پانامہ کیس میں شامل ساری اشرافیہ ملکر ایک دوسرے اشرافیہ
خاندان کو غلط کہے رہی ہیں سب کو پیٹ بھرے کی مستی چھائی ہوئی ہے اپوزیشن
اور حکمران وقت دونوں ہی قوم کو ”بےوقوف“ بنارہے ہیں اگر ایک پانامہ کیس کی
وجہ سے جا رہا ہے تو دوسرا پانامہ کی وجہ سے آرہا ہے دونوں کے پاس آف شور
کمپنیاں ہیں بس فرق یہ ہے کہ ایک کے سر پر ہاتھ گوہر نایاب ہے اور دوسرے کے
سر پر ”اب“ ہاتھ گوہر نایاب نہیں رہا نواز شریف صاحب آج اگر چوہدری نثار
صاحب کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں گروپنگ نہ کرتے تو
وہ اس بحران میں کھبی نہ پھنستے لیکن انگریزوں کا برسوں پرانا فارمولہ
تقسیم کرو حکومت کرو یہاں ناکام ہوگیا خصوصا کراچی کی نمائندہ جماعت ایم
کیو ایم میں گروپ بندی کو عوامی سطع پر پذیرائی نہیں مل سکی جس کی توقع کی
جارہی تھی جس کی وجہ سے ایم کیوایم تاریخی گروپنگ میں تقسیم ہوئی۔پاکستانی
سیاست کی تاریخ میں تو یہ بات نقش ہوچکی ہے کہ جب بھی نواز شریف صاحب کی
حکومت آئی انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے کھبی سبق نہیں لیا اور ایم کیو ایم
کو اپنے اعصاب پر سوار کر کے ہمیشہ ٹکروں میں تقسیم کیا ایم کیو ایم
اورمتحدہ کے بانی سے ازلی نفرت مسلم لیگ ن کی وطیرہ وطرز تعصبی سیاست بن کر
سامنے آئی اور بعد میں اسی پالیسی کو سندھ کی جماعت نے بھی جاری رکھا۔اس
مرتبہ تو ایم کیو ایم پر انتہائی کاری وار دو طرف سے کیا گیا جب انکے
انتہائی قابل اعتماد رہنما اعصاب شکن دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور اپنا
مستقبل سنوارنے اور جان بچانے کی غرض سے جو کچھ کرسکتے تھے وہ کر گئے جو
ماضی ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے اہم رہنما کرتے آئے تھےاب اسکے پس پردہ
جو بھی وجوہات ہوں وہ ایم کیوایم کے لئیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں
ہوااورپہلی مرتبہ موجودہ صورتحال میں ایم کیوایم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی
ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیوایم لندن کی اصطلاح استعمال کی گئی لیکن
تاحال عوامی سطع پر اس تقسیم کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا ہے اور کسی صورت وہ
مائنس ون فارمولے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور آگے چل کر سیاسی
صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے جسکا تعلق نہ صرف پاکستان بلکہ
کراچی سے بھی ہوسکتا ہے یہاں اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عوام
یہ جان چکی ہے کہ پاکستانی سیاست میں سب نے وہ غلطیاں کیں ہیں پاکستان کا
اہم سیاستدان ولیڈر کرچکا ہے بس الفاظوں کا ہیر پھیر ہے مطلب سب کا وہی
نکلتا ہے جو متحدہ کے بانی نے کہا۔جس پر ایم کیو ایم کے بانی پر پابندی
لگائی گئی ہے انہوں نے جو بات بولی بلاشبہ وہ کسی صورت قبول نہیں ہوسکتی
لیکن یہ بات یا اس سے مشابہ وہی باتیں پاکستانی سیاستدان وقائدین کرتے چلے
آرہے ہیں لیکن انکو سیاست میں آج جو مقام ملا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے
پاکستان اور پاک فوج کے خلاف بولنے والوں سزا دی جائے لیکن صرف ایک کو سزا
دینا اور باقی ان کو چھوڑ دینا جو مختلف انداز میں وہی الفاظ بول چکے ہوں
یا بول رہے ہوں چھوڑ دینا انصاف اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔لیکن ایک
بات تو طے ہے کہ پاکستانی سیاست میں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ میں بے شمار سیاہ باب رقم ہوچکے ہیں جس پر آج کسی
کو ندامت نہیں ہے اسی طرز سیاست نے پاکستان کے سیاستدانوں کو غداری کے
سرٹیفکیٹ دئیے اس پر ہی بس نہیں ہوا تاریخ سیاست میں ایک سیاہ باب اس وقت
رقم ہوا جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
کو ایک الیکشن نے غداری کا کانٹوں سے پر تاج پہنا دیا گیا۔اس پر ہی اختتام
نہیں ہوتا بلکہ انتہائی ”معذرت“ کے انکے انتخابی نشان لالیٹن کو ایک کتیا
کے گلے ڈال کر مادر ملت کو قائد اعظم کی بہن ہونے کی اوقات اس تعصبی طرزفکر
نے بتادی۔اور پھر اسی سیاست نے یہ بھی دیکھا کہ جس نے یہ اخلاقیات سے گری
ہوئی حرکت کی آج اسکا بیٹا پاکستان مسلم لیگ ”ن“ میں محب وطن بننے کاڈرامہ
کررہا ہے یہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اتحاد بین المہاجر کو اولیت
ضرور دی جائے لیکن بانیاں پاکستان بننے کی اٹل حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا
جائے۔یہ بات سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے الیکشن 2018ء سے قبل آخری ترپ کا پتہ
سمجھ کر ایم کیوایم کے سابق رہنما سلیم شہزاد کو سامنے لایا گیا ہے جس پر
میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ کھبی اپنی دانش میں کوئی کمی رہ جاتی ہے جسکی وجہ
سے غیردانشمندانہ فیصلے سامنے آتے ہیں- |