خسرو کا ہندوی کلام ، نظریات واشکالات

اردو کی خشت ِ اول اور تشکیل ِزبان وادب میں جن عناصر کی شمولیت رہی ، ان میں تکثیری سماج کا پہلو شاید ہمیشہ نمایاں رہا۔ اولین تاریخی شواہد کے شوشے گوشے میں سماجی تانے بانے کی دلکش لڑیاں واضح نظر آتی ہیں۔ لسانی جرثومے اور اجزائے صنفی میں سماجیات کی بجلیاں چھٹکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ تشکیلاتِ زبان کی تاریخی مٹی سے بھی سوندھی سوندھی تکثیریت کی خوشبو آتی ہے۔ نظمیاتی سرمایوں میں بقائے باہم کے جگنو جگمگاتے ہیں تو اولین نثری پیرایوں میں تصورِفردیت کے ساتھ ساتھ تصورِ سماجیات بھی جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اپنی سخن شناسی اور ادبی طالع آزمائی کے جوچند قطرے امیر خسرو نے اردو زبان وادب میں شامل کیے ، ان میں بھی تکثیری سماج کی گونج سنائی دیتی ہے۔ہندی سماج کی ہندویانہ خصویات اور مسلم معاشرہ کی اسلامی ترجیحات کو بقائے باہمی کی فضا میں انھوں نے اس طرح پروان چڑھانے کی کوشش کی کہ اردو زبان اول وہلہ سے ہی تصورِ تکثیریت سے مالا مال نظر آتی ہے ۔ اس مفروضہ کی توثیق کے لیے زبان وادب کی موشگافیوں سے قطع نظر راگ راگنیوں کے ضمن میں ان کا ذکر ہی کافی ہے ۔ موسیقی کے تئیں اسلامی تصورات ونظریات کے برعکس موسیقیت میں ان کا حصہ کلچر وثکثیریت کے تناظر میں قابل التفات ہے ۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ خسر و کے ماتھے پر نہ صرف ادبی جھومر جگمگاتے ہیں ، بلکہ ان کے ادبی سراپے سے سنگیت وموسیقی کی جھنکار بھی سنائی دیتی ہے ۔ وطنیت کی سوندھی سوندھی خوشبو پھوٹتی ہے۔ ان کی کشادہ پیشانی پر تہذیب وکلچر کی نمایاں لکیریں بھی ابھری ہیں۔ رہی بات خسرو کے ہندو ی کلام کی حقیقت وماہیت اور ان میں پائی جانے والی فنی وموضوعاتی نزاکتوں کی تو اس کے لیے تاریخی جھروکوں میں جھانکنا ناگزیز ہے ۔
خسرو کے فارسی کلام سے قطع نظر سردست ہندوی کلام کے انسلاکات سے ہی سروکار رکھنا ہے ۔ ورنہ ان کے فارسی کلام کی نزاکتوں اور ادبی موشگافیوں پر اجمالی گفتگو بھی طوالت کا متقاضی ہے ۔یہاں پر فقط ان کی فارسی دانی کا اظہار علامہ شبلی نعمانی کے لفظوں میں :
’’․․․اور سچ پوچھوتو اس قدر مختلف اور گونا گوں اوصاف کے جامع ، ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو ہی چار پیدا کیے ہوں گے ، صرف ایک شاعری کو لوتو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے۔ فردوسی ، سعدی ، انوری ، حافظ ، عرفی نظیری ، بے شبہہ اقلیم سخن کے جم وکے ہیں، لیکن ان کی حدود حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتی۔ فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سعدی قصیدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ انوری مثنوی اور غزل کو چھو نہیں سکتا۔ حافظ ، عرفی ، نظیری غزل کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن خسرو کی جہاں گیری میں غزل ، مثنوی، قصیدہ ، رباعی ، سب کچھ ہے اور چھوٹے چھوٹے خطہ ہائے سخن یعنی تضمین ، مستزا د اور صنایع وبدایع کا تو شمار نہیں ‘‘۔(1)
مذکورہ اقتبا س خسرو کی فارسی دانی اورفارسی میں ان کی صنفی ثروت مند ی کا پتا دیتا ہے۔تاہم ان کے ہندوی کلام کے محتویات کی نکتہ کشائی سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت کے ہندوی کلام میں موجودہ شیریں اردوکی سلاست وروانی ہوسکتی ہے اور نہ ہی معیاری ہندی کی نفاست پسندی۔ البتہ لسانی سطح پر اپ بھرنش کے دائرہ سے نکل کر ان کا کلام کھڑی بولی اور برج بھاشا کا پتا دینے لگا تھا۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ اردو شاعری میں خسرو کا طریقہ جداگانہ تھا ۔ یعنی کبھی ایک مصرعہ فارسی اور دوسرا اردوتو کبھی آدھا اردو تو کبھی آدھا فارسی میں ۔ تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دونوں مصرعے اردومیں بنائے ، جن میں کھڑی بولی اور برج بھاشا کی گونج تھی۔(2)آئندہ سطور میں دی گئی مثالوں سے مذکورہ باتوں کی تصدیق ہوگی کہ خسرو نے ہندوی الفاظ کو کس کس انداز میں اپنے اشعار کا حصہ بنایا ہے ۔
اسی طرح یہاں یہ بھی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ خسرو نے ہندوی کلام میں جو زبان استعمال کی، وہ زبان کتنی صاف ستھری یا پھر اپنے عہد کے متقدمین اور متاخرین سے کتنی مختلف تھی۔ یہ تو مسلم ہے کہ مسعود سعد سلمان کے بعد خسرو کو ہندی اور اردو کے اولین شاعر کی حیثیت حاصل ہے ۔ لسانی تناظر میں اس لیے ہماری نگاہیں ، ان پر ہی جا ٹکتی ہے ، تاہم خسرو سے قبل گورکھ ناتھ اوران کے بعد کبیر کی بانیوں کی زبان قریب قریب یکساں نظر آتی ہے:
اَودھو ایسا نگر ہمارا تہاں جو وو اُجد وادم
اُردُھ ، اَرتھ بازارمٹر یا ہے گورکھ کہے وِچارم
گورکھ نابی
․․․․․․․․․․․․․․․․․
بڑھیں نت نیھ تمے پتی ساہ
امی رس میں وش گھورت کاہ
ہمیرا راسو
․․․․․․․․
بھائی رے ملا ہو ہم کوں پار اتار
ہاتھ کا دیوونگی کا دیو ونگی ہار
دیکھ میں اپنے حال کو رو وں جار بجار
امیر خسرو
․․․․․․․․․․․․
کَرَ ت وچار من ہی من اپچی کہیں گیا نہ آیا
کہے کبیر سنسا چھوٹا رام رتن دھن پایا
کبیر (3)
ان مثالوں سے وضاحت ہوجاتی ہے کہ گورکھ ، خسرو اور کبیرداس کا کلام بہت زیادہ متفاوت نہیں۔ لسانی ہیئت کے تناظر میں جو زیادہ زمانہ ٔ بُعد سے متعلق ہے، اس کی زبان اتنی ہی گنجلک ہے۔ اگر خسرو کے زمانہ کا نمونہ ٔ کلام ہمارے سامنے ہوتا تو شاید ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ انھوں نے اپنے معاصرین سے الگ ہٹ کر ایک نئی زبان پیش کی۔ ان کے لفظوں کا آمیزہ دوسروں سے مختلف تھا ۔ یہاں تو یہ صورت ہے نہیں ، اس لیے خسرو کی زبان کے تعلق سے ہم فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندی یا اردو ان کے ہندوی کلام میں آنکھیں کھول رہی تھیں ، نہ کہ خسرو کسی پرانی زبان کو صاف ستھرے انداز میں صیقل کرکے پیش کررہے تھے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان کے کلام کی ادبی حیثیت کیا تھی اور ہندی یا اردو سے ان کی دلچسپی کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے ، اس پر بھی کلام ضروری ہے ۔ یوں تو خسرو کی ننانوے تصانیف کا پتا چلتا ہے۔ البتہ انھوں نے اپنے تیسرے فارسی دیوان ’’غرۃ الکمال ‘‘ کے دیباچہ میں اس فقرے ’’جزوے چند نظم ہندی نذرِ دوستاں کرد شدہ است ‘‘سے اپنے ہندی کلام کا انکشاف کیا ہے۔یہ فقرہ دو پہلوؤں کی عقدہ کشائی کرتا ہے ۔ اول ، خسرو نے ہندی /اردو کی طرف التفات کیا ۔ دوم ، دوستوں کے درمیان اپنی نظمیں تقسیم کردیں ۔ اس فقرہ سے بنیادی طو رپر ماہرینِ خسرو نے کئی غلط معانی اخذکر لیے اور تشریحات کے زعم میں بہت دور چلے گیے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ’’امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرۂ اشپرنگر ‘‘میں ایسے ماہرین کی احسن طریقے سے تردید کی ہے۔ ماہرین کا یہ تسلیم کرنا کہ خسرو ہندی /اردو میں شعر کہنے کو دونِ مرتبت سمجھتے تھے، اس لیے نہ زیادہ ہندی کلام کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی خسرو نے ہندی میں جمع ِکلام کا التزام کیا؛ پر نارنگ نے نکیر کی اور لکھا کہ ’’جزوے چند․․․․‘‘ کے فقرے نے ماہرین کو گمراہ کیا ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر تفصیلا ت وہاں موجود ہیں ۔ (4)
تاہم اس فقرے پر راقم یہ کہنا چاہتا ہے کہ خسرو کے دوستوں کو ان کے ہندوی کلام میں نیے پن کا احساس ہوا ہوگا۔ فقط خسرو کی زبان سے سن کر انھیں سیری نہیں ہوئی ہوگی۔ وہ ان کے ہندوی کلام کو باربار سننا چاہتے ہوں گے۔ پڑھنا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے دوستوں نے خسرو سے اپنے درمیان ہندوی کلام تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا ہوگا اور خسرو نے ان کے مطالبہ کا پاس ولحاظ رکھا ہوگا۔ اس فقرہ میں قطعاً یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ خسرو نے اپنے ہندوی کلام کو کمتر سمجھ کر تقسیم کردیا ہے ۔ ان کا ہندوی کلام کمتر ہوتا تو وہ شاید دوست واحباب کے درمیان تقسیم کرتے اور نہ ہی دوست ان کے کلام کو قبول کرلینا گوارہ کرلیتے ۔ بہار میں ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، چھُہَکّاہونا ۔ مچھلی فوراً چھہکاہوگئی۔ یعنی خریدنے والوں نے منٹوں میں خرید لیا؛ سرعت کے ساتھ کوئی چیز منقسم ہوگئی ۔ راقم کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ خسرو کے ہندوی کلام میں دوستوں کو نیے پن کا احسا س ہوا ہوگا اس لیے کہ فورا ً چھہکے کی نوبت آگئی ہو گی ۔
یہ بات بھی قابل التفا ت ہے کہ ’’جزوے چند نظم ہندی نذرِ دوستاں․․․․․‘‘سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ چند دوستوں نے ہندوی کلام کا مطالبہ کیا ہوگا تو چند ہندی کلام ہی تقسیم ہوئے ہوں گے اور بقیہ ہندوی نظمیں خسروکے پاس ہی محفوظ رہی ہوں گی ، اس لیے جزوے چند․․․۔ ایک اوربات یہ کہ خسرو کا انتقال 72برس کی عمر میں ہوا اور غرۃ الکمال میں 685سے693تک کی چیزیں شامل ہیں ۔ یعنی خسرو کی عمر کے چونتیس سے تینتالیس برس کے دوران کا یہ زمانہ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ خسرو نے تینتالیس برس کی عمر تک ہندی میں کم کہا ہو اور بعد میں ہندوی کلام کا شغف بڑھ گیا ہو۔ اس لیے اس فقرہ کو بنیاد بناکر ماہرین کا سیدھے لفظوں میں یہ کہہ دینا کہ خسرو ہندی میں شعر کہنے کو دون ِمرتبت گردانتے تھے، خسرو کے ساتھ شاید انصاف نہیں ہے۔ گوپی چند نارنگ نے نسخہ برلن کے حصول کے بعد جو حقائق پیش کیے ، اس سے خسرو کے ہندوی کلام کا دائرہ وسیع ہوا ہے ۔ بعید نہیں کہ مرورِزمانہ کی گردشوں سے دائرہ خسرو اور بھی وسیع ہو ۔
