یہ چوبیس جنوری 2009ء کی ایک سرد
دوپہر تھی جب پاکستان بھر کے وکلا، خصوصاً لاہور کے وکلاء اور عوام کے خون
کی حدت ہر لمحہ بڑھ رہی تھی، وجہ یہ تھی کہ اس وقت سابق صدر مشرف اور
پاکستان کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر کی جانب سے جبری اور غیر آئینی طور پر معزول
کئے گئے چیف جسٹس جناب محمد افتخار چوہدری پنجاب بار کونسل کے زیر اہتمام
وکلاء کنونشن میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لارہے تھے، موسم کی سردی کے
باوجود وکلاء اور عوام کے جذبات کی گرمی عروج پر تھی، ایئر پورٹ سے لے کر
پنجاب بار کونسل کی نئی بلڈنگ تک پورے مال روڈ پر سر ہی سر دکھائی دے رہے
تھے، ایک جوش و ولولہ تھا، ایک امنگ اور امید کی ڈور تھامے لوگ جوق در جوق،
جناب چیف جسٹس اور وکلاء راہنماﺅں کے دیدار اور ان کی باتیں سننے کے لئے
بھاگے آرہے تھے، مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، بلکہ مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا....
کے مصداق خصوصاً چیف جسٹس صاحب کے ارشادات بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں، پچیس
جنوری 2009ء کو شائع ہونے والے اخبارات میں سے ان کے خطاب کے کچھ اقتباسات
پیش خدمت ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے آدھی رات کو کنونشن میں موجود وکلاء سے
براہ راست اور پوری قوم سے میڈیا کے توسط سے فرمایا:
”انصاف سب کیلئے“ کا نعرہ اس وقت کارگر ثابت ہوگا جب قانون سب کیساتھ یکساں
سلوک کرے، قانون سب کیلئے یکساں ہے، عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا عدلیہ کی
ذمہ داری ہے، 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت لوگوں کے تحفظ کی ذمہ دار
حکومت ہے، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا جس کی عدلیہ آزاد نہ ہو، جب عدلیہ
آزاد ہوگی تو معیشت سمیت تمام بحران ختم ہوجائیں گے، پیٹرولیم مصنوعات پر
میں نے نوٹس لیا تو اطمینان بخش جواب نہ مل سکا، پیٹرولیم قیمتوں کا اختیار
دے کر نجی کمپنیوں کو اربوں کا فائدہ پہنچایا گیا، چک شہزاد فارم جیسے
معاملات سے عام آدمی کا حق متاثر ہوتا ہے، ایسے معاملات دیکھنا بھی سپریم
کورٹ کا کام ہے، آزاد عدلیہ کی ضرورت صرف عام آدمی کو ہے، عدلیہ کو شخصی
خواہشات کی ضمانت نہیں دینا چاہئے، ملک میں نقصان ہمیشہ غریب کا ہوا، طبقہ
امراء نے کبھی نقصان نہیں اٹھایا، آمر کے جب دل میں آتا ہے وہ آئین کا حلیہ
بگاڑ دیتا ہے، بہت جلد ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور انشاءاللہ وکلاء
کی تحریک کامیاب ہوگی، کوئی آمر نہیں کہتا کہ اس نے مارشل لا لگا کر غلط
کام کیا، پی سی او اور مارشل لا لگانے والے اعتراف کر چکے ہیں کہ اس نے غلط
کام کیا، اگر یہ کام غلط تھا تو پھر اس کے اقدامات کی توثیق کی کیا ضرورت
تھی، اس کا یہی مطلب ہے کہ اس کے کئے گئے تمام کام غلط تھے، اب بہت ہوچکا،
Enough is Enough، مستقبل میں کوئی بھی قانون کے خلاف جانے کی جرات نہیں
کرسکے گا“ ان کا مزید کہنا تھا”اگر ملک میں عدلیہ آزاد ہوگی تو پٹرولیم
کمپنیاں اپنی من مانی نہیں کرسکیں گی....“
گزشتہ روز حکومت کی جانب سے پٹرولیم کی ظالمانہ طریقہ سے قیمتیں بڑھانے پر
جناب چیف جسٹس صاحب کی وہ باتیں اور وہ وعدے بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں۔ چیف
