اﷲ تعالیٰ نے اس رنگ برنگی دنیا میں ہم انسانوں کے
لئے لاعتداد، اشیاء پیدا کی ہیں، جو انسان کی بقاء صحت اور استحکام کے لیئے
انتہائی ضروری ہیں، جو در آنے والی کمزوریوں اور بیماریوں کی مدافعت کرتی
ہیں۔ صحت اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، بلکہ یو ں کہوں کہ صحت دنیا میں اﷲ
تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں تو غلط نہیں ہونگا۔ انسان کو سکون، چہرے پر
خوب صورتی اور رونق اسی وقت ابھرتی ہے جب انسان کے پاس صحت جیسی عظیم نعمت
ہوتی ہے۔کسی بھی شخص یا قوم کی کامیابی تین چیزوں میں مضمر ہے، صحت، صالحیت
اور صلاحیت، ان میں صحت سرفہرست ہے۔ لیکن اگر انسان صحت مند نہ ہو تو زندگی
ایک بے کار سی چیزمعلوم ہوتی ہے دنیاکی ہر چیز بے کار لگتی ہے، حیات
وکائنات کی رعنائیاں ،او ر خوبصورتی بے کیف سی لگتی ہیں، دنیا اپنی تمام
ترخوبیوں اور نعمتوں کے باوجود بھی وحشت ناک لگتی ہے۔
ایک مشہور انگریزی کا مقولہ ہے ’’ہیلتھ از ویلتھ‘‘ ۔’’صحت ہی دولت ہے‘‘
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقیافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں عام انسان صحت
کے حوالے سے لاعتداد مسائل سے دوچار ہے۔ اس کے لئے ہم سب ہی براہ راست نہ
سہی، مگر بالواسطہ یا کسی نہ کسی طور پر ذمہ دار ضرور ہیں۔ہمارے لئے
تشویشناک بات ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کھانے پینے کے سامان اصلی
اور قدرتی شکل میں دستیاب نہیں ہیں، جب کہ انسان کی اچھی صحت کیلئے اشیاء
خورد ونوش کو اپنی قدرتی حالت و شکل میں ہونا چاہیئں۔ اگر انسان کو اچھی
اور پاک صاف غذائیں فراہم ہوں تو انسان کی صحت کا کیا کہنا، لیکن آج اچھی
اور اصلی چیزیں انسانیت سوز حرکتوں کی وجہ سے اپنی اصلیت کھوچکی ہیں۔ خصوصاً
غذائی اجناس میں ملاوٹ کا مسئلہ جس طرح خطرناک شکل اختیار کررہا ہے یہ بڑا
ہی تشویشناک امر ہے۔ اشیاء خوردنی میں شاید ہی کوئی چیز ہو جو ملاوٹ سے پاک
ہو۔
آج کل ہم لوگوں کو اخبارات اور نیوز چینلوں میں روزانہ کی بنیاد پر یہ
خبریں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں، کہ فلاح جگہ میں پولیس اور میڈیا کی
ٹیموں نے چھاپہ مارا اور ایک جعلی دوائی بنانے والی یا ناقص تیل کی فیکٹری
بند ،ملزمان گرفتار ۔لیکن پھر بھی ان کا کاروبار جاری و ساری ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی آج پاکستان سمیت پوری
دنیا کے انسانوں کی صحت اور دولت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، ناپ تول میں
کمی اور اشیاء خورد ونوش میں ملاوٹ کی وجہ سے امت محمدی ؑ سے قبل کئی نبیوں
کے قوموں کو اﷲ تعالیٰ نے قسم در قسم عذاب سے ہلاک کیا ہیں۔ ناپ تول میں
کمی اور ملاوٹ عروج پر ہے ۔پاکستان میں ہر ماہ ہزاروں افراد ملاوٹ شدہ
اشیاء کے استعمال کی وجہ سے ہلاک یا سنگین بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
مسلاََ، کینسر، ہپی ٹائی ٹس ، ہضہ، گردوں کا فیل ہونا وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت ملک میں دودھ زیادہ طر جانوروں سے نہیں بلکہ سنگھاڑے کے پاوڈر، سرف،
الائچی اور کوکنگ آئل سے حاصل کیا جاتا ہیں ۔ مرغی کو جلدی بڑا کرنے کے لئے
مُرغیوں کو مرغی کا ہی گوشت کھلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہارمونز کے ٹیکے
لگا کر مرغی کو وقت سے پہلے تیار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ مرغی جو
فطرتی طور پر ڈیڑھ کلو سے اوپر نہیں جاتی وہ تین تین کلو کی ہو کر مارکیٹ
میں فروخت ہوتی ہے۔
پھل اﷲ تعالیٰ کی ایک اہم نعمت ہے اس میں قسم در قسم ویٹامین پائے جاتیں
ہیں جو انسانوں کی صحت کے لئے ناگزیر ہیں، لیکن ان ملاوٹ کی پجاریوں سے پھل
بھی محفوظ نہیں پھلوں کو تازہ رکھنے کے لئے اُن پر مومی تہہ چڑھائی جاتی ہے،
تربوز کو میٹھا کرنے کے لئے اُن میں رنگ اور میٹھاس کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
لیچی پر سپرے پینٹ سے رنگ کیا جاتا ہے۔آم کو کاربیٹ میں رکھ کر جلدی تیار
کیا جاتا ہے جس سے آم کے قدرتی ذائقہ سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ نمک انسان
کی خوراک کا ایک اہم جوز ہے لیکن یہ بھی محفوظ نہیں نمک میں چونا او ر سفید
پتھر پیس کر ملایا جاتا ہے۔ لہسن کا وزن بڑھانے کے لیے اسے تیزاب میں ڈبود