کلام کی کمی وزیادتی کا مسئلہ اپنی جگہ ، تاہم یہ امرمسلّم ہے کہ خسرو نے ہندوی کلام کا ذخیرہ چھوڑا ہے ۔ البتہ مرو رِ زمانہ کے ہاتھوں نے ان کے کلام میں حذف واضافہ کا کام کیا ۔خسرو نے ’ غرۃ الکمال ‘میں اپنے ہندوستانی پن اور ہندوی گوئی پر کچھ یوں فخر کیا ہے :
تُرک ہندوستانیم من ہندوی گویم جواب
شکر مصری ندارم گز عرب گویم سخن (5)
ڈاکٹر نظیر احمد لکھتے ہیں :
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ (امیر خسرو)ہندی کے ایک کہنہ مشق شاعر تھے اور انھوں نے اس زبان میں کافی سرمایہ بھی چھوڑا ہوگا ۔ یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ خسرو کا ہندی کلام سارا برباد ہوگیا ۔ دراصل اس کی بازیابی کی پوری کوشش نہیں ہوئی‘‘۔(6)
محمود شیرانی لکھتے ہیں :
’’ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ خواجہ ہندی میں بھی شعر کہتے تھے مگر بدقسمتی سے ان کا کلام دستِ برد زمانہ کے ہاتھوں شاید ہمیشہ کے لیے برباد ہوگیا ہے ‘‘۔(7)
خسرو کے حوالہ سے اشپرنگر کا نشان زد جو نسخہ گوپی چند نارنگ نے طبع کیا ہے ، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کبھی اور کسی اور نسخہ کا کچھ پتا چلے ، اس طرح خسرو کے ہندوی کلام کا مزید انکشاف ہو۔اس نسخہ کی دریافت کے بعد ہم قنوطیت کے شکار نہیں ہیں ، تاہم پتا نہیں کیوں پروفیسر محمود شیرانی قنوطیت کے شکار اب سے بہت پہلے ہی ہوگیے اور یہ کہنے پر مجبو ہوئے کہ خسرو کا ہندی کلام کبھی ملے ہی نہ ۔ ہوسکتا ہے کہ خالق باری جو خسرو کے ہندوی کلام کا بڑا سرمایہ سمجھاجاتا ہے ،کو شیرانی صاحب نے خسرو کا تسلیم نہیں کیا ہے ، اس لیے وہ ناامید ہوگیے ہوں گے کہ خالق باری بھی ان کی نہیں تو اور کچھ ملنے کی امید بھی باقی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انیسویں صدی میں اشپرنگر کی مرتب کردہ مخطوطات کی فہرست یا ان کا مضمون پڑھ لیتے تو شاید شیرانی صاحب کوخسرو کا کلام صحیح سلامت ملنے کی کچھ امید ہوتی۔پھر یہ بھی ایک معاملہ ہے کہ مولوی محمد امین چڑیا کوٹی نے خالق باری کو نہایت دقیقہ ریزی کے بعد علی گڑھ سے ’’جواہر خسروی ‘‘کے نام سے شائع کیا ہے اور زمانہ ٔخسرو کے مماثل لفظوں کی روشنی میں خالق باری کو خسروکا مجموعہ ہی تسلیم کیا ہے لیکن محمود شیرانی اس سے مطمئن نہیں ہوسکے ۔ وہ کسی ضیا ء الدین خسرو کو خالق کا باری کا خالق تسلیم کرتے ہیں۔ خالق باری ان کے یہاں خالق باری نہیں ، حفظ اللسان تھا ۔(8)
شیخ سلیم احمد کی مرتَّبہ کتاب میں محمود شیرانی کا یہ مضمون’ خسروکا ہندی کلام ‘کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے ، تاہم اس طویل مضمون میں ان کے ہندوی کلام کی عمومی فضا ہے ہی نہیں ۔ فقط خالق باری کے انسلاکات سے بحث کی گئی ہے ، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خالق باری کو خسرو کے چنگل سے چھڑانے کی پوری کوشش ہوئی۔ یہ معلوم نہیں کہ مرتب نے اس مضمون کا نام تبدیل کردیا ہے یا محمود شیرانی نے خود اس طویل القامت مضمون کا یہی نام رکھا تھا۔ خالق باری کو خسرو سے آزادی دلانے کے بعد محمود شیرانی کو امید ہی نہیں ہوتی ہے کہ خسرو کاہندوی سرمایہ کبھی ہاتھ بھی آسکتا ہے ، تاہم گوپی چندنا رنگ نے اشپرنگر کے نشان زد نسخہ برلن سے حاصل کرکے شائع کردیا ہے ۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے متعلق شمس اﷲ قادری نے اشپرنگر کے حوالہ سے اپنی کتاب ’’اردوئے قدیم ‘‘میں لکھاتھا اور اس نسخہ کو اشپرنگر اپنے 1856میں اپنے وطن جرمنی لے گیے تھے۔ شمس اﷲ قادری کے حوالے سے گوپی چند نارنگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’شاہا ن اودھ کے کتب خانوں میں جو موتی محل اور توپ خانہ میں تھے ، حضر ت امیر خسرو کے دوسو چیستاں موجود تھے اور ان کے علاوہ ایک مجموعہ میں ان کا متفرق کلام جمع تھا ، جس میں فارسی آمیز غزلیں اور کہہ مکرنیاں وغیرہ تھیں۔ ان دونوں مجموعوں کو ڈاکٹر اشپرنگر نے دیکھا تھا اور ان کے متعلق ایک مضمون بھی لکھا تھا جو 1854میں شائع ہوا تھا‘‘۔ (9)
یہی وہ نسخہ ہے ، جو گوپی چند نارنگ کو1982میں سفر یورپ کے دوران برلن میں ہاتھ لگا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’غرض شاہان اودھ کے کتب خانوں میں امیر خسرو کے ہندوی کلام کے جو قلمی نسخے محفوظ تھے اوران میں جو دوسو پہیلیاں تھیں ، ان میں سے 150کا نسخہ ٔ برلن کی صورت میں مل جانا شائقین خسرو کے لیے ایک نادر تحفہ ہے یا نہیں ، لیکن اس میں کلام نہیں کہ اس سے خسرو کے ہندوی کلام پر مزید غوروخوض اور تحقیق وتفتیش کا ایک نیا دریچہ ضرورواہوجاتا ہے‘‘۔(10)
اس تحقیقی اور نزاعی مسائل ومباحث کے بعد ہم ذیل میں نمونہ ٔ کلام پیش کرکے خسروکے ہندوی منہاج ومعاملات کا جائزہ لیں گے۔ تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ خود کتنے ہندوستانی ہیں اور ان کے رگ وپے میں کتنا ہندوستان بسا ہے یا ان کے ہندوی کلام میں لسانی سطح پر کتنی ہندوستانیت ہے ۔ اساسی طور پر ہندوی تناظر میں امیر خسروکے دو پہلو ہیں۔ اول ،ان کے مکمل سرمایہ (فارسی /ہندی) میں ہندوستانی فضا کتنی رچی بسی ہے۔ دو م ، ان کا ہندوی کلام یا ہندوی کلام میں ہندوستانیت۔ یہاں پر ہم فقط ان کے ہندوی کلام سے مثالیں پیش کریں گے:
آری آری ہمہ بیاری آری
ماری ماری برہ کہ ماری آری
ماہرین خسرو ڈاکٹروحیدمرزا ، ڈاکٹر گیان چند جین اور گوپی چند نارنگ نے اس کی مختلف قرأت کرتے ہوئے معمولی اختلاف کے ساتھ دونوں زبان کا تسلیم کیا ہے ۔
رفتم بہ تماشائی کنارِ جوئے
دیدم بلبِ آب زن ہندوئے
گفتم صنما بہائی زلفت چہ بوئے
فریاد برآورد ’’دُر دُر موئے‘‘
․․․․․․․․․
جو بکشا دند تیرے بے خطار ا
بہ زاری گفت ’’ہے ہے تیر مارا‘‘
․․․․․․․
خسرو رین سوہاگ کی جاگی پی کے سنگ
تن میرے ومن پیو کو دوؤ بھیے اک رنگ
(اے خسرو اپنے محبوب کے ساتھ سہاگ رات جاگ کر گزاردی۔ میراتن اورمحبوب کا من دونوں مل کر ایک ہوگیے۔)
زرگر پسرے چوماہ پارا
کچھ گڑھیے ، سنواریے ، پکارا
نقد من ربود وبشکت
پھر نہ گڑھا نہ کچھ سنوارا
(ایک سنار کا لڑکا دیکھا جو خوب صورتی میں چاند کا ٹکڑا تھا ۔ میں نے گڑھنے اور سنوارنے کے لیے کہا ۔ وہ میرے دل کی دولت لے گیا اور میرا دل توڑ ڈالا ۔ اب گڑھنے وسنوارنے کے لیے کچھ باقی نہ رہا )
․․․․․․․․․․
گجری توکہ در حسن ولطافت چومہی
ایک دیگ دیہی برسر تو چتر سہی
از ہر دولبت شہد وشکر می ریزد
ہرگاہ کہ می گوئی دیہی لیہو دیہی
(اورگجری تو اپنی سندر تا میں چاند کی طرح ہے ۔ دیہی کا برتن تیرے سر پر شاہی چھتر کی طرح لگتا ہے جب تو پکارتی ہے کہ لے لو دہی تیرے ہونٹوں سے شہد وشکر ٹپکتے ہیں۔)
․․․․․․․․
چند پہیلیاں:
ادھر کو آوے ادھر کو جاوے
ہرہر پھیر وہ کاٹ کھاوے
ٹہرے جس دم وہ نارن
خسرو کہے اس کو آرن
(آری)
․․․․․․
گھوم گھمیلا لہنگا پہنے ایک پاؤ سے رہے کھڑی
آٹھ ہاتھ ہیں اس ناری کے صورت اس کے لگے پری
سب کوئی اس کی چاہ کریں مسلمان ہندو چھتری
خسرو نے یہ کہی پہیلی دل میں اپنے سوچ ذری
چھتری
․․․․․․․․
ایک تھا ل موتیوں سے بھرا
سب کے سر پر اوندھا دھرا
چارو اور وہ تھا ل پھرے
موتی اس سے ایک نہ گرے
آسمان
․․․․․․․․
ایک کہانی میں کہوں سن میرے پوت
بن پنکھوں وہ اڑگیا باندھ گلے میں سوت
پتنگ
․․․․․․․
سب سکھین کا پیا پیارا
سب میں ہے اور سب سو نیارا
وا کی آن مجھے یہ بھا
جاکی ہے بن دیکھی چا
خدا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
چند کہہ مکرنیاں:
آنکھ چلاوے بھوں مٹکاوے
ناچ کود کے کھیل دکھاوے
من آوے لے آؤں اندر
اے سکھی ساجن ؟ ناسکھی بندر
بندر
․․․․․․․․
نت میری کھاتر بجار سے آوے
کرے سنگار تب چوما پاوے
من بگڑے نت راکھت مان
اے سکھی ساجن؟ ناسکھی پان
پان
․․․․․․․․
دوسخنے کی مثالیں :
انار کیوں نہ چکھا ؟
وزیر کیوں نہ رکھا ؟
جواب دانا نہ تھا۔
․․․․
دیوار کیوں ٹوٹی ؟
راہ کیوں لوٹی ؟
جواب ، راج نہ تھا ۔
․․․․․․․
گھر کیوں اندھیارا ؟
فقیر کیوں بڑا را ؟
جواب ، دیا نہ تھا ۔
نوٹ : یہ مثالیں گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ‘‘اور شیخ سلیم احمد کی کتاب ’’امیر خسرو ‘‘(11)سے لی گئی ہیں۔
ان مثالوں اور مذکورہ سطور میں ہونے والی بحث کے بعد یہ بات محقق ہوجاتی ہے کہ امیر خسرو کے ہندوی کلام کے نمونے موجودہیں۔ مختلف پیرایوں میں انھوں نے ہندوی الفاظ کو اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔ کبھی فارسی کی لڑیوں میں چند ہندی لفظوں کو جگہ دیتے ہیں تو کبھی فاسی مصرعوں میں اردو مصرعہ ٹانکنا انھیں پسند ہے یا پھر کبھی کبھی فقط ہندی لفظوں سے ہی مکمل مکمل مصرعہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس لسانی سطح پر ان کی زبان کو اس وقت کی منجھی ہوئی زبان تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس وقت کسی بھی شاعر کے ہندوی کلام کا نمونہ موجود نہیں تھا ۔ نمونہ کلام کی موجودگی میں ہی دیگر شعرا کے کلام کامحاکمہ یا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ خسرو سے پہلے مسعود سعد سلمان کا ذکر تو ملتا ہے ، تاہم ان کا نمونہ ٔ کلام نایاب ہے ۔ اس لیے خسرو کی زبان کو ایک صاف ستھری زبان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ گورکھ بانی ، ہمیرراسو ، امیر خسرو اور کبیر کی زبان کا موازنہ ہمیں بتاتا ہے کہ اساسی طور پر لسانی ہیئت کی بنیاد پر کسی ایک کی انفرادیت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ کیوں کہ سب کی زبان میں کسی نہ کسی حد تک یکسانی رنگ وآہنگ موجود ہے ۔ اگر خسرو کی زبان دھلی دھلائی اور صاف ستھری تھی تو سب کی تھی ،اس معاملہ میں خسرو کے لیے کوئی وجہ تفوق نہیں۔ ابتدائی سطور کی نظمیہ مثالوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ۔ اور ہم یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں اس پوری بحث میں ہندوی سے مراد خالص ہندی یا اردو نہیں ہے ، دیگر ہندی زبانیں مراد ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ امیر خسرو نے ہندوی کے تناظر میں آٹھ زبانوں کے جاننے کا اعتراف کیا ہے ۔چنانچہ ان کے ہندوی کلام کا سراہندی،اردو کے علاوہ دیگر ہندوی زبانوں سے بھی ملایا جاسکتا ہے ۔
