آفاقی و سرمدی شاعرحضرت خواجہ غلام فرید ؒ نے سرائیکی
شاعری کو وہ مقام و مرتبہ اور دوام بخشا ہے کہ جس کی بدولت سرائیکی زبان نے
اپنی شعریت اور چاشنی کی بنا پر دیگر علاقائی زبانوں کی نسبت زیادہ مقبولیت
حاصل کی جس کی مثال خواجہ غلام فریدؒ کی سوز گداز مغمومیت نغمگیت اور سر
تال میں رندھی ہوئی کافیاں ہیں۔ ان کی کافیوں میں عشقِ حقیقی اور عشقِ
مجازی دونوں کے اپنے انفرادی رنگ نمایاں ہیں در حقیقت عشقِ مجازی کو اولیت
حاصل ہے کیونکہ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی ہی کی ایک بنیادی کڑی ہے اور عشقِ
حقیقی عشقِ مجازی کے بغیر نامکمل ہے ۔ہجر و وصال کے کٹھن اور طویل مرحلے
سہنا‘ سینے میں وصالِ محبوب کی تڑپ،محبوب کی تلاش (مقامِ معرفت کے حصول کے
لیے کاٹی جانے والی تپسیا)جنگلوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہنا،یہ تمام
کیفیات عشق کا خاصہ ہیں اور عشق و محبت کے پیمبر خواجہ غلام فریدؒ کی
کافیوں میں ان تمام حالتوں کا ظہور نمایاں طور پر ہے۔انہوں نے عشق کے دہکتے
الاؤ میں اپنا آپ جھونک دیا۔صحراؤں اور بیابانوں کی پاپیادہ خاک چھانی ۔ہجر
و فراق کی لُو کے تھپیڑے سہے پھر بھی وصال یار کی خواہش نہ گئی اور یوں پر
سوز صدا بلند کی ’’ میڈا عشق وی توں ایمان وی توں‘‘ اور اس سوز و گداز اور
عشق کے امتحانوں میں بھی راحتِ قلب کا سامان ڈھونڈتے رہے۔
دیگر صوفیاء اور مشائخ کی طرح خواجہ غلام فرید ؒ محبت ‘فروغِ امن اور راستی
کے لیے اپنے افکار کا پرچاراپنے حسنِ اخلاق اور شاعری کے ذریعے کرتے رہے ۔گو
کہ خواجہ غلام فریدؒ بنیادی طور پر سرائیکی زبان کے شاعر تھے مگر اپنے
پیغام کی مناسبت اور عصری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر میں لاتے ہوئے سکہ رائج
الوقت تمام زبانوں میں شاعری کی مگر اپنی مٹھڑی زبان سرائیکی کو اپنے پیغام
اوراپنی محبت کی بدولت بامِ عروج تک پہنچایا۔ سرائیکی میں ’’دیوانِ فرید ‘‘
کے علاوہ جس دوسری زبان میں خواجہ غلام فریدؒ کا کلا م دیوان کی صورت میں
چھپا وہ ہے اردو۔ اورہمار اآج کا موضوع بھی حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی اردو
شاعری ہے۔
مختلف محققین کی آراء اوردیگرحوالہ جات کے مطابق خواجہ غلام فرید کا اردو
کلام1972ء سے 1984ء تک اشاعت کے مراحل سے گزرتا رہا۔ ماہرِ غالبیات ‘
دانشور اور معروف محقق و مؤرخ ڈاکٹر شکیل پتافی اپنی کتاب’’ جنوبی پنجاب
میں اردو شاعری‘‘ میں خواجہ غلام فریدؒ کی اردو شاعری کے حوالے سے اپنی
تحقیق کو ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں؛
’’جہاں تک خواجہ غلام فریدؒ کی اُردو شاعری کا تعلق ہے تو 1972ء میں صدیق
طاہر نے اُن کا اُردو کلام شائع کیا تھا ۔یہ مجموعہ 98غزلوں
9رباعیات‘2قطعات اور ایک سرائیکی اُردو مخلوط نظم پر مشتمل ہے۔صدیق طاہر کا
مرتب کردہ یہ اُردو دیوان بالکل اس دیوان کے مطابق ہے جو 1884ء میں مطبع
رونق آگیں ‘ گلزارِ محمدی ‘ لاہور سے شائع ہوا تھا۔اُس دیوان میں بھی دو
قطعات چار رباعیات ایک مخلوط نظم اور اٹھانوے اُردو غزلیں ہیں‘‘
اسی طرح ماہرِ فریدیات جناب مجاہد جتوئی کی ریسرچ کے مطابق 1882ء۔ 1984ء
میں خواجہ غلام فریدؒ کا اردو کلام ‘‘ مثنوی معدنِ عشق‘‘ کے نام سے شائع ہو
چکا تھا اور اسی زمانے میں خواجہ غلام فریدؒ کا سرائیکی کلام بھی ’’ مثنوی
معدنِ عشق ‘‘ کے نام سے ہی جزوی کلام شائع ہوا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ
خواجہ فریدؒ کا سن وصال1901ء ہے اور خواجہ غلام فرید کا تمام اردو کلام ان
کے عرصہ حیات میں ہی شائع ہوا تھا۔ لہٰذہ یہ بات توہر اعتبار سے طے ہے کہ
خواجہ غلام فریدؒ نے اردو شاعری کی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا
اُردو شاعر ہونا کتبِ تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے۔اس کا بین ثبوت1884ء میں
شائع ہونے والا وہ اُردو دیوان ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے
مگر ان کے اردو دیوان کے سنِ اشاعت کے حوالے سے محققین میں اختلافات یا
تحفظات ضرور پائے جاتے ہیں مثلاً یاسمین قریشی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتی
