دین اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے اس کے تمام قوانین وضوابط
آفاقی وفطری ہیں ا س کا کوئی بھی اصول خلاف فطرت نہیں ہے ، اللہ نے بندوں
کو اس روئے زمین پر اشرف المخلوقات بناکر بھیجااور پاکیزہ ومہذب زندگی
گزانے کا ایک منظم اصول سکھلایا اور قرآن کی شکل میں ایک منشور و لائحہ
عمل عطا فرمایا اورنبی آخرالزماں ﷺ کے ارشادات وفرمودات کے ذریعہ اس دین
متین کی تکمیل کرکے حسب خواہش کسی کمی وبیشی کے تمام راستوں کوہمیشہ ہمیش
کےلئے مسدود کردیا اور یہ آفاقی پیغام دے دیاکہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ
لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ
الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ ’’آج میں نے تمہارے لئےتمہارےدین کو کامل کردیا اور
تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند
ہوگیا‘‘(المائدۃ :۳)
چنانچہ اللہ کی کتاب اور نبی کائنات ﷺ کی سنت اسلامی احکام وقوانین کی اصل
اورمصدر ہیں جن میں انسانیت کی دینی ودنیاوی فوزوفلاح کا راز مضمر ہے ،جیسا
کہ قرآن کے متعلق اللہ کا فرمان ہے کہ ﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي
لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ﴾’’ یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتاہے جو بہت ہی
سیدھاہے‘‘ ۔(الاسراء:۹)اور نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی شہادت دیتے ہوئے
قرآن نےفرمایا:﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ
يُوحَى﴾’’اور وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں ،وہ تو صرف وحی ہے
جوآپ کی طرف اتاری جاتی ہے ‘‘(النجم :۳،۴) اور نبی کریم ﷺ نے بزبان
خودکتاب وسنت کے متعلق شہادت دیتے ہوئےفرمایاکہ’’ تَرَكْتُ فِيكُمْ
أَمْرَيْنِ ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا : كِتَابَ اللہِ
وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘ کہ میں تمہارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑ کر جارہاہوں
اگر تم ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے
وہ ہے اللہ کی کتاب قرآ ن مجید اور نبیﷺ کی سنت ‘‘۔(موطاء ،کتاب القسامہ
:بَابُ النَّھيِ عَنِ الْقَوْلِ بِالْقَدَرِ، ح؍ ۲۶۱۸) اور دوسری جگہ
فرمایاکہ’’ عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘تم میرے
بعد میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو سنت کو مضبوطی سےدانتوں سے
پکڑے رہنا ۔(شرح مشکل الآثار:۱۱۸۶)
یہ تمام نصوص شرعیہ اس بات پر دال ہیں کہ ہم اس دین متین کو کتاب وسنت اور
اقوال صحابہ وسلف صالحین کی روشنی میں سمجھیں گے اور اپنے مسائل ومشکلات
کوان ہی کی روشنی میں حل کریں گے جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ اور معیار ہدایت
ہیں اور اگر ہم نے اپنی ہٹ دھرمی او راتباع نفس کی پیروی میں ان راستوں کو
چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیارکیا تو یقینا ہم اس دنیا کے اندر بھی ذلیل
وخوار ہوں گے اور اپنی عاقبت بھی خراب کرلیں گے جیسا کہ نبی کریمﷺ کا فرمان
’’ وكل محدثة بدعة ‘‘اوردین کے اندر ہر نئی چیز بدعت ہے’’وكل بدعة
ضلالة‘‘اور ہر بدعت گمراہی ہے ’’ و كل ضلالة في النار‘‘ اورہر گمراہی انسان
کو جہنم میں لے جانے والی ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ :۱۷۸۵)
لیکن افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ اور میڈیائی دور میں ہر کس وناکس اپنے
آپ کو علامہ ،مفتی اور عالم دین سمجھتاہے ،جس کے پاس کتاب وسنت کا ادنیٰ
سا بھی علم نہیں ہو تاوہ بھی دھڑلے سے فتویٰ پر فتویٰ دیتاہے جس کی وجہ سے
