برطانیہ کا شمار ایسے سامراجی ممالک میں ہوتا ہے جنکی
پالیسی نے دنیا میں بہت بد امنی پیدا کی۔ کئی قوموں نے اپنا حق آزادی کھویا
اور کئی ممالک ٹکڑوں میں تقسیم ہوئے۔ برطانیہ نے جس بھی ملک پر قبضہ کیا
اسے چھوڑنے سے پہلے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایسے مسائل پیدا کیے جنکی
وجہ سے آزاد ہونے والی قومیں اپنی آزادی سے پوری طرح مستفید نہ ہو سکیں۔ اس
طرح کی منفی پالیسیوں کے باوجود برطانیہ نے کچھ ایسے اصول اپنا رکھے ہیں
جنکی وجہ سے دنیا میں اب بھی اسکا بھرم قائم ہے۔ ان اصولوں میں سے ایک
عوامی و انسانی روابط ہیں۔ وہ کسی کے نکتہ نظر سے اتفاق کریں یا نہ کریں
لیکن اگر کوئی مسلہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے تو وہ جواب ضرور دیتے ہیں جبکہ
ہمارے اداروں کو کوئی ایسی تربیت نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے حکمران اپنے ذاتی
فاہدے کے علاوہ کسی چیز پر توجہ دیتے ہیں۔ اسکی ایک تازہ مثال مسلہ کشمیر
پر برطانوی وزیر کے ساتھ میرے خطوط کا تبادلہ ہے جس پر برطانوی وزیر نے کھل
کر اپنی حکومتی پالیسی کااظہار کیا مگر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور دیگر
حکومتی کارندے اپنے اس قومی مسلہ پرایک لفظ تک آزادانہ طور پر کہنے سے قاصر
ہیں۔
چند ہفتے قبل لنڈن میں برطانیہ کے انٹرنیشنل ٹریڈ منسٹر گریگ ہینڈز اور
پاکستانی اور چینی نمائندوں کا ایک اجلاس ہوا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے
سی پیک میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ اجلاس خفیہ تھا مگر جنکی آنکھیں کھلی
ہوں انہیں کچھ نہ کچھ تو نظر آ ہی جاتا ہے۔ ہم تک خبر پہنچی تو میں نے
مذکورہ منسٹر کو لکھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ برطانیہ نے اپنے ہی پیدا
کردہ مسلہ کشمیر سے ستر سال تک منہ موڑے رکھا لیکن جب اسی ریاست کے ایک حصے
گلگت بلتستان میں اقتصادی فاہدہ نظر آیا تو فوری اس میں کود گیا۔ میں نے
سوال کیا کہ اب بھی برطانیہ اپنی جوں کی توں پالیسی قائم رکھے گا یا مسلہ
کشمیر کے حل میں کوئی کردار ادا کرے گا۔ میرے خط کا جس مائرانہ انداز میں
جواب دیا گیا اس میں ہمارا نظام حکومت چلانے والوں کے لیے بھی سبق موجود ہے۔
برطانوی ٹریڈ منسٹر نے میرا خط وزیر خارجہ کو دیا اور اس نے پڑھنے کے بعد
ایشیا اینڈ پیسفک منسٹر کے حوالے کیا جس نے مشاورت کے بعد مجھے جواب دیا کی
برطانیہ کی طے شدہ سرکاری پالیسی یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان خود یہ
مسلہ حل کریں۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ برطانیہ ایک جمہوری ملک ہے جو جموں
کشمیر کے عوام کے جمہوری حقوق نظر انداز کرتے ہوئے قابضین کو یہ اختیار
دیتا ہے کہ یہ انکی مرضی ہے کہ وہ وہاں سے جائیں یا ظلم و ستم جاری رکھیں۔
کیا وجہ ہے کہ بعض ممالک کے مسائل میں برطانیہ خود بخود کود جاتا ہے لیکن
مسلہ کشمیر جو اسکا اپنا پیدا کردہ ہے اس پر توجہ نہیں دیتا۔ جہاں تک
ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے تعاون کی درخواست کا تعلق ہے تو پاکستان نے
ہمیشہ ثالثی کی درخواست کی ہے اب اگر ہندوستان ثالثی قبول نہیں کرتا تو
اسکا مطلب یہ ہوا کہ برطانیہ کو مسلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیریوں اور دوسرے
فریق پاکستان کے موقف کی کوئی پرواہ نہیں وہ صرف بڑے غاصب ہندوستان کے موقف
کی قدر کرتا ہے۔ ان حالات میں برطانیہ اور اس کے بڑے بھائی امریکہ کو ہمیں
پر امن جد و جہد کا لیکچر دینے کا کیا حق حاصل ہے جبکہ ان دونوں نے خود
دنیا میں اودھم مچا رکھا ہے۔ اگر وہ اتنے ہی امن پسند ہیں تو انہوں نے اپنے
ملکوں میں اسلحے کی فیکٹریاں کیوں قائم کر رکھی ہیں ـ؟ گلف ممالک اور قطر
کے حالیہ تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض برٹش مائرین نے کہا ہے کہ اسلحے
فروخت کرنے والی برٹش کمپنیوں کو قطر تنازعہ کے پیش نظر مزید کنٹریکٹ ملیں