لسانی نقطہ نظر کے بعد خسرو کے ہندوی کلام کا موضوعاتی سروکار یہ ہے کہ وہ اوّلین ایسے سخن گو ہیں جن کے کلام میں ہندوستانیت کی گونا گوں تصاویر اپنے رنگوں کی نقاشی کے ساتھ جلوہ نما ہیں۔ ان کی اْردو یا ہندوی شاعری اس لحاظ سے ایک بے مثال مرتبہ رکھتی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو نہایت فن کاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ا نھوں نے نہ صرف ہندی بلکہ فارسی کلام کا پوٹریٹ کھڑا کرنے میں بھی ہندوستانی آلات کا استعمال کیا ہے ۔ ان کے لب ولہجہ میں ہندوستانیت کی گونج ہے۔ہندوی کی طرف ان کے میلان میں شعوری کوشش نظر آتی ہے ۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر وہ فقط تفنن طبع کے لیے ہندوی کی طرف مائل ہوتے تو ہندوستانیت پرشکوہ انداز میں ان کے یہاں جلوہ گر نہیں ہوتی۔ مقالہ کی اختیامی سطور گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں:
وہ ہندوستان کے عاشق صادق اور سچے وطن پرست تھے۔اپنی شاعری میں جہاں جہاں وہ امیر خسرو ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اور جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں۔(12)

٭٭٭٭
حوالہ جات :
(1)علامہ شبلی نعمانی ، شعر العجم (دوم )، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ یوپی ،2014، ص 108۔
(2)ڈاکٹر جمیل جالبی ، تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ایجوکیشنل پبشنگ ہاؤس دہلی 2013، ص 29)
(3)مجیب رضوی ، خسرو نامہ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، جامعہ نگر نئی دہلی 1987،ص53)
(4)گوپی چند نارنگ ، ’امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرۂ اشپرنگر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ، 1992(طبع سوم)، ص 33)
(5)بحوالہ :مجیب رضوی ، خسرو نامہ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، جامعہ نگر نئی دہلی 1987،ص39)
(6)ڈاکٹر نذیر احمد ، امیر خسرو کے ادبی وشعری کمالات پرایک نظر ، مشمولہ ہندوستانی زبان بمبئی ، خسرو نمبر 1972، ص79)
(7)محمود شیرانی ، پنجاب میں اردو ، لکھنو 1970، ص 65۔
(8)امیر خسرو کا ہندی کلام ، مضمون نگار محمود شیرانی ، مشمولہ :امیر خسرو ، مرتبہ شیخ سلیم احمد ، ادارۂ ادبیا ت قاسم جان اسٹریٹ دہلی 1976،ص294)
(9)شمس اﷲ قادری ، اردو قدیم لکھنو 1929،ص30، بحوالہ امیر خسرو کا ہندوی کلام ، ص 88۔
(10)گوپی چند نارنگ ، ’امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرۂ اشپرنگر،(طبع سوم)، ص 108۔
(11)شیخ سلیم احمد ، امیر خسرو ، ایس سی ای آرٹی دہلی ، 1975،ص ص37-48
(12) ’امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرۂ اشپرنگر،1992(طبع سوم)، ص 13۔

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92156 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More