واہ واہ

 گزشتہ دنوں شارجہ کے مقام پر جموں کشمیرلبریشن فرنٹ نے اپنے ایک سینئر رہنما سابق زونل صدر سردار آفتاب احمد خان ’’ایڈووکیٹ‘‘ مرحوم کو قومی جدوجہد آزادی میں ان کے اعلیٰ ترین کردار پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک تعزیتی ریفرینس کا انعقاد کیا جس میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ عرب امارات کی قیادت اور کئی دوسری سیاسی پارٹیوں کے متعدد رہنماوں نے شرکت کی اور مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ،اس پروگرام میں امارات میں موجود صحافیوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ۔پروگرام کی ایک خاص بات یہ رہی کہ پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے ایک محترم صحافی’’سبط عارف‘‘ نے تقریب میں ایک ایسا مقالہ پڑھا جو مختصر تھالیکن اسمیں ریاستی عوام کے لئے ایک اہم پیغام تھا جو اپنے اندر انسانی درد کرب سموئے ہوئے تھا اس نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم سردار آفتاب صاحب کو خراج پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے شخص کی سوچ کوبھی خراج پیش کریں جو غیر کشمیری ہو کر کشمیرکے درد کو کسقدر سمجھتا اور محسوس کرتا ہے جب کہ آج بھی ہماری غالب اکثریت اس حقیقت سے کوسوں دور ہیں ۔

وہ فرماتے ہیں ۔۔۔میں چلتے چلتے ایک ٹیلے پر پہنچا اوروہاں سے دیکھا بلند ٹیلوں کے درمیاں گھاٹی میں ایک راستہ ہے اور ٹیلوں کے درمیاں وادی نما اس کشادہ راستے پرحدنظر عوام کا جم غفیر ہے لوگ مختلف گروپوں اور ٹولیوں میں ایک سمت بڑھتے چلے جا رہے ہیں وہ چھوٹے بڑے جلوس اپنے انداز میں مختلف انواح کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں میں نے دیکھا ان جلوسوں کے آواخر میں ایک ایسا گروپ نمودار ہوا جس میں لوگ بس ’’واہ واہ واہ واہ‘‘کئے جا رہے ہیں ۔بڑی حیرانی ہوئی جب غور سے دیکھا تویہ لوگ ان سینکڑوں گروپوں وٹولیوں سے منفرد و یگانہ ہیں۔یہ ایک قطار میں چل رہے ہیں ان کے پاوں میں ایک طویل زنجیر ہے جس میں وہ تسبیح کے دانوں کی طرح برابر پروئے ہوئے ہیں ۔۔۔وہ چلتے ہیں توزنجیریں ان کے پیروں اور ٹانگوں کو مسلسل رگڑتی ہوئی زخمی کرتی ہیں اور وہاں سے خون بہہ رہا ہے لیکن وہ سب اس کرب ،درداور تکلیف کے رد عمل میں چیخ پکار نہیں کرتے ان کے لبوں پر فریاد نہیں بلکہ درد کی ہر ٹیس پر’’ واہ واہ واہ واہ‘‘ کئے جاتے ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ اس ہجوم کاتعلق ریاست جموں کشمیر سے ہے ۔
اس مختصر مقالے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ میری قوم کے لوگ جو سالہا سال سے غیرمعمولی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ان سب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پاوں میں یہ زنجیریں کیسے اور کیونکر پہنا دی گئیں اس کے محرکات کیا رہے وہ کون سی ایسی طاقت ہے جس نے انہیں ان زنجیروں میں پرو کررکھ دیا ہے انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے آگے اور پیچھے لوگوں کے جو گروپ ٹولیوں کی شکل میں چل رہے ہیں ان کی منزل کیا ہے ۔۔۔اوروہ کس اوور جا رہے ہیں۔۔۔انہیں کہاں جانا ہے اور انکی منزل کہاں ہے۔۔۔انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہی ان کی زندگی ہے یا انہیں غیرانسانی وغیراخلاقی حالات کا سامنا ہے ۔۔۔انہیں اس زنجیر سے خلاصی کی تمنا تک نہیں البتہ کبھی کبھار اس کے بوسیدہ ہونے اور اسکے بدلنے کو من کرتا ہے ۔۔۔انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ زنجیر میں جکڑے ہوئے اس مشکل حالات میں چلتے رہنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں انہیں کہاں جانا ہے کیوں جانا ہے ۔۔۔

عجیب سماں ہے طویل قطار میں چلتے ہوئے لوگوں کے ہاتھ پاوں درد سے کراہا رہے ہیں زنجیر کی رگڑکے باعث پاوں سے خون رستا ہے درد کی ٹیسیں نکلتی ہیں دل تڑپ جاتا ہے جسم کانپ جاتے ہیں انگ انگ کرب میں ہے بس ان کی زبان آزاد ہے ۔۔۔لیکن ۔۔۔
ناجانے کیوں ۔۔۔یہ بدقسمت لوگ۔۔۔ان کی زبان ۔۔۔بے زبان ہے ۔۔۔زخمی ہیں ۔۔۔خون بہتا ہے ۔۔۔جوبھی ہو۔۔۔ایک
ہی بات ہے ۔۔۔ایک ہی لفظ۔۔۔جواس زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے ۔۔۔واہ واہ واہ واہ

جب آقا دکھائی دیتا ہے ۔وہ ظلم کرتا ہے۔وہ مسکراتا ہے۔ وہ گولیاں برساتا ہے ۔وہ تمام حقوق سے محروم رکھتا ہے ۔وہ آپ کو بھوکا رکھتا ہے ۔وہ آپ کے بچوں کو معزور بناتا ہے ۔وہ آپ کی جواں نسل کو اندھا کر دیتا ہے ۔تم زنجیروں میں جکڑے ہو ۔ آہستہ چلتے ہوتو کوڑے مارتا ہے ۔۔پھر تماری وڈیو فلم اپنے چینل پر چلاتا ہے ۔ ۔تم دواؤں کے بغیر مرتے ہو۔۔تم تعلیم سے محروم ہو ۔تم کو غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں ۔تمیں ملکوں ملکوں بھٹکنے پر مجبور کرتا ہے ۔تم تپتی صحراوں میں جوانیاں برد کرنے پر مجبور ہو۔وہ وہاں بھی شاہانہ انداز میں آکر دیکھتا ہے کہ تم میں کتنی ہمت باقی ہے تم پھر بھی اسے ریڈکارپٹ پروٹوکول دیتے ہو۔۔۔استقبالیہ نعرے بلند کرتے ہو ۔۔۔تمیں اپنے حقوق کا علم نہیں ۔۔۔تمیں اپنے حقوق صلب کرنیوالے کی پہچان نہیں ۔۔۔قومی سوچ نہیں ۔۔۔ فکر نہیں ۔۔۔استحصال پر ندامت نہیں ۔۔حیا نہیں ۔۔۔تمارے وہ دشمن جنہوں نے تم سے ترا حق آزادی چھین رکھا ہے وہی تمارے ہمدرد بن کر ترا مزاق اڑاتے ہیں ۔۔۔ائے محکوم و ناداں ۔۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔ تمارے ساتھ کوئی جو چاہے سلوک کرے ۔۔۔ بس تماری زبان نے صرف یہی بولنا سیکھاہے ۔۔۔واہ واہ واہ واہ ‘‘

Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.