جسٹس کی بحالی کے بعد اب تک درجنوں مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی
گئی ہیں اور اکثر اوقات اس وقت قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے جب عالمی منڈی
میں ان کی قیمتوں میں کمی کا رجحان تھا۔ چیف جسٹس صاحب کو یقیناً اندازہ
ہوگا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کی کمائی اور اس کے
روز مرہ اخراجات میں کس قدر بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافہ سے تمام ضروریات زندگی کی قیمتیں شتر بے مہار کی طرح
دوڑنا شروع کردیتی ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ لوگ خودکشیوں پر
مجبور ہوجاتے ہیں، اپنے لخت ہائے جگر کو برائے فروخت پیش کرنا شروع کردیتے
ہیں، گھروں میں آئے روز اسی وجہ سے لڑائی جھگڑے بڑھتے رہتے ہیں کہ خاتون
خانہ سے اخراجات پورے نہیں ہوتے اور ایک آدمی کی کمائی اخراجات کے مقابلے
میں ایسے کم ہوتی رہتی ہے جیسے چمکدار دھوپ کے آنے سے سایہ غائب ہوتا ہے۔
جناب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ آپ بے شک این آر او پر حکومت کو لمبی
تاریخیں دیں یا چھوٹی، اٹھارویں ترمیم کے مسئلہ کو خود حل کریں یا پارلیمنٹ
کی بالا دستی کے اظہار کے لئے اسے واپس بھیجیں، صدر کے دو عہدے رہنے دیں یا
دونوں عہدوں سے فارغ کردیں، ججز بحالی کے نوٹیفکیشن کی واپسی کی خبروں پر
ازخود نوٹس لیں یا نہ لیں لیکن خدارا اپنے ارشادات کی روشنی میں ایک غریب
آدمی، ایک عام پاکستانی کہ جس کے ذرائع آمدن محدود اور اخراجات لامحدود
ہوتے جارہے ہیں، جس پر روزانہ کبھی بجلی مہنگی کرکے ڈیزی کٹر چلایا جاتا
ہے، کبھی گیس مہنگی کر کے سکڈ میزائل داغے جاتے ہیں تو کبھی پٹرول بم کی
صورت میں ایٹم بم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کو انصاف اس طرح فراہم کریں کہ
انصاف ہوتا ہوا نظر آئے، جناب والا! پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں یا تو ٹھہراﺅ ہے یا وہ کمی کی طرف مائل ہیں لیکن ہمارے یہاں
گنگا الٹی بہہ رہی ہے، اسے کسی طریقہ سے روکئے، اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ
گئی ہے کہ وہی عوام اور وہی وکلاء جو آپ کے لئے دن رات مشرفی آمریت سے
ٹکراتے رہتے تھے، جنہوں نے نہ روزگار کی پرواہ کی نہ اپنی جانوں کی، جو
کبھی طاہر پلازہ میں جلائے گئے، کبھی ساہیوال میں، جنہوں نے کبھی لاہور
ہائی کورٹ میں پولیس تشدد برداشت کیا تو کبھی شاہراہ دستور پر، اور تو اور
انہوں نے تو بارہ مئی بھی جھیلا ہوا ہے، لیکن اب وہی عام پاکستانی اور وہی
وکلاء حکومتی پٹرول بموں اور سپریم کورٹ کی خاموشی پر جاں بلب ہیں، جناب ذی
وقار! قوم آپ سے امید رکھتی ہے کہ آپ اپنے وعدوں کا پاس رکھیں گے کیونکہ
خدا سے پہلے اس وقت آپ ہی لوگوں کی امیدوں کا واحد سہارا ہیں، پوری قوم کی
نظریں آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں، اوگرا کی بدمعاشی اور حکومت کی سینہ زوری کے
سامنے آپ اور آپ کے ساتھی ججز ہی دیوار بن سکتے ہیں، جن کو ساری قوم نے
وکلاء کی قیادت میں بحال کروایا تھا، اب وہی بے سرو سامان، کسمپرسی میں
مبتلا عوام آپ سے صرف ایک چیز مانگتے ہیں کہ ان سے زندہ رہنے کا حق نہ
چھینا جائے....! جناب والا! آپکی تاریخ پر گہری نظر ہے، آپ یقیناً جانتے
ہیں کہ جب کسی سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے تو پھر مرنے والا
اکیلا نہیں مرتا....! |