ہاں یہ درست ہے بالکل درست ہے کہ
ہم لوگ اپنی پیاری ہستیوں سے اظہار محبت کرنے کیلئے ان کے دن انتہائی عقیدت
و احترام سے مناتے ہیں۔ یوم ولادت ہو یا شہادت کا دن، اس حساب سے تیاریاں
کرتے ہیں، اہتمام کرتے ہیں، ریلیاں اور جلوس نکالتے ہیں اور جب اسے میڈیا
کوریج ملتی ہے تو اس سے دوسرے ملکوں اور قومو ں کو بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ
ہم اپنے عظیم اور سچے دین اسلام کے لئے بے دریغ قربانیاں دینے والوں سے
کتنی عقیدت رکھتے ہیں۔
مگر۔۔۔مگر یہ کیا ایک تو دلخراش، لرزا دینے والی دھماکے کی آواز اور پھر اس
کے بعد ۔۔اتنی تباہی کے باوجود ہم یہ کیا کر رہے ہیں ہاں!!!
ُاپنی ہی ملک کو تباہ کرنے چل نکلے، توڑ پھوڑ، اپنے ہی ملکی اثاثوں کو
نقصان، فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ، خون کی ہولی، جنگل کا قانون۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے پر امن کارواں کیسے جنگلیوں کا بازار بن گیا۔ کچھ سمجھ
نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کسی کی سزا کسی دوسرے کو دی جا رہی
تھی، کرے کوئی اور بھرے کوئی اور والا حساب۔۔۔۔
ہمارے ہاں ایسے مواقع پر بڑے عالم، سیاستدان ٹی وی پر آجاتے ہیں، افسوس
کرنے لگتے ہیں۔ سب کے وہی گھسے پٹے الفاظ کہ یہ لوگ قطعی مسلمان نہیں ہو
سکتے، یہ انسانیت کے دشمن ہیں، یہ مسلمان کیا انسان کہلانے کے بھی لائق
نہیں، وغیرہ غیرہ۔۔۔یہی پرانی باتیں دھرا دھرا کے عوام کے دکھ کو کم کرنے
اور غصے کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اوپر سے بیٹھے بیٹھے ہی
اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم تو اب تین روزہ سوگ منائیں گے اور ان لوگوں کو
دکھائیں گے کہ ہم ان سے بالکل خوفزدہ نہیں اور ان کو ان کے ارادوں میں
کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔۔
بس جی پھر کیا خود تو ایک فارمیلیٹی پوری کر کے پتا نہیں کہاں نظروں سے
اوجھل ہو جاتے ہیں اور ہماری جذباتی قوم ،’اف کون سمجھائے انہیں۔۔ نکل پڑتے
ہیں اگلے ہی دن ہڑتالوں پر، جلاتے ہیں سڑکوں ٹائر، پریشان اور تنگ کرتے ہیں
دفتروں اور سکول، کالج جانے والوں کو اور کامیاب ہو جاتے ہیں پھر وہی درندہ
صفت لوگ کہ جن کے لئے ہماری حکومت کہتی ہے کہ یہ مٹھی بھر ہمارا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے، مگر پھر کیوں اور کہاں سے جلوسوں، ریلیوں پر فائرنگ شروع ہو
جاتی ہے۔ خون بہا کا کھیل، ایک بار پھر سے نیوز چینلوں پر وہی ذہنی سکون
برباد کر دینے والے مناظر، زخمی، ایمبولینسز کا شور، لوگوں کی آہیں، آنسو،
درد، غم ۔۔۔۔اور وہ مٹھی بھر کافر کامیاب!
میڈیا کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم مکمل تحقیقات کر
لیں گے ان کو بالکل معاف نہیں کیا جائیگا۔ مرنے والوں کے لئے اتنے اور
زخمیوں کے لئے فلاں فلاں روپے امداد کا اعلان (چاہے وہ ملے یا نہ ملے
)۔۔اور پھر کسی جن بھوت کی طرح غائب!!!