گے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں مسائل قائم رکھنا اور مزید مسائل پیدا کرنا
اسلحہ فروخت کرنے والے سامراجی ممالک کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی خود کو امن
پسند قرار دیتے ہیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ آزاد کشمیر حکومت سی پیک اور مسلہ کشمیر پر ایک
حد سے آگے کیوں نہیں بڑھ سکتی؟ حال ہی میں صدر آزاد کشمیر مسلہ کشمیر سے
ناواقف اراکین اسمبلی کا وفد لے کر برطانیہ گے جن میں کچھ خواتین ممبران
اسمبلی بھی تھیں جنہوں نے شاپنگ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ حکومتی پارٹی کے
کچھ لوگوں نے مایواسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر مسعود خان کو ایک مائر
سفارتکار سمجھ کر صدارت کا منصب سونپا گیا تھا مگر وہ کچھ ڈلیور نہ کر سکا۔
ان بے چاروں کو یہ علم نہیں کہ مسعود خان اور فاروق حیدر خان کی جگہ جانے
والے مسلہ کشمیر پر کچھ ڈلیور کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ریاست آزاد جموں
کشمیر کے اختیارات کو اس وقت کی مسلم کانفرنس حکومت اور اس کے سنئیر لیڈروں
چوہدری غلام عباس اور میر واعظ نے حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت
خود محدود کر کے آزاد کشمیر کو پاکستان کی ایک لوکل اتھارٹی میں تبدیل کر
دیا تھا اور پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا تھا کہ کوئی کشمیری کارندہ
کسی بیرونی ملک کے ساتھ مسلہ کشمیر نہیں اٹھائے گا اور یہ نیک کام پاکستان
کی وزارت خارجہ کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے میرا خیال ہے کہ میں نے
جب وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کو برطانوی وزیر کے نام سی
پیک اور مسلہ کشمیر کے حوالے سے خط لکھا تو وہ کوئی تبصرہ نہ کر سکے کیونکہ
انکی جگہ جو بھی ہو گا وہ حکومت پاکستان اور اسکی پالیسی کے تابع ہو گا
جبکہ قیوم راجہ اور اسکی طرح کئی اور آزاد لوگوں کو ہندوستانی اور پاکستانی
وزارت خارجہ سے کسی کے ساتھ رابطہ کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے
البتہ کسی کشمیری کو جب بیرون ملک دعوت ملتی ہے تو بھارت اسے پاسپورٹ نہیں
دیتا اور پاکستان پاسپورٹ دینے کے باوجود بات کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے
آج تک جس بھی غیر ملکی سفارتکار کو مسلہ کشمیر پر بریفنگ دی اسے پاکستان کے
اداروں نے ڈی بریف کیا اور میرے ساتھ انگیج رہنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
یہ وہ پالیسی ہے جس نے صرف اور صرف بھارت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ دنیا ساری
جانتی ہے کہ ہم نے اپنی جد وجہد کا آغاز بھارت کے خلاف عملی کاروائیوں سے
کیا تھا لیکن رکاوٹ ہمیشہ پاکستانی ادارے بنے ۔ پاکستان کے اداروں کو آج تک
یہ سمجھ نہیں آئی کہ وحدت کشمیر کی بحالی کے لیے آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان سرگرم ہوں گے تو ہماری تحریک مضبوط ہو گی اور بھارت کمزور ہو گا۔
یہ دونوں خطے بے اثر ہوں گے تو بھارت کے ہاتھ مضبوط ہونگے۔ آزاد کشمیر
حکومت پورے جموں کشمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے سامنے جب مسلہ کشمیر
پیش کرتی تو کشمیری مظلوم اور بھارت غاصب نظر آتا لیکن دنیا کے سامنے جب
مسلہ کشمیر کو ایک علاقائی جھگڑا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو دنیا کو
ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالف کا فیصلہ
کرنا ہوتا ہے جو کسی قوم کے حق خود ارادیت کی حمایت سے زیادہ مشکل کام ہے۔
لہذا اگر کشمیری عوام چاہتے ہیں کہ آزاد کشمیرحکومت کوئی کردار ادا کرے تو
سب سے پہلے انہیں ہمارے اس موقف کی حمایت کرنی چاہیے کہ ریاست آزاد کشمیر
جموں کشمیر کی وہ پوزیشن بحال کی جائے جو چار اکتوبر سن سنتالیس کو اس کے
قیام کے وقت تھی ورنہ اپنے ہاتھوں نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھو۔ |