ہیں کہ خواجہ فریدؒ کا قدیم ترین اُردو نسخہ 1884ء میں چھپا تھاجبکہ ڈاکٹر
روبینہ ترین کی تحقیق کے مطابق خواجہ فریدؒ کا اُردو دیوان سب سے پہلے
1882ء میں مطبع قادری ‘ لاہور سے شائع ہوا تھا۔اس کے علاوہ محققین خواجہ
فریدؒ کے کلام کے حوالے سے فنی پختگی ‘شعری محاسن اور معیارکے لحاظ سے بھی
اپنے اپنے تحقیقی و تنقیدی نقطہء نظر سے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جو کہ حل
طلب ایشوہے۔
ڈاکٹر انوار احمد اس حوالے سے کہتے ہیں:
’’ فرید ؒکا Poetic Geniousمضطرب ہے ‘ نامطئمن ہے‘ وہ اپنی آواز میں شعر
کہنا چاہتا ہے ۔اپنی مانوس معاشرت سے محاورہ مانگتا ہے۔اس لئے وہ اسی عالم
اضطراب میں اُردو کو ثقافتی دنیا میں اپنی روہی‘ اپنے چولستان میں لانے کا
آرزو مند دکھائی دیتا ہے ۔اسی حالتِ جذب میں اُس سے کچھ’’ غلطیاں‘‘ سرزد
ہوجاتی ہیں جنہیں کوئی’’ ساقط الوزن مصرعوں‘‘ پر محمول کرتا ہے ‘ کوئی تلفظ
کی مقامیت پر جبیں کو شکن آلود کرتا ہے اور کوئی دور دراز زمینوں اور
دریاؤں میں پلنے والے روز مرے اور محاورے کی ترمیم پر آزردہ ہے‘‘ ( ’’خواجہ
فرید کے تین رنگ‘ ڈاکٹر انوار احمد) اور اسی ضمن میں ہم ڈاکٹر شکیل پتافی
کی مثبت تنقیدی رائے کا جائزہ لیتے ہیں۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ صاحب کے ہاں اُردو غزل کا معیار بلند نہیں
۔بعض جگہوں پر زبان و بیان‘ روز مرہ اور محاورے کی غلطیاں موجود ہیں کچھ
اشعار اور مصرعے بھی وزن سے خالی ہیں ۔علاوہ ازیں دیگر فنی خرابیاں بھی
موجود ہیں لیکن اس کے با وجود بعض غزلوں کے اشعارمعیاری ہیں ۔اُن میں تخیل
کی بلندی اور فکر کی گہرائی پائی جاتی ہے۔المختصر‘خواجہ غلام فریدؒ کی
اُردو شاعری میں موضوعات کی کمی نہیں ۔عشق و محبت اور اس کے متعلقات‘تصوف
اور اس کے مسائل ‘مجاز اور حقیقت کا امتزاج اور زندگی کے متنوع تجربات اُن
کے موضوعات کا معیار برقرار رکھتے ہیں ۔البتہ اُن کا اسلوب اور تغزل بہت
زیادہ معیاری نہیں ہے کیونکہ اُردو اُن کی مادری زبان نہ تھی‘‘(جنوبی پنجاب
میں اردو شاعری۔ڈاکٹر شکیل پتافی)۔
رہا سوال اُن کی اُردو شاعری کے معیار کا تو اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ
ہو گا کہ خواجہ صاحب بنیادی طور پر سرائیکی زبان کے شاعر تھے ۔جو مقام و
مرتبہ انہیں سرائیکی شاعری میں حاصل ہے وہ روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں
ہے۔البتہ اُردو شاعری میں بعض وجوہ کی بنا پر انہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا
جو انہیں سرائیکی شاعری میں ملا ہے۔ویسے بھی ایک شاعر کسی زبان میں شعر
کہنے کی جو مہارت رکھتا ہو ضروری نہیں کہ کسی دوسری زبان میں بھی اس معیار
اور مرتبے کا شعر کہہ سکے ۔ اس لئے خواجہ صاحب کی اُردو شاعری کے معیار کو
اُن کے سرائیکی کلام کی کسوٹی پر پرکھنا اُن کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
گو کہ خواجہ فریدؒ کا اردو اسلوب اور تغزل ویسا معیاری نہیں جیسا دبستانِ
لکھنؤ اور دہلی کا تھا۔البتہ خواجہ فریدؒ کی اردو شاعری کے معیار کے حوالے
سے بات کی جائے تو اس کی کچھ درج ذیل وجوہات سمجھ میں آتی ہیں کہ ۔ان کے
دور میں لکھنؤ اور دہلی کے دبستان ِ شعری کے اجالے بہاولپور کے دور افتادہ
صحرائے ادب میں اپنی پوری تابندگی کے ساتھ نہیں پہنچ سکے تھے۔مگر باوجود اس
کے خواجہ فریدؒ کی غزلوں کے اشعار معیاری ہیں ان میں تخیل کی بلندی اور فکر
کی گہرائی اور وسعتِ معنویت ضرور پائی جاتی ہے۔اور نہ ہی خواجہ فرید ؒ کے
اردو کلام میں موضوعات کی کمی ہے۔عشق محبت اور اس کے متعلقات ِ تصور ‘تصوف
اور اس کے حاصل مجاز‘ حقیقت کا امتزاج اور زندگی کے تمام متنوع تجربات اُن
کی شاعری کے موضوعات کے معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔
ذیل میں خواجہ غلام فرید ؒکے اردو کلام میں سے دو غزلیں بطور نمونہ پیش
ہیں:
وہ یار جلوہ گر ہے اِدھر کو اُدھر کو بھی
اُس پر مری نظر ہے اِدھر کو اُدھر کو بھی
کتنے ہیں شعلہ زن یہاں کتنے ہیں اشکبار
کیا درد کا اثر ہے اِدھر کو اُدھر کو بھی
اُس حسنِ بے مثال کی تاثیر‘ دیکھیو!
