اسلامی ریاست میں سود کا نظام اور ناکام ریاست

ماضی کی طرح قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا سال 2017-18 بجٹ کا بھی سنگین المیہ یہ رہا کہ بجٹ کی کل رقم کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا

ماضی کی طرح قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا سال 2017-18 بجٹ کا بھی سنگین المیہ یہ رہا کہ بجٹ کی کل رقم کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا۔۔ سود کتنا بڑا گناہ ہے اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو سختی سے منع کیا گیا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال یہ ہے کہ ہم سود کو چھوڑنےکےلیے تیار نہیں۔ ہمارے لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پاکستان کی تقریباً نصف آبادی کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں،تنگدستی سے بے زار خودکشیوں اور غربت ، بھوک اور افلاس کے مارے ماں باپ کی طرف سے اپنے بچوں کو قتل کر نے کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ سود کی مدمیں1363 ارب روپے کی خطیر رقم نئے سال کے بجٹ میں مختص کر رہے ہیں۔ عام طورپر جب سود کی ادائیگی کی بات کی جاتی ہے تو تاثر یہ دیاجاتاہے کہ یہ تو ہماری مجبوری ہے کیوں کہ اس ادائیگی کا تعلق بیرونی قرضوں سے ہے جو حقیقت نہیں بلکہ مکمل جھوٹ اور فراڈہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق سود کے لیے مختص 1363 ارب روپے میں سے صرف 132 ارب روپے بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کےلیے1231 ارب روپے بجٹ میں رکھا گیا ہے۔ زرا سوچیں اگر ہر سال یہ رقم پاکستان کے غریبوں پر خرچ کی جائے تو کیا چند ہی سالوں میں یہاںکوئی غریب رہے گا؟ بلکہ یہ تو اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بناسکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی سوچتاہی نہیں۔ افسوس اس بات کاہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین اپنے دین کی تعلیمات کے برخلاف اس غیر اسلامی کام کےلیے آنکھیں بند کر کے اپنا ووٹ ڈال کر ہر سال بجٹ پاس کروادیتے ہیں۔ بجٹ دستاویزات کو دیکھیں تو سب سے پہلے نظر ہی سود کی ادائیگی (interest payments) پرپڑتی ہے کیوں کہ یہ رقم پاکستان کے دفاع یا ترقیاتی کاموں کےلیے مختص رقوم سے بھی زیادہ ہے ۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں سود کی ادائیگی کے لیے دس ہزار ارب روپِےسے زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا جو ایک طرف اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب ہے تو دوسری طرف یہ پاکستان اور اس کی غریب عوام کے ساتھ انتہائی درجہ کی زیادتی ۔ یہ رقم اگر لوگوںپر خرچ کیجائے تو اُن کی زندگی بدل جائے۔ لیکن یہ سارا پیسہ اُن چند جیبوں میں چلاجاتاہے جو بینکنگ کے نام پر حکومت کو سالانہ کھربوں روپے قرض دے کر اس سودی رقم میں ہر سال اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ جس حساب سے حکومتیں اندرونی قرضوں کے شکنجے میں پھنستی جا رہی ہےتو اُس تناظر میں ڈر ہے کہ کہیں دو چار دہائیوں کے بعد پاکستان کا تمام کا تمام بجٹ ہی سود نہ کھا جائے۔ گویا ہم اپنی دنیا بھی خراب کر رہے ہیں اور آخرت بھی۔
 

Sameer Ali Khan
About the Author: Sameer Ali Khan Read More Articles by Sameer Ali Khan: 8 Articles with 5276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.