکھ رہا تھا جس کو بلکل بھی احساس نہیں تھا کہ وہ بے لبا س میرے سامنے کھڑا ہے اُس کی حرکات و سکنا ت سے لگ رہاتھا جیسے اُس کے لیے ہر چیز نا رمل ہے وہ اپنی بے لبا سی پر بلکل بھی شرمند ہ نہیں تھا اگر میری جگہ کو ئی بھی ہو تا تو یقینا وہ بھی عالم تحیر میں میری طرح ہی غر ق ہو جاتا ‘میری نظر ایسے کسی بھی منظر کے لیے تیا رنہ تھی اور نہ میں نے کبھی ایسا منظر دیکھا تھا میں حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا اب اُس نے ایک اور عجیب حرکت کی مجھے زبر دستی کندھے سے پکڑ کر اٹھا یا جپھی ڈالی ‘واپس مجھے صوفے پر دھکیلا اور میر ے سامنے ٹا نگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا اور میرا حال چال پوچھنے لگا میں مدد طلب نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کو ئی آکر مجھے اِس مشکل صورتحال سے نکالے یا مجھے اِس غیر انسانی سلوک کی وجہ بتا ئے ابھی میرے اعصاب منتشر ہی تھے کہ اُس نے ایک اور انداز بدلا اب اُس کے منہ سے گھر والوں اہل محلہ حکمرانوں کے با رے میں گا لیوں کا طو فان اُبل پڑا گا لیاں ایسی کے کان جلنے لگے وہ اب وہ کے ٹو پہا ڑ جتنی بڑی گالیاں اِس طرح داغ رہا تھا جیسے اُس کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں جیسے وہ انتہا ئی مہذب شائستہ گفتگو کر رہا ہو میں حیرت کا بُت بنا کسی کے آنے کا انتظا ر کر رہا تھا اِسی دوران اس نے زور دار قہقے لگا نے شروع کر دئیے اب وہ اچانک اُٹھا اور تیزی سے میری طرف بڑھا وہ کسی بات پر قہقے لگا رہا تھا میرے پاس آکر زور سے اُس نے ہا تھ پر ہا تھ ما رنے کی کوشش کی جیسے دوست آپس میں دوران گفتگو کر تے ہیں میں اُس کے اِس عمل کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا اُس نے خود ہی زور دار میری ٹانگ پر ہا تھ ما را اب کبھی تو وہ چھت کی طرف دیکھ کر فلک شگاف قہقے لگا تا کبھی صوفے پر کبھی میرے با زو پرکبھی کندھے پر بے تکلفی سے ہا تھ ما رتا میرے لیے اب اُس کا رویہ نا قا بل بر داشت ہو تا جا رہا تھا میں جو مختلف غصیلے مزاج کے لوگوں سے بھی نر می سے با ت کر لیتا تھا یا ہزاروں لوگوں سے ملنے کے بعد اب میں میری مرضی کے خلا ف لوگوں سے بھی ڈیل کر لیتا تھا یہاں پر مجھے اِس شخص کو ڈیل کر نا مشکل ہو رہا تھا وہ ا بنا رمل حرکتیں کر رہا تھا اور نہ ہی میں اِس شخص کو جا نتا تھا کہ وہ ایسے کیوں کر رہا ہے اس کا پس منظر کیا ہے آخر گھر والوں نے شاید اِس کے فلک شگا ف نعرے قہقے اور چیخیں سن لیں تو اِسکا بیٹا اندر اآیااور مجھ سے معا فی مانگتے ہو ئے اپنے باپ کو با ہر لے جانے کی کو شش کر نے لگا باپ اندر جانے سے ا نکار کر رہا تھا بیٹا زبردستی گھسیٹ کر اُس کو گھر کے اندر لے جانے کی کو شش کر نے لگا جب بیٹا کامیاب نہ ہو ا تو میرے پاس آکر کہا یہ پا گل ہے خدا کے لیے میری مدد کریں اِس کو اندر لے جانے کی ورنہ یہ آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اب میں نے بھی بیٹے کا ساتھ دیا ہم اس شخص کو تقریبا گھسیٹتے ہو ئے اندر کمرے میں لے گئے کمرے کے اندر پنجرے نما کمرے میں جا کر اُس کو دھکیلا اور با ہر سلا خوں والے دروازے کو بند کر کے تالالگا دیا اِس دوران بیٹے کی ماں بھی آگئی وہ بھی مجھ سے معا فی