بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر: حبیب اﷲ قمر
کشمیری مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ شہ رگ کشمیر پربھارتی
غاصبانہ قبضہ کے بعد سے کوئی دن ایسانہیں گزرتا جب نہتے کشمیری مسلمانوں کی
عزتیں و حقوق پامال نہ ہوتے ہوں اور ان کی جائیدادوں و املاک کو تباہی سے
دوچار نہ کیاجاتا ہو۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج آئے دن نت نئے مظالم ڈھانے میں
مصروف ہے۔ سرگرم کشمیری نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر محض ترقیاں و
تمغے حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوں میں شہیدکرنا معمول بن چکا ہے۔لاکھوں
مسلمان شہیدکئے جا چکے‘ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان تاحال لاپتہ ہیں
جن کی تلاش میں ان کے اہل خانہ خاک چھانتے پھرتے ہیں مگر کوئی انہیں بتانے
کیلئے تیار نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں تاہم اس کے باوجودحریت پسند
قیادت اور عوام نے غاصب بھارتی فوج کے مقابلہ میں وہ لازوال قربانیاں پیش
کی ہیں کہ انہیں تاریخ کے سنہری حروف میں یاد رکھاجائے گا۔اسی حوالہ سے
13جولائی 1931ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہی وہ
دن تھا کہ جب سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوج نے بدترین ریاستی
دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 23افرادکو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔اس
واقعہ سے قبل 19اپریل 1931ء کوجموں کی جامع مسجد کے امام مفتی محمد اسحٰق
میونسپل باغ کمیٹی میں عیدالاضحی کا خطبہ دینے کیلئے موجود تھے کہ ڈوگرہ
پولیس کے انتہائی متعصب ڈی آئی جی چوہدری رام چند نے انہیں عید کا خطبہ
دینے اور نماز کی ادائیگی سے روک دیا جس پرمقامی مسلمانوں نے اسے مذہبی
معاملات میں مداخلت قرار دیا اور پورے جموں میں ایک زبردست احتجاجی لہر چھڑ
گئی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ جموں میں ہی 4جون 1931ء کوایک ہندو پولیس
انسپکٹر لبھو رام نے (نعوذ بااﷲ) قرآن پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا جس پر
کشمیری مسلمانوں کے جذبات مزید مشتعل ہو گئے اور پوری ریاست جموں کشمیر میں
احتجاج کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان واقعات کیخلاف 25جون
کو ریڈنگ روم پارٹی کی جانب سے سرینگر میں ایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد
کیا گیا جس میں شیخ محمد عبداﷲ سمیت کئی لیڈروں نے ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر
یں کیں۔اسی جلسے میں عبدالقدیر نامی ایک نوجوان جسے مجمع میں کوئی نہیں
جانتا تھا‘ نے آگے بڑھ کر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف قرآن و حدیث کی روشنی میں
ایسی زبردست تقریر کی جس نے لوگوں کا خون گرما کر رکھ دیا۔ انہوں نے قرآن و
سنت کی روشنی میں شرکاء کو بتایاکہ جب مسلمانوں کی عزتیں، جان و مال اور
حقوق محفوظ نہ ہوں اور انہیں عبادات کی بھی مکمل آزادی حاصل نہ ہو تو پھر
مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ میدان میں عمل میں نکلیں اور دین اسلام کے دفاع
کیلئے قربانیوں و شہادتوں کاراستہ اختیار کیا جائے۔ ان کے اس خطاب کے فوری
بعد انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔پانچ جولائی کو اس کیس کی
