تحریر : عنایہ فاطمہ
میری سماعتوں سے دادا جان کی آواز ٹکرائی۔ میں جو رٹو طوطے کی طرح ’’اسلامیات‘‘
کا سبق یاد کررہا تھا چونکا۔ ’’نماز اول وقت میں پڑھنا افضل ہے‘‘ ’’جی
داداجان‘‘۔ میں ’’داداجان‘‘ کی انگلی پکڑے مسجد کی طرف رواں دواں تھا۔ اس
وقت میں 8 سال کا تھا۔
امی جان بہت بھوک لگی ہے کیا بنا ہے آج ’’لوکی گوشت‘‘ جواب باجی کی طرف سے
آیا۔ کیا!!! آپ کو پتا ہے مجھے لوکی اچھے نہیں لگتی۔ پھر بھی آپ نے لوکی
بنائی۔ میں غصے میں بولا۔ ’’عون محمد کتنے دکھ کی بات ہے لوکی گوشت کھانے
سے انکار کر رہے ہیں حالانکہ آپ کو پتاہے کہ ’’لوکی‘‘ ہمارے نبی(صلی اﷲ
علیہ وسلم) کو کتنی مرغوب تھی۔ ’’سعادت سمجھ کہ کھایا کرو بچے‘‘ داداجان نے
نصیحت کی۔ میرا سر شرم سے جھک گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن میں نے شکم سیر ہو
کر کھانا کھایا۔ اس وقت میں 9 سال کا تھا۔
میں دادا جان کے ساتھ سیلاب زدگان کی بستی میں امداد کے سلسلے میں آیا
تھا۔دادا جان متاثرین میں سامان تقسیم کر رہے تھے۔میں تھوڑا دور کھڑا یہ
منظر دیکھ رہا تھا۔ متاثرین کے بچے متلاشی نظروں سے میری ’’ریموٹ گاڑی‘‘ کو
دیکھ رہے تھے۔ ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں مسلسل روئے جارہا تھااور باربار
میری گاڑی کی طرف اشارہ کر کے کوئی مطالبہ کر رہا تھا۔ دادا جان میری طرف
بڑھے۔ میں نے اپنی گاڑی کو سینے سے لگایا۔ ’’عون محمد یہ گاڑی اس بچے کو دے
دو‘ ‘۔ داداجان نرم آواز میں بولے۔ ’’لیکن یہ میری ہے‘‘۔میری آواز گلے میں
ہی اٹک گئی۔’’عمل پر یقین رکھو بیٹا،دوسروں کو دینے کا جذبہ لاؤ میرے بچے‘‘۔
انھوں نے شفقت سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ میں اپنی جگہ ہٹا اور ریموٹ گاڑی
اس بچے کے حوالے کر دی۔ بچہ گاڑی لے کہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ اس کی والدہ
دادا جان کو بتا رہیں تھیں اس کہ پاس بھی ایسی گاڑی تھی لیکن سیلاب نے کچھ
نہ چھوڑا۔ واپسی پہ دادا جان میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ اس وقت ایک لطیف سی
خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس وقت میں 10 سال کا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں سرچ آپریشن کے نام پرلوگوں کہ گھروں میں گھس کر توڑپھوڑ۔
احتجاج میں دو نوجوان شہید ، ۵۱ زخمی۔غرب اردن یہودی آباد کار فلسطینی
نوجوان کو گاڑی تلے کچل کہ فرار۔ غزہ اور غرب میں ساڑھے تین لاکھ فلسطینی
بے روزگار۔ شام میں پانچ ہزاریورینیم بم گرانے کا امریکی اعتراف۔ شام میں
دو گرہوں میں جھڑپیں،70 افراد ہلاک۔آج کل خبریں پڑھ کر میرا دماغ ماؤف ہو
جاتا۔ دل اضطراب کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، بس نہ چلتا سب کچھ ٹھیک کر دوں۔
کبھی دل کرتا ان لوگوں کا گلادبا دوں جنہوں نے مسلم ممالک میں فساد پھیلا
رکھا ہے۔ لیکن میں پانچ بہن بھائیوں اور دو بوڑھے والدین کا واحد سہارا تھا۔
خواہش کو دل میں دبانے کہ سوا کیا کر سکتا تھا۔
باباجانی سب مسلمان ایک جسم کی ماند ہیں ناجسم میں کسی ایک حصے میں درد ہو
توپورے جسم میں وہ درد محسوس ہوتا ہے۔ باباجان ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کا
درد کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ بابا جانی حشر میں اﷲ پوچھیں گے کہ اپنے بھائیوں
کا حال پتا چل گیا تھا، مدد کو کیوں نہ پہنچے۔ کس منہ سے اپنے نبی سے شفاعت
کی درخواست کروں گا۔ د عا پر قناعت نہیں کرو ں گا۔ میں عمل پر یقین
رکھتاہوں۔ دوا بھی کروں گا۔ آوازگلے میں اٹکنے لگی۔ بابا سر جھکائے سن رہے
تھے۔ سر اٹھا کہ اشارے سے قریب بلایا۔ میں ان کہ قدموں جا بیٹھا۔ سر بابا
کہ گھٹنوں پہ رکھ کہ رونے لگا۔ بابا مجھے درد ہوتا ہے۔ حوصلہ رکھو میرے بچے۔
کچھ رقم میرے پاس ہے باقی میں کچھ لوگوں سے رابطہ کرتا ہوں وہ بھی تعاون
کریں گے۔ انشااﷲ۔ ہم انھیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت مجھے ایک لطیف سی
خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہی خوشی جو ریموٹ گاڑی دینے کے بعد ہوئی تھی۔
|