دَر پردہ‘ پردہ در ہے اِدھر کو اُدھر کو بھی
جتنی نیاز ہے یہاں اتنا وہاں ہے ناز
یہ عشق کا ثمر ہے اِدھر کو اُدھر کو بھی
٭٭٭
جاناں تجھے ستم گر نہ کہوں تو کیا کہوں
تیری نگہ کو خنجر نہ کہوں تو کیا کہوں
جو نورلم یزل ہے سبھی تجھ میں ہے عیاں
تجھ کو خدا کا مظہر نہ کہوں تو کیا کہوں
سب اس سے بے قرار ہیں میدانِ درد میں
جلوے تیرے کو محشر نہ کہوں تو کیا کہوں
گریہ کروں تو خندہ زنی مجھ پہ کرتا ہے
ساجن کے دل کو پتھر نہ کہوں تو کیا کہوں
جو خاک ہو چکے تیرے پاؤں کی اے صنم
اُن کو جہاں کا سرور نہ کہوں تو کیا کہوں
پابند ہو کے آتشِ فرقت میں جل گئے
دل کو پتنگِ بے پر نہ کہوں تو کیا کہوں
مشکل کشا فرید نہیں غیر اس کا کوئی
ہر مشکلوں میں حیدر نہ کہوں تو کیا کہوں
٭٭٭
حضرت خواجہ غلام فرید درحقیقت معرفت کے مقامِ بلند پر فیض ایک جمال پرست
صوفی تھے۔آپ جہاں عشق حقیقی کی منزلوں سے آشنا تھے وہیں عشقِ مجازی کی
لذتوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے اسی لئے آپ اُن تمام لطیف جذبوں سے پوری طرح
آگاہ تھے جو ایک عاشق کو عشق و محبت کی کشمکش میں در پیش ہوتے ہیں۔خواجہ
غلام فریدؒ عشق کے پہلوؤں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی دونوں کو ساتھ لے کر
چلتے تھے۔ وحدت الوجود کے فلسفے کے اظہار کے لیے ان کا فطری مظاہرِ سے
والہانہ لگاؤاور عشقِ مجازی میں عشقِ حقیقی کے جلوے ان کے عرفان کے
مظہرہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید ؒبنیادی طور پر سرائیکی زبان کے شاعر تھے لیکن
سرائیکی کے ساتھ ساتھ فارسی‘عربی‘سندھی ‘ ہندی ‘اُردو اور انگریزی وغیرہ سے
بھی واقفیت رکھتے تھے۔چنانچہ سرائیکی کلام کے ساتھ ساتھ اُن کے یہاں اُردو
کلام بھی ملتا ہے ۔سندھی اشعار اور ہندی گیت کے نمونے بھی پائے جاتے
ہیں۔مگر سرائیکی کلام کے بعد ان کا اردو کلام انتہائی اہمیت کاحامل اور
توجہ طلب ہے۔اگر خواجہ فرید کے اردو کلام میں کتابت ‘ طباعت یا دیگر فنی
نقائص ہیں تو بجائے اس علمی و ادبی خزانے کو متنازع بنانے کے ضرورت اس امر
کی ہے کہ دانشور‘ محقق ‘مؤرخ اور نقاد حضرات کو ان نسخہ جات کی از سرِنو
ترتیب تدوین اور تصحیح کا بیڑا اٹھانا چاہیے تا کہ یہ علمی و ادبی خزانہ
ضائع ہونے سے بچ سکے اور خواجہ فریدؒ کے سرائیکی دیوان کی طرح ان کا اردو
دیوان بھی مقبولیتِ عام حاصل کر سکے ۔
٭٭٭٭
|