کتنا پیار اور عقیدت ہے ناں ان پارٹی کارکنوں کو اپنے سیاسی پارٹیوں کے
سربراہان سے۔ ان کے ایک اشارے پر پاگلوں کی طرح جان قربان کرنے پر تیار ہو
جاتے ہیں۔ جبکہ ان کو اور باقی قوم کو کیا دیا انہوں نے، مہینے میں بڑھتی
ہوئی مہنگائی، دنوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اب تو اتنی مہربانی کہ
گھنٹوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی۔۔ ہے ناں زبردست آفر اور تو اور یہ محدود
مدت کے لئے تو بالکل بھی نہیں!
باقی وہی مسائل کہ جن کا ذکر ہم 63سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ اس لئے میں
دوبارہ ان کا تذکرہ کر کے مزید دل نہیں جلانا چاہتی۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی
ان وفادار کارکنوں کی! نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں، بس جی اگر کوئی ان
کے سربراہ کو برا کہہ دے (سچی بات زبان سے پھسل جائے )تو خون خرابا شروع یہ
مار کٹائی وہ فائرنگ، نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ہو گئے گھتم گھتا۔ بنتا بھی
ہے ہو نا نہ بھائی کیوں کہاں تھا تم نے انکے دیانتدار، محنتی، ہمدرد،
ایماندار، سچا کھرا اور فرشتہ صفت پارٹی سربراہ کو برا۔۔۔بے وقوفوں کی طرح
ان کے لئے ڈنڈے کھاتے جاتے ہیں، لہو بہاتے ہیں اور وہ ۔۔۔وہ کیا دیتے ہیں
ان کو قیمتوں میں اضافے، گرمی کی جلن، محرومیوں کے تحفے !!!
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ بڑے لوگ تو باتیں کر کے اور صرف باتیں کر کے ہی یک
دم نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ چھوٹے لوگ کیوں عقل کھو بیٹھتے ہیں
ان کے زبان سے نکلے ہر لفظ پر یقین کرتے ہیں اور ان کے حق میں چیخ چیخ کر
اپنا گلا تک بٹھا لیتے ہیں!
ووٹ حاصل کرنے کے لئے مختلف لوگوں سے سوچ وچار کے بعد اچھے اچھے اور دل و
دماغ کو متاثر کرنے والے نعرے بناتے ہیں اور جب یہ غریب اور دکھی عوام پر
اثر کر جاتے ہیں ان کو اپنا دیوانہ بتا دیتے ہیں تو پھر اونچے تختوں پر جا
بیٹھنے کے بعد سب کچھ نظر انداز کر بیٹھتے ہیں اور مصروف ہو جاتے ہیں ملکی
اور غیر ملکی اثاثوں سے اپنی تجوریاں بھرنے۔
زمینی و آسمانی آفتوں کا رونا رو رہا ہے۔ روز کے اخبارات انہیں خبروں سے
بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ اب تو ملک میں ایسا خونی دور ہے کہ آئے دن انتہائی
دلخراش واقعات ایک بہادر اور سخت دل رکھنے والے کو بھی ہلا کر رکھ دیتے
ہیں۔ ٹیلی ویژن پر انسانیت سوز ویڈیوز دیکھ کر آنکھیں خود بہ خود نم ہو
جاتیں ہیں، بیوی کا جن نکالنے کے لئے ایک معصوم پرائی غریب بچی پر ناقابل
برداشت تشدد کیا جاتا ہے تو دل دکھی ہو جاتا ہے، غم و غصہ کو جذبات ابھرتے
ہیں اور دماغ میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر ہم یہ کس طرف جا رہے ہیں؟
کیا قیامت آنے والی ہے؟ ہاں یہ ضرور واضح نظر آرہا ہے کہ "کہ چھوٹے لوگ تو
مر رہے ہیں، صرف چھوٹے لوگ ہی تو مر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔افسوس!!! |