20 صدی کے آخری عشرے کے آخری 8 سالوں میں عالمی طاقت نے’’
تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عالم اسلام کے
مذکورہ ممالک کے خلاف ’’غیر اعلانیہ تیسری عالمگیر جنگ‘‘ کا آغاز کر رکھا
ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر کو انتہا پسند‘قدامت پسند‘ عسکریت پسند‘دہشت گرد
اور مذہبی جنونی قرار دے کر انہیں عالمی طاقت کی حساس اور خفیہ ایجنسی سی
آئی اے نے ’’بدمعاش ریاستیں‘‘ ڈکلیئر کردیا تھا۔ ان ممالک کی سرحدوں کو
باقاعدہ طور پر ’’روگ بارڈرز‘‘ کی غلیظ ترین اصطلاح سے معنون کیا گیا۔
امریکہ کی بعض ایجنسیوں نے عالم اسلام کے کئی ممالک کو اپنی ویب سائٹس پر
بیانگ دہل Heavens of terrorists)) قرار دیا۔ ان میں سوڈان‘افغانستان
‘ایران‘ عراق ‘شام ‘لیبیا‘ صومالیہ‘ یمن اور پاکستان تک کا نام شامل تھا
لیکن 9/11 کے بعد حکومت پاکستان نے مبینہ ’’دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی
جنگ‘‘ میں غیر مشروط طور پر امریکہ کا حلیف بنناقبول کرلیا تو پاکستان کا
نام مذکورہ امریکی ایجنسیوں کی ویب سائٹس سے حذف(Delete)کردیا گیا۔ نظریہ
ضرورت کے تحت پاکستان کا نام حذف کرچکنے کے باوجود امریکی و مغربی میڈیا
اندر خانہ پاکستان کے خلاف گاہے ماہے مختلف شوشے چھوڑتا رہا۔ اس صدی کا سب
سے بڑا سچ یہ ہے کہ اکتوبر 2001ء میں اگر افغانستان پر مسلط کردہ عالمی
طاقت اور اس کے حلیفوں کی جنگ میں پاکستان ان کا ساتھ نہ دیتاتو نیٹو کا
ایک فوجی بھی افغان دھرتی پر قدم رکھنے کے قابل نہ ہوسکتا۔
کوئی مانے یا نہ مانے تلخ سچائی یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی
مبینہ جنگ میں حکومت پاکستان نے ’’ملکی مفاد وقومی مفاد‘‘عالمی طاقت اور اس
کے حلیف حملہ آوروں کے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ۔9/11 کے ’’سانحہ‘‘ کے
بعد قوم سے خطاب کے دوران ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے عزیز ہم وطنوں کو
اعتماد میں لینے کے لئے قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں جس امر کی وضاحت کی
گئی تھی اس کا لب لباب یہ تھا کہ حکومت پاکستان اس موقع پر جو کچھ بھی کر
رہی ہے وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کر رہی ہے۔ڈکٹیٹر نے اپنے ہم وطنوں
کو یقین دلایا تھا کہ طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک
کا ساتھ محض اس لئے دیا جارہا ہے تاکہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام‘ مسئلہ
کشمیر‘قومی اثاثوں و تنصیبات‘داخلی و قومی معیشت اور پاکستان کی جغرافیائی
و نظریاتی سرحدوں کو محفوظ اور مضبوط ترین بنایا جاسکے۔ پرویز مشرف کے اس
بیان کے بعد وطن عزیز کے صائب الرائے دانشور حلقوں میں ایک بڑی بحث کا آغاز
ہوا۔ پاک امریکہ دوستی کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے ارباب دانش و بینش
کا نقطہ نظرانتہائی واضح تھا۔ وہ اشگاف الفاظ میں انتباہ کر رہے تھے کہ
امریکہ کبھی کسی ملک کا مخلص اور ایثار پیشہ دوست نہیں بن سکتا کیونکہ اس
کی دوستی ہمیشہ اپنے اغراض اور مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ جونہی امریکیوں کے
مفادات کی تکمیل ہوجاتی ہے ‘ وہ اپنے دوست ممالک کی سالمیت‘سلامتی اور
استحکام کے سفینے کو بحرانوں اور طوفانوں کے منجدھار میں ہچکولے کھانے کے
لئے تنہا چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں۔اور لب ساحل کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے اور
قہقے اڑاتے ہیں۔پاکستان اپنے قیام کے اوائل ہی سے امریکہ کا حلیف رہا
ہے۔1946ء میں امریکہ نے سرد جنگ کا آغاز کیا۔1947ء میں قیام پاکستان عمل
میں آیا۔ ان ابتدائی برسوں ہی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی
خان نے امریکہ کا دورہ کرکے یونائیٹڈ سوویت سوشلسٹ ری پبلک آف رشیا کو اپنا
حریف بنا لیا۔ یوں سرد جنگ میں 1950ء سے 1989ء تک پاکستان نے ہر آڑے موقع
پر امریکی اقدامات و موقفات کی تائید و حمایت کی۔ اس کے برعکس 1965ء اور