یا جاتا ہے ، آٹا بھی ملوٹ سے پاک نہیں آٹے میں میدے کی آمیزش کی جاتی ہے
اور میدے میں سنگھاڑے کا پاؤڈر ملایا جاتا ہے۔
چنے کے چھلکے پیس کر اس سے چائے کی پتی تیار کی جاتی ہے پھر اس چھلکوں پر
رنگ کر کے چائے کی استعمال شدہ پتی میں ملا دیا جاتا ہے۔ لال پسی ہوئی
مرچوں میں چوکر کو لال رنگ دیکر ملادیا جاتا ہے ۔ ہلدی میں میدہ اور چاول
کا آٹا رنگ کر کے بیچا جا رہا ہے۔ٹماٹروں کے بجائے آلو، کدو، اراروٹ اور
رنگ ڈال کر مضر صحت کیچپ تیار کی جاتی ہیں، گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے
ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی ڈالا جاتا ہے مردہ جانوروں کی چربی سے گھی تیار
ہورہا ہے۔ادرک کو خطر ناک تیزاب میں ڈبو کر صاف اور اس کا وزن بڑایا جاتا
ہے ۔گاڑیوں کے تیل کو گھی اور کھانے کے تیل میں ملایا جاتاہے اور ان کو
پکوڑے سموسے اور پکوان سینٹروں کو فروخت کیا جاتا ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی
ہنگامی پیداوار کے لیے بھی آکسی ٹوسن نامی انجیکشن کا استعمال معمو ل بنتا
جارہا ہیں، ماہرین کے مطابق اس طرح قدرتی طورسے سبزیوں اور پھلوں کو لائق
استعمال ہونے میں تقریباً دس سے پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔( ڈاکٹروں کا کہنا ہے
کہ آکسی ٹوسن کا استعمال عام طور پر حمل ڈلیوری میں پریشانی کے وقت کیا
جاتا ہے، اس کے علاوہ اس دوا کا کوئی استعمال معروف نہیں۔ ڈاکٹروں کی یہ
بھی رائے ہے کہ آکسی ٹوسن سے تیار کی جانے والی سبزیوں سے لوگ پیٹ اور دیگر
خطرناک عارضوں کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ کینسر تک کی بیماری لاحق ہو سکتی
ہے۔میڈیا رپورٹ)
ایک اور رپورٹ کے مطابق پھلوں میں سیکرین نامی کیمیکل ڈالا جا رہا ہے جس سے
پھل کا ذائقہ زیادہ میٹھاتو ہو جاتا ہے لیکن سیکرین کے استعمال سے یہ پھل
صحت کے لیے انتہائی مضر ہو جاتا ہے اور بلیوں کو پلایا جانے والا امپورٹڈ
جوس (وسکس) بازار میں مینگو جوس کے نام سے فروخت کیا جاتا رہا ہے۔یورپی
ممالک میں جو خوراک زائد المیعاد ہو جاتی ہے اسے اسکریپ کے ساتھ پاکستان
درآمد کر کے یہاں اس کا لیبل تبدیل کر دیا جاتا ہے، پھر تازہ تاریخ کے ساتھ
اسے مارکیٹ میں کھلے عام بیچا جا رہا ہے۔(نیوز رپورٹ)پنجاب سمیت ملک بھر
میں چھاپوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گدھے، خنزیر اور دیگر حرام اشیا
ء گوشت کو مٹن اور بیف کے نام پر مختلف ہوٹلوں فراہم کیا جاتا ہیں جبکہ
مردہ جانوروں کا گوشت بھی شہر بھر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
ٓاس کے ساتھ ساتھ ملک میں ناپ تول میں کمی کرنے والے بھی عروج پر ہیں ، اﷲ
تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیاتوں میں صحیح صحیح ناپنے اور پورا پورا
تولنے کا واضح اور دوٹوک حکم دیا ہے۔ چند آیات ملاحظہ کیجیے ۔پس پورا پورا
ناپو اور تولو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو (سورۃ الاعراف:85) اور
ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ (سورۃ ہود:85) جب کوئی چیز ناپ کر دو تو پورا پورا
ناپو اور ٹھیک ٹھیک ترازو سے تولو۔(سورۃ الشعراء:18)
اس وقت ملک خداد پاکستان کو کئی مسائل کا سامنہ ہے جن میں سب سے بڑا مسئلہ
دہشتگردی ہے۔ اس کے ساتھ بے روزگاری اور اشیاء خورد نوش میں ملاوٹ بھی بڑے
مسائل ہے ۔ ملاوٹ خوروں،ناپ تول میں کمی کرنے والوں اور منافع خوروں کو
ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے غیر
ایمان دارانہ راستہ اختیار کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ ترقی اور مالداری
کی معراج کے لئے تو شب وروز محنت ہونی چاہئے۔ ملاوٹ ایک غیر انسانی عمل ہے
اور ہم تو مسلمان ہے ملاٹ اور ناپ تول میں کمی حقوق العبادکی تلافی میں آتا
ہیں۔ اس بچنا ہم پر فرض ہے۔ مفسر قرآن حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی فرماتے
ہیں کہ آج دودھ میں ملاوٹ عام جرم ہے، پانی کی ملاوٹ، مکھن نکال کر سپریٹا
دودھ بنانا، دودھ میں پاوڈر ملانا، ناپ تول میں کمی کرنا یہی وہ ناپاک
کمائی ہے جس کے ذریعے کی گئی عبادت کو خدا قبول نہیں کرتا۔ حج پر حج کرو یا
مذہبی دورے کرو،مسجد بناؤ، یا مدرسے میں خرچ کرو سب کے سب بے اثر ہیں۔ کسب
حلال سے کی گئی عبادت ہی آخرت میں کام آئے گی۔
اﷲ ہم سب کو ہدائت نصیب کریں (آمین)
|