وہ خود بھی گمراہ ہوتاہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتاہے جو قیامت کی
نشانیوں میں سے ایک نشانی بھی ہے ۔ کہ لوگ ایسے نااہلوں اور کم علموں سے
مسئلہ مسائل پوچھیں گے جن کے پاس شریعت کا علم نہیں ہوگاوہ غلط فتویٰ دے کر
خود بھی گمراہ ہوںگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے ۔
حالیہ دنوں ملک عزیز میں طلاق ثلاثہ ، تعدد ازدواج اور حق وراثت کا مسئلہ
ملکی وریاستی طورپر نہایت ہی عروج پرہے جس کو حکومت ایک سیاسی مدعا بناکر
ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے حربہ کےطور پر
استعمال کر رہی ہے اورہمارےدین ومذہب کو حرف نشانہ بناکر مسلمانوں کے آپسی
،اندرونی اور دینی مسائل میں دخل اندازی کرکے ان کو مختلف ٹولیوں اور
گروہوں میں بانٹ کران کی شناخت مجروح اور طاقت کو کمزور کررہی ہے۔جس
میںحقیتا کچھ تو خامی ہماری بھی ہے کہ ہم ایک اللہ اور ایک نبی کو ماننے
والے مسلمان اس عائلی و شرعی مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں ،کوئی کہتاہے کہ
ایک مجلس کی تین طلاق تین مانی جائے گی اور اس پر وہ ائمہ اربعہ سمیت اپنے
مختلف علماء کے اقوال پیش کرکے اپنی بات کو تقویت دیتاہے تووہیں دوسری طرف
دوسرے مکتب فکر کا عالم دین کہتاہے کہ نہیں !’’ایک مجلس کی تین یا تین سے
زائد طلاق کا شمارہ تین نہیں بلکہ ایک ہوگا‘‘! اور وہ اپنے بات کی
تائیدوتقویت کے لئے اصل مرجع ومصد ر کا سہارالیتاہے اورقرآن کریم کی
بیشمار آیات مثلا:’’الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ
تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ‘‘(البقرۃ :۲۲۹)یعنی طلاق دو مرتبہ ہیں ،پھر یاتو
اچھائی سے روکنا یاعمدگی کے ساتھ چھوڑدیناہے‘‘ اس کے ساتھ ساتھ نبی
آخرالزماں ﷺ کے اقوال کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتاہےکہ نبی اکرم ﷺ کے
زمانے میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھی اسی طرح خلیفہ اول
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی انہیں احکامات پر عمل
کیا جاتاتھا البتہ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے
ابتدائی دو سالوں میں بھی انہیں الہٰی پیغام پر عمل ہوتاتھا لیکن جب ان کے
دور خلافت میں طلاق کی کثرت ہونے لگی تو آپ ؓ نے لوگوں کو ڈرانے اور
دھمکانے نیز اس قبیح حرکت سے باز آنے کے لئےایک حکمت عملی اور حکومتی
پالیسی نیز اصلاح معاشرہ کی خاطر ایک مجلس کی تین طلا ق کو تین شمار کرکے
اس پر عمل کروانا شروع کردیاچنانچہ آپ کے اس ہم فیصلے سےطلاق کی کثرت میں
کمی آئی اور خواتین اسلام کی عزت وناموس کی حفاظت ہونے لگی ۔جب کہ یہ ایک
وقتی حکمت عملی اور حکومتی مصلحت تھی۔
شریعت مطہرہ میںبلا وجہ طلاق کو نہایت ہی مبغوض شمارکیاگیاہےسنن ابودائود
کی صحیح روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ’’ أَبْغَضُ الْحَلاَلِ
إِلَى اللہ تَعَالَىٰ الطَّلاَقُ‘‘تمام جائز اور حلال چیزوں میں سب سے
ناپسندیدہ اور بری چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے ( سنن ابی دائود:۲۱۸۰) اور
دوسری حدیث میں ہے کہ ’’مَا أَحَلَّ اللہ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ
الطَّلاَقِ ‘‘اللہ تعالیٰ کےنزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ
کوئی اور چیز نہیں‘‘۔(سنن ابی دائود :کتاب الطلاق ، باب فی کرَاہیۃ
الطَّلاَق ، ح؍۲۱۷۹) اور صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ابلیس لعین روزآنہ اپنا
تخت پانی پر بچھاتاہے اور اپنے لشکر کو روئے زمین پر بھیجتاہے اور سب سے
زیادہ مرتبہ والا شیطان اس کے نزدیک وہ ہوتاہے جس کا فتنہ سب سے بڑا ہو،ان