مانگ رہی تھی دونوں ماں بیٹا آپس میں لڑ رہے تھے کہ ابا صاحب پنجرے نما کمرے سے با ہر کیسے آگئے اب ہم ڈرائینگ روم میں آکر بیٹھ گئے دونوں ماں بیٹا مجھ سے بہت شرمندہ تھے میرے پاس بیٹا کئی دن سے آرہا تھا کہ میرے گھر ایک ذہنی مریض ہے جس کو دورے پڑتے ہیں میں اُس کو آپ کے پاس نہیں لا سکتا آپ برائے مہربانی میرے ساتھ چل کر اُس کو دیکھ سکیں لہٰذا آج میں اِس کے بیٹے کے ساتھ اِن کے گھر میں مریض دیکھنے آیا تھا لڑکا مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر شائد دوکان سے کو لڈ ڈرنک وغیرہ لینے گیا تھا اُس کی غیر مو جودگی میں میرے ساتھ یہ ڈرامہ ہو ا تھا کیونکہ میں اِس غیر معمولی ڈرامے کے لئے ذہنی طو رپر تیا ر نہیں تھا اِس لیے مجھے مریض کو سنبھالنے میں مشکل پیش آئی اب میرا تجسس جو بن پر تھا کہ اِس پا گل میرض کی اِن حرکتوں کا پس منظر کیا ہے توماں بو لی سر میں آپ کو بتا تی ہوں میرا میاں جوا نی میں کہانیاں لکھنے کا شوقین تھا چھوٹے مو ٹے رسالوں میں کبھی کبھار کو ئی کہا نی چھپ بھی جاتی تھی اِس کے تعلق فلمی دنیا کے لکھا ریوں سے بھی تھے فلموں میں کا م کی شوقین لڑکیوں کو یہ فلموں میں کام دینے کا جھانسا دے کر یہ اُس کے جسموں سے کھیلتا جو اِس کی با ت نہ مانتیں تو یہ اُن کو کسی بہا نے سے گھر لے آتا ہم لوگ گا ؤں میں رہتے تھے لاہور میں یہ اکیلا رہتا تھا لڑکی کو گھر لا کر بند کر دیتا پھراُن کی عزتوں سے کھیلتا ‘منہ کا لا کر تا اُن کی تصویریں ویڈیوبنا تا ‘اُن کو بلیک میل کر تا ‘شروع میں تو اﷲ نے اِس کی رسی دراز رکھی لیکن پھر قدرت نے دراز رسی کھینچ لی ایک با اثر خاندان کی لڑکی کے ساتھ جب اِس نے یہ کھیل کھیلنا چاہا تو اُس کے گھروالوں نے اِس کو پکڑ کر خو ب مارا اور پھر تھا نے بند کر ا دیا تھا نیدار کو پیسے دے کر انہوں نے اذیت ناک سزائیں دلا ئیں جن کو یہ برداشت نہ کر سکا اور اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا جب یہ قید سے رہا ہو کر گھر آیا تو ذہنی مریض بن چکا تھا ہم نے علا ج کر نے کی بہت کو شش کی لیکن اِس کی حالت بگڑ گئی اب یہ مکمل پاگل بن چکا ہے ‘کپڑے اتار کر گلیوں میں نکل جاتا ہے اِس لیے ہم اِس کو اُسی کمرے میں لا کر بند کر دیتے ہیں ‘جہاں کبھی یہ معصوم لڑکیوں کو بند کردیتا تھا اب کبھی تو یہ روتا ہے کبھی ہنستا ہے کبھی قہقے لگا تا ہے یہ کسی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے اِس لیے ہم اِسکو کھلا نہیں چھو ڑتے اب یہ لاعلاج ہو چکا ہے اِس کا علا ج کسی کے پاس نہیں ہے اب یہ پنجرہ ہی اِس کا ساتھی ہے آزاد فضا ؤں میں یہ رہنے کے قابل نہیں ہے ۔میں خدا کے نظام عدل پر حیران ہو رہا تھا کہ اُس عادل با دشاہ نے اِس کو کیسی سزا دی جیسے یہ مجبو ربے بس لڑکیوں کو دیتا تھا اِس نے دھا ڑیں مار کر رونا شرو ع کر دیا میں پنجرے کے پاس گیا اور دیکھا تو وہ بو لا مجھے خدا کے لیے با ہر نکا لو تو میں نے اُس کی آنکھوں میں گھورا اور کہا آزاد فضا ؤں میں انسا ن رہتے ہیں کیونکہ تم جا نور ہو اِس لیے جانور پنجروں میں رہتے ہیں یہ کہہ کر میں گھر سے نکل آیا

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 652463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.