1970ء کی جنگ میں امریکہ نے اپنے حلیف ملک پاکستان کا کسی بھی سطح پر کوئی
ساتھ نہ دیا جبکہ سوویت روس نے کھلم کھلا بھارت کی حمایت کی۔20ویں صدی کے
چھٹے عشرہ کے نصف وسط کے بعد ا س دور کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے اپنی
سوانح عمری Friends Not Masters) )لکھی۔جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ اس
امر کا اعلان کیا کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کے شہری امریکہ کو محض اپنا
دوست سمجھتے ہیں نہ کہ اپنا آقا۔
20ویں صدی کے ساتویں عشرے کے اواخر میں سوویت روس نے جب افغانستان پر
غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے جارحیت کے جرم کا ارتکاب کیا اور اس کی افواج نے
وہاں بدترین قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے شہری آبادیوں اور
شہریوں کو تختہ مشق ستم بنانا شروع کیا تو برادر اسلامی ملک کی حیثیت سے
حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے افغان عوام کی تحریک مزاحمت میں ان کا
ساتھ دیا۔یہ ہمہ جہتی تعاون تھا۔یہ تعاون قطعاً امریکہ کے ایما پر نہیں
تھا۔امریکہ تو حکومت پاکستان اور افغان عوام کی تحریک مزاحمت کی امداد کے
لئے اس وقت میدان عمل میں اترا جب افغان عوام کو دنیا کی دوسری بڑی طاقت کی
افواج سے لڑتے ہوئے 4برس بیت چکے تھے۔ اس دوران امریکیوں کو خدشہ پیدا ہوا
کہ اگر سوویت روس کی افواج کی جارحانہ پیش قدمی نہ روکی گئی تو وہ گرم
پانیوں تک رسائی حاصل کرلے گا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ابتدائی 4برسوں میں
حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے سوویت روس کی ظالم اور غاصب افواج کے
خلاف نہتے افغان کی تحریک مزاحمت کا ساتھ اس لئے دیا کہ اس امر کا قوی
امکان تھا کہ اگر سوویت روس کی جارح اور غاصب افواج کا راستہ نہ روکا گیا
تو وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سمندری علاقوں کی تسخیرکو اپنا ٹارگٹ
بنائے ہوئے ہیں۔آخر پاکستان کے بھرپور تعاون کے جب مثبت نتائج سامنے آنا
شروع ہوئے تو امریکہ اور مغربی دنیا بھی افغان عوام کی تحریک مزاحمت کی ہمہ
جہتی امداد کے لئے آمادہ ہوئی۔ایک عشرے پر محیط اس جنگ نے سوویت روس کی
داخلی معیشت کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیا۔ افغان عوام اور مجاہدین کی تحریک
مزاحمت کے اثرات ان وسط ایشیائی مسلم ریاستوں پر بھی مرتب ہوئے‘ جن پر روس
بتدریج 4 سے 5 عشروں تک قابض رہا۔امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے ابلاغیاتی
توانائی اور طاقت کے بل بوتے پر یہ تاثر عالمی برادری کے اذہان و قلوب میں
واضح کردیا کہ 20 ویں صدی کے 9 ویں عشرے کے آخری برسوں میں امریکی و مغربی
امداد کے بل بوتے پر افغان مجاہدین اور پاکستان روسی افواج کو پس قدمی اور
پسپائی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران
دنیا کی دوسری بڑی طاقت سے پاکستان کی کوئی ذاتی مخاصمت نہ تھی۔ یہ تو
پاکستان کی رولنگ کلاس کی امریکہ نوازی تھی‘ جس نے روس کو بھارت کی طرح
پاکستان کا بدترین دشمن بنا کر رکھ دیا تھا۔ امریکیوں کا وتیرہ ہے کہ وہ
اپنا کام نکال چکنے کے بعد آلہ کارکے طور پر استعمال ہونے والے ملک کو
آنکھیں دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ جب تک ان کے اہداف و عزائم حاصل نہیں ہوتے
وہ اس ملک کے اقتدار پر متمکن حکمرانوں کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے ہیں اور
جب اہداف و عزائم تک انہیں رسائی حاصل ہوجاتی ہے تو انہی حکمرانوں کو وہ
آنکھیں دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ طالبان حکومت کی مسماری کے دنوں میں غیر
جانبدارمحب وطن تجزیہ نگار ارباب حکومت کی توجہ بار بار اس امر کی جانب
مبذول کرواتے رہے کہ انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ کسی بھی عہد کی کوئی سی
بھی عالمی طاقت اس چڑیل کی مانند ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو خود کھاجاتی ہے۔ |