سماعت سنٹرل جیل سری نگر میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے خلاف 12جولائی کو
پورے شہر میں تاریخی ہڑتال کی گئی۔13جولائی کو سنٹرل جیل میں کیس کی سماعت
ہونا تھی۔اس دن صبح سے ہی سری نگر اور گردونواح سے قافلوں نے جیل کے باہر
پہنچنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد اس قدر بڑھی کہ دور دور تک ہر
طرف لوگوں کا ایک سمندر نظر آتا تھا جو دینی جذبہ کے تحت اپنے اس بھائی کو
جیل میں ڈالے جانے کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کیس کی کاروائی سے متعلق
آگاہی کیلئے یہاں پہنچے تھے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ نماز ظہر کا وقت آن
پہنچا اورلاکھوں کشمیریوں نے نماز کی تیاری کا آغاز کر دیا۔ اس دوران ایک
نوجوان اذان کہنے کیلئے آگے بڑھا اور ابھی اس نے اﷲ اکبر ہی کہا تھا کہ
ڈوگرہ فوجیوں نے گولی چلائی جو اس کے سینے پر لگی اور وہ موقع پر شہید
ہوگیا۔ ڈوگرہ فوجیوں کی یہ حرکت پورے مجمع کیلئے بہت بڑا چیلنج تھی۔پہلے
نوجوان کی شہادت کے بعد دوسرا آگے بڑھا ‘ اس نے بھی ابھی اﷲ اکبر ہی کہا
تھا کہ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جیل کے باہر موجود کشمیری اس
قدر پرعزم تھے کہ ہر شخص آگے بڑھ کر اذان کہتے ہوئے شہادت حاصل کرنے کا
متمنی تھا ۔ کسی کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ جس نماز کی نیت سے اذان کہی
جارہی ہے وہ مکمل نہ ہو سکے ۔اس طرح غیور کشمیری آگے بڑھتے اور اذان کے
الفاظ کہتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے رہے۔ یوں پوری دنیاکی تاریخ
میں یہ منفرد اذان تھی جسے کہنے کیلئے 23افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش
کیا۔ سنٹرل جیل کے باہر نہتے کشمیریوں پر اس طرح گولیاں برسانے کی خبر جب
وادی کے اطراف و کناف میں پھیلی تو ہر طرف ایک طوفان بپا ہو گیا اور ڈوگرہ
حکمرانوں کے خلاف نفرت کا لاواپھوٹ پڑا۔ جگہ جگہ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر
احتجاج شروع کر دیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔پندرہ جولائی سے چوبیس ستمبر تک
کشمیر کے چپے چپے میں ڈوگرہ فوجیوں کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کا زبردست
قتل عام کیا گیا اور اس عرصہ میں کثیر تعداد میں مزید کشمیری شہید کر دیے
گئے۔17جولائی 1931کو جمعہ کا دن تھا ۔ چار دن پہلے سنٹرل جیل کے باہر ہونے
والے قتل عام کے باعث پوری وادی غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ڈوگرہ
حکمرانوں کے خلاف کشمیر ی مسلمانوں کے دلوں میں پیداہونے والی نفرت شعلوں
میں تبدیل ہوچکی تھی۔ہر سو لوگ سراپا احتجاج تھے ۔ کاروبار زندگی ٹھپ ہو
چکا تھا۔نماز جمعہ کے بعد پوری وادی میں احتجاج کا پروگرام تھا ۔لوگ قطار
اندر قطار مساجد کا رخ کر رہے تھے ۔ایسے لگتا تھا کہ جیسے تمام راستے مساجد
کو جاتے ہوں۔بھاری تعداد میں ہندوستانی فورسز تعینات تھیں‘کسی کو معلوم نہ
تھا کہ آج خون کی ایک اورہولی کھیلی جائے گی۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد
جب احتجاجی جلوس نکالا گیا تو وہاں تعینات ڈوگرہ فوجیوں نے ایک بار پھر
بندوقوں کے دہانے کھول دیے اوردیکھتے ہی دیکھتے چھ کشمیری شہید کر دیے
گئے۔لوگوں کے جذبات اس قدر مشتعل تھے کہ غلام محمد خان نامی ایک نوجوان جس
کی شادی انہی دنوں ہوئی تھی‘ نے جب جلوس پر گولیاں چلتے ہوئے دیکھیں تو اس