میںسے ایک آکرکہتاہے کہ میں نے یہ کیا ،ابلیس کہتاہے کہ تونے کچھ نہ کیا
،دوسرا آتاہے اور کہتاہے کہ میںنےمیاں اور بیوی میں جدائی ڈال دی ،چنانچہ
ابلیس اسے اپنے قریب کرکےگلے لگاتاہے اور شاباشی دیتاہے ۔‘‘(صحیح مسلم
:ح؍۵۰۳۷)اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ
زَوْجَهَا طَلاَقًا فِى غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ
الْجَنَّةِ ‘‘ جو عورت بلاوجہ اپنے شوہر سے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو
حرام ہے ‘‘۔(سنن ابی دائود:کتاب الطلاق، باب فِی الْخُلْعِ:ح؍۲۲۲۸) اور
دوسری حدیث میں ہے کہ اپنی عورتوں کو طلاق مت دو مگریہ کہ اس کے چال چلن
اور کردار میں شبہ ہو ‘‘۔
مذکورہ تمام نصوص شرعیہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ طلاق شریعت
اسلامیہ میں ایک مبغوض اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے بارہا روکا اور منع
کیاگیا ہے اور بغیر کسی عذر شرعی کے طلاق مانگنے ودینے والوں کی لعنت
وملامت کی گئی ہے اور اس بات کا تاکید ی حکم دیاگیا ہے کہ دین اسلام میں
طلاق یا خلع کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں ہے کہ جب چا ہو گھما دو ،بلکہ
شریعت نے مردکو یہ حکم دیا
ہے کہ اگر تمہیں عورت کی فطری کمزوریوں سے تکلیف پہنچے تو اسےحتی الامکان
برداشت کیاکرو ، اور بعیدنہیں کہ اس برداشت اور صبر پر تمہارے لئے کوئی نفع
ہو ۔اور صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ’’کوئی مومن کسی مومنہ سے بغض نہ رکھے
کیونکہ اگر اس کی ایک عادت نا پسند ہوگی تودوسری پسندیدہ(ضرور) ہو گی۔‘‘اسی
طرح شریعت مطہر ہ نے اس بات کی طرف بھی رہنمائی کی ہے کہ اگر زوجین کے
درمیان معاملہ پیچیدہ ہوجائے اور بات آگے بڑھ کر طلاق کی نوبت آجائے
توطلاق دینے سے پہلے اچھی طرح غوروفکر کرلو اور طلاق سے پہلے اسے نرمی اور
محبت سے سمجھائو اگر راضی ہوجائے اور اپنی غلیظ حرکتوں سے باز آجائے تو
فبہا ورنہ اسے اس کے بستر میں اکیلا چھوڑدو ،پھر بھی اس میں اصلاح نہ ہو تو
بطور سرزنش اس کی گوش مالی کرو اور ہلکا مارمارو اس کے باوجود اگر اس کے
اندر کچھ تبدیلی نہ آئے تو فریقین کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کرکے
سمجھائو پھر بھی اگر بات نہ بنے تب جاکر حالت طہر میں بغیر مجامعت کے طلاق
دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ طلاق زوجین کے درمیان ایک طلاق رجعی
ہوگی اگر درمیان میں رجوع کرلیں تو فبھا ورنہ تین الگ الگ طہر میں ایک ایک
طلاق دے کر اسے نہایت ہی مہذب وشائستگی کے ساتھ اس کے گھر بھیج دو ۔ یہ
ہےشریعت مطہرہ کے اندر طلاق کا احسن طریقہ ،جس کی نامساعد اور ناگفتہ بہ
حالات میں شریعت نے ایک مردکو اجازت دی ہے۔ اسی طر ح دین اسلام نے عورت کو
بھی انصاف دلاتے اور اس کے حقوق کو اجاگر کرتے ہوئے نامساعد حالات میں حکم
دیاہے کہ اگروہ مرد کے اخلاق وکردار سے راضی نہ ہو تو اسے بھی خلع لینے کا
حق حاصل ہے ۔
لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت کتاب وسنت کے ان آفاقی تعلیمات سے
نابلد ونا آشنا اور طلاق وخلع کے اس طریقے سے ناواقف ہے،جس کی وجہ سے آئے
دن طلاق و خلع کے غیر شرعی طریقے سامنے آتے رہتے ہیں اور قوم وملت کے
ناعاقبت اندیش افراد خواتین اسلام کی عزت وعصمت کو تارتار کرنے اور اپنے
کاروبار کو چمکانے کے لیے ڈھونگی بابائوں،پیروں ،فقیروں،کرایہ کے سانڈوں
یعنی حلالہ کرنے والوں کے پاس بھیج دیتے ہیں جو کہ شریعت میں ناجائز و حرام
ہےاور اللہ کے رسول ﷺ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی
ہے جیساکہ ابن عباس رضی اللہ کا فرمان ہےکہ ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللہ
ﷺالْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ‘‘( سنن ابن ماجہ : کتاب النکاح ،باببُ
الْمُحَلِّلِ وَالْمُحَلَّلِ لَہُ ح؍۱۹۳۴)
دوسری طرف ہم دیکھتےہیں کہ آج کےاس پرفتن دور میں حکومت اور اسکے کارندے
نیزمتعصب میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی شناخت کو مجروح کرنے کے
درپے ہے آج طلاق اور تعددازدواج جیسے اسلامی اور دینی ومذہبی مسائل کو لے
کر میڈیا پوری دنیا میں کہرام مچائے ہوئے ہےاور اس کے سہارے حکومت کی منشاء
کے مطابق یکساں سول کوڈ کی راہ ہموارکرنے کی کوشش میں ہیں جب کہ یہ ایک
اسلامی اور مسلمانوں کا اندورنی مسئلہ ہے جس پر اغیار اور حکومت کو بولنے
اورلب کشائی کرنے کا کوئی حق نہیں ۔کیونکہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک
میںہرطبقہ ہر فرقہ اورہر انسان کو اپنےاپنے مذہب پر چلنے اور اپنی دین کی
تعلیمات پر عمل کرنے کا پوراپورا حق حاصل ہے ۔
ا للہ جزا ئے خیر دے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں اور امت مسلمہ کے
باشعور افراد اوراہل علم کو کہ جنہوں نے حکومت کی اس گھنائونی سازش اور
پالیسی کو سمجھتے ہوئے ملک کے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے
کی دعوت دی اور آپسی تمام مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر حکومت اور
یکساں سول کوڈ کے خلاف اتحاد کا پرزور نعرہ لگایا جس سے حکومت کی چولیں ہل
گئیں اور حکومت مسلمانوں کے اس باہمی اتحاد واتفاق سے تھر اگئی ۔ اور گھٹنے
ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ۔
مسلمانو! یہ دراصل حکومت کی ایک سازشی پالیسی اور حکمت عملی ہےتا کہ
مسلمانوں کو ان کے دینی ومذہبی مسائل میں الجھا کر اپنی
ناکامیوںوکوتاہیوںکی پر دہ پوشی کی جائے نیزان کے ترقیاتی منصوبوں کو ناکام
بنادیاجائے اور مسلمانوں کو آپس میںلڑا کر ان کی اتحادی طاقت کو چورہ چورہ
کرکے ووٹ بینک کی راہ ہموار کرلی جائے اور انہیں حاشیہ پر رکھ کر اس ملک
میں حکومت کی جائے۔
اس لئے آج کے اس ناگفتہ بہ اور نامساعد حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے
کہ ہم حکومت کی پالیسوں اور سازشوں کو سمجھیں اور آپسی تمام مسلکی
واختلافی مسائل کو چھوڑ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر بابانگ دہل یہ اعلان
کریںکہ ہم مسلمان ایک دین ایک قرآن کے ماننے والے اور ایک نبی کے امتی ہیں
ہمیںہمارے آئین اور شریعت پر عمل کرنے کا پوا حق حاصل ہے اور ہم اپنے دین
ومذہب پر خوش ہیں اورہم اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی اور ردو بدل برداشت
نہیں کریں گے چاہے اس کے لئےہمیں اپنے جان ومال کی قربانی ہی کیوںنہ پیش
کرنی پڑے ۔اسلئے ہم نہایت ہی مہذب انداز میںحکومت ہندسے التماس کرتے ہیں کہ
وہ ہمارے عائلی اور اندرونی مسائل نیز قانون الہٰی میں بالکل مداخلت
اوررخنہ اندازی کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کردیکھے اور اپنی
کوتاہیوں کی اصلاح کرے اورعوام کے تئیں جو اس پر ذمہ داریاں عائد ہوتی
ہیںاسےبخوبی انجام دینےکی کوشش کرے۔اور ساتھ ہی ہم اپنے تمام مسلم بھائیوں
سے گزارش کریںگے کہ وہ اپنے تمام مسلکی واختلافی مسائل اور آپسی جھگڑوں کو
چھوڑ کر کتاب وسنت کی روشن تعلیمات کو مضبوطی سے تھام کر اتحاد امت کے
احساسات کو پروان چڑھائیں ۔اسی میں ہماری بھلائی اور کامیابی وکامرانی کا
راز مضمر ہے ۔جیساکہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہاتھا ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اور شاعر مشرق نے کہاتھا کہ ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر! |