نے اپنی دکان میں جلنے والے چولہے سے ایک جلتی ہوئی لکڑی نکالی اور پو یس
اہلکاروں پر ٹوٹ پڑا جنہوں نے جواب میں تھری ناٹ تھری بندوق سے اس کے سینے
میں کئی گولیاں پیوست کیں اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگیا۔ اس کے
بعد کرفیو نافذ ہوا اور تین روز تک لاشیں جامع مسجد بھی پڑی رہیں۔بعد میں
مقامی لوگوں نے ان تمام نعشوں کو ایک ہی جگہ دفن کیا جو مزار شہدا1931کے
نام سے موسوم ہے۔آج اس واقعہ کو86برس گزر چکے ہیں لیکن ان شہداء کی
قربانیوں کو آج بھی اسی طرح یاد کیا جا تا ہے جنہوں نے اس وقت اپنے آج کو
کشمیری قوم کے کل کیلئے قربان کر دیا۔13جولائی کے شہداء کا مشن آج بھی
ادھورا ہے۔ غاصب بھارتی فوج کے خلاف قربانیاں پیش کرنے والے کشمیریوں نے
ثابت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس مشن کوفراموش نہیں کیا ہے۔ کشمیرمیں اگر
اسوقت لوگ اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دیتے تھے تو آج بھی اس جیسے واقعات
پیش آرہے ہیں‘ جہاں بوڑھے والدین اپنے بچوں کومنوں مٹی تل دفن کرتے نظر آتے
ہیں۔ بہرحال کشمیریوں کی جدوجہدآزادی پوری قوت سے جاری ہے۔ ابوالقاسم
اوربرہان وانی کی طرح سبزار بھٹ، جنید متو اور بشیر لشکری جیسے کمانڈروں
اور عام کشمیریوں کی شہادتوں نے تحریک آزادی کو فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا
ہے۔ اس وقت بھی کشمیریوں میں وہی جذبہ، جوش اور ولولہ ہے جو 1931ء میں اذان
مکمل کرنے کیلئے شہادتیں پیش کرنے کا تھا۔ آج بھی کشمیری قوم کا بچہ بچہ
بھارتی فوجی ظلم و بربریت کیخلاف سینہ تانے کھڑا ہے اور کشمیریوں کی گولیوں،
پیلٹ گن اور کیمیائی ہتھیاروں کا مقابلہ پتھروں سے کیا جارہا ہے۔ کشمیر کے
گلی کوچوں میں برسرعام پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں اور شہداء کی لاشوں
کو سبز ہلالی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کیاجارہا ہے۔ برہان وانی کے یوم شہادت
کے حوالہ سے حریت کانفرنس کی اپیل پر ہفتہ یکجہتی کشمیر کا اعلان کیا گیا
اور اسی دوران تیرہ جولائی یوم شہدائے کشمیر بھرپور انداز میں منایا گیا ہے۔
پاکستان میں بھی جماعۃالدعوۃ کی طرف سے عشرہ یکجہتی کشمیر منایا جارہا اور
اس سلسلہ میں ملک بھر میں شہدائے کشمیرکانفرنسوں کا انعقاد کیاجارہا ہے
تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں بھارتی خوشنودی کیلئے
کشمیریوں کے حق میں بلند ہونے والی سب سے مضبوط آواز کو خاموش کرنے کیلئے
حافظ محمد سعید جیسے رہنماؤں کو تقریبا چھ ماہ سے نظربند رکھا گیا ہے۔ اس
صورتحال سے کشمیری خوش نہیں ہیں اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔
تحریک آزادی اس وقت پورے عروج پر ہے اور یہ ماضی کی غلطیاں دہرانے کا وقت
نہیں ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستانی حکمران محض بھارت سے یکطرفہ دوستی
اور ہندوبنئے کی خوشنودی کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچانے
سے باز رہیں اور کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کی جائے وگرنہ یہ بات یاد
رہے کہ اﷲ کی پکڑ بہت سخت ہے ۔مظلوم کشمیریوں کی قربانیاں و شہادتیں نظر
انداز کر کے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پانامہ اور ڈان لیکس جیسے معاملات سے جان
چھوٹ جائے گی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ |