پانامہ کا افسانہ - پرویز مشرف سیاسی کھیل میں نواز حکومت کو شکست دےسکا، کھلاڑی کے لئے لمحہ فکریہ

نواز شریف فی الوقت پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ باخبر، ہوشیار اور زیرک سیاستدان ہے جس نے پنجاب اور پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر سب سے زیادہ رنز اسکور کئے اور کوئی بھی بالر انہیں آوٹ کرنےمیں ناکام رہا، ایک آدھ اوور میں وہ ریٹائرڈ ہرٹ ضرور ہوئےمگر پہلے سےزیادہ توانا ہوکر اب تک بیٹنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے پروگرامز کے بالکل برخلاف اس خادم کو تو یہ نظر آرہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کے پروپیگینڈے جلد ہی دم توڑ دیں گے۔

پانامہ لیکس اور اس جیسے روز روز کے اسکینڈل پاکستانی سیاست میں کوئی نئے نہیں ہیں، ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ نواز شریف صاحب اور ان کی پارٹی سیاسی طور پر بالغ معلوم ہوتی ہے وگرنہ اگر نوے کی دہائی والی نواز شریف کی حکومت ہوتی تو کیا ججز اور کیا سیاسی پارٹیاں، سب کبھی ایک دروازے اور کبھی دوسرے دروازے سے اپنے گریبان اور عزت بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوتیں کہ نواز شریف کی حکومت کا سامنا کرنا پرانے وقتوں میں کوئی آسان کام تو نہ رہا تھا۔

دیکھا جائے تو دو ہزار تیرہ کےانتخابات کے فوری بعد سے ہی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ان کے مخالفین چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، پاکستان تحریک انصاف ہو، جماعت اسلامی ہو، ایم کیو ایم ہو یا کوئی بھی دوسری پارٹی ہو مسلسل پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں عوام کی یاداشت بہت کمزور ہے وہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ آج کے پوتر آصف علی زرداری صاحب نے عرف عام میں ایک شہید کے نام پر ملک و قوم کے ساتھ کیا کچھ کیا، جو کچھ کیا اس کا نتیجہ سامنے ہے اور پیپلز پارٹی صرف ایک پسماندہ صوبے کی ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے فوری بعد کبھی چار حلقے، کبھی پینتیس پنکچر ، کبھی یہ کبھی وہ قسم کے دعووں اور نعروں کے ساتھ انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میلے ٹھیلے، دھرنے، ریلیاں اور اس قسم کے کھیل تماشوں پر توجہ دی اور اس جانب نہیں سوچنے دیا عوام کو کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سال کے لئے منتخب ہوہی گئی ہے تو اسے پانچ سال حکومت کرنے کا موقع فراہم کرکے دو ہزار اٹھارہ میں اپنا پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور ن لیگ کی حکومت کی خامیاں اور کوتاہیاں دکھا کر عوام کی تائید حاصل کرکے انتخابی عمل میں کامیابی کے بعد اپنے پروگرام کے مطابق پاکستان میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کی جائے، مگر ایسا کرنے کے لئے جو سنجیدگی اور متانت چاہئے تھی وہ نہ تو معذرت کے ساتھ پیپلز پارٹی میں نظر آئی اور نہ پاکستان تحریک انصاف میں نظر آئی۔

نتیجہ سامنے ہے الزامات پر الزامات، جھوٹ، مکر اور فریب کو استعمال کرتے ہوئے ہر لمحہ کوشش کی گئی کہ حکومت کو کام نہ کرنے دیا جائے جس کا نتیجہ آپکے سامنے ہے کہ دہ ہزار تیرہ کو کم و بیش پانچ سال ہونے کو آئے ہیں مگر حکومت کو ہٹانے کے دعوے دار اپنی جگہ وہی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جو وہ پہلے دن سے کر رہے ہیں اور دوسری جانب حکومت انہی دعوں پر قائم ہے کہ حکومت تو ہماری ہی ہوگی۔

پانامہ لیکس کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل، جسے شیخ رشید صاحب جاتی امرا انویسٹی گیشن ٹیم کے نام سے یاد کرتے تھے ان دنوں، اب وہی شیخ رشید صاحب دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر سیلوٹ کررہے ہیں، صرف اسلئے کہ جی آئی ٹی وہی کام کرنےکی کوشش کر رہی ہے جو کام شیخ رشید صاحب کو بڑا پسند ہے یعنی نئی حکومت بننا اور اس میں شیخ رشید صاحب جیسے عیار اور کوئی قابلیت نہ رکھنے والے کو کوئی موٹی تازی وزارت ملنے کی آس امید پیدا ہو ہی جاتی ہے، کم از کم شیخ صاحب کا پورا ماضی اس بات کا گواہ ہے۔

قصہ مختصر کرتے ہوئے چھوٹا منہ بڑی بات سمجھتے ہوئے یہ عاجز، حقیر فقیر بندہ ناچیز اپنا کمتر سا تجزیہ پیش کرتا ہے کہ نواز شریف جیسے کہنہ مشق سیاستدان اور ان کی جیسی بھی لولی لنگڑی سیاسی ٹیم ہے، وہ اتنے بے وقوف اور سادہ ہرگز نہیں کہ اگر انہیں اپنے جرائم کے بارے میں معلوم ہو اور پھر بھی وہ ببانگ دہل بارہا یہ کہتے رہیں کہ ہمیں عدالت کا ہر فیصلہ قبول ہوگا۔ جس طرح سے نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت اپنے موقف پر جمی ہوئی ہے وہی اپوزیشن خصوصا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی صفوں سے بلند آوازوں پر زرا غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ان پارٹیوں کے بیانات تضاد اور پریشانی سے لبریز ہیں، حالانکہ میڈیا پر اپوزیشن یا کسی تھرڈ ویری اسٹرونگ پاور کی وجہ سے ن لیگ کے حامی کم پائے جاتے ہیں اور ہر اینکر پرسن لگتا ہے کہ جیسے نواز شریف سے کوئی ذاتی خار کھائے رپورٹنگ اور پروگرامز کرنے میں مصروف ہیں اگر اس سلسلے میں اعداد و شمار سے مدد لی جائے تو نواز شریف جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ان کی موفاقت یا حمایت میں کوئی پانچ فیصد پروگرامز اور اینکر پرسن اور تجزیہ نگار ملتے ہیں اور پچانوے فیصد (جی ہاں دل تھام کر سنئے ) پچانوے فیصد ہر حال میں نواز شریف کو نااہل ثابت کرنا چاہتے بلکہ یقین مانئے اپنے تئیں نااہل ثابت کر ہی چکے ہیں۔

جس طرح عمران خان صاحب اور شیخ رشید صاحب تواتر سے اخلاق اور قانون کے واسطے دے دے کر نواز شریف سے مستعفی ہونے کے بیانات دینے پر مصروف ہین اس سے بادی النظر میں اس خادم کو یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھ تمام اپوزیشن جماعتیں یہ بات جانتی ہیں کہ قانونی اور عدالتی کاروائی کے زریعے نواز شریف کو سیاست یا حکمرانی سے نکالنا ناممکن نہیں تو بے حد بلکہ جانئے حد ہی حد بے حد مشکل امر ہے جس کا بار ہماری اپوزیشن جماعتیں اٹھانے کی نہ سکت رکھتی ہیں اور نہ ہی قابلیت۔

امید ہے کہ میڈیا پر پھیلے جھوٹ، مکر، فریب، عیاری مکاری کے باوجود نواز شریف اپنے آپ کو پاک صاف ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا ڈر مولانا طاہر القادری کو بہت عرصے قبل سے ہے اور اپوزیشن جماعتیں پھر اس معاملے میں شکست خوردہ ہوکر ڈھٹائی اور بے غیرتی سے لبریز اگلے الیکشن جو کہ اگلے سال ہی ہونا چاہتے ہیں اس میں مصروف ہوجائیں گی۔

یادرہیں کہ نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت نے اپنے موقف میں جو ثبوت پیش کئے ہیں عدالتی کاروائیوں کے بعد ان ثبوتوں میں سے اکثر ثبوت مان لئے جائیں گے اور کوئی ایسا ثبوت نہیں مل پائے گا جس سے نواز شریف صاحب کی حکومت یا ان کی شخصیت پر کوئی حرف آئے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر ٹائی اور کوٹ پہن کر لن ترانیاں کرنے والے تجزیہ نگار، سینئر صحافی حضرات اور اینکر پرسنز ان معاملات میں اپنے حدود سے بہت دور آگے جاچکے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا میں آزادی کا مطلب مادر پدر آزاد ہونا سمجھا گیا ہے۔

جناب عالی نواز شریف کے پیش کردہ ثبوت یقینا جی آئی ٹی کی غیر تصدیق شدہ اور سورس سے حاصل کردہ معلومات پر بازی لے جائیں گے اور جس طرح جے آئی ٹی کے اراکین میں سے کچھ نے سنا ہے اپنی فیملیز کے لئے غیر ملکی ویزے حاصل کرکے انہیں بیرون ملک بھیج دیا ہے سیکورٹی کے نام پر اسی طرح ان میں سے کچھ ضرور کسی بہترین فارن ملک جابسکیں گے اور ملک و قوم کے ساتھ جو ہاتھ کرگئے اس کا خمیازی ہم احمقوں کو پاکستان میں رہتے ہوئےہمیشہ کی طرح بھگتنا ہوگا۔

پاکستان میں جو تماشہ آج کل بھی کافی عرصے سے سجا ہوا ہے اس میں ہمیں کسی غیر ملکی دشمن کی مزید ضرورت نہیں ہے ، ہمارے ملک میں ہی عوام کی فلاح و بہبود کے نعرے لگا کر جو کام اندرونی طور پر ہورہے ہیں وہ بیرونی دشمنوں کے کاری وار سے زیادہ موزی ثابت ہوتے ہیں۔

اللہ ہم پاکستانیوں کو سمجھ، شعور، فہم اور عقل سلیم عطا فرمائے اور دوست دشمن، اپنے پرائے ، اصیل اور شعبدے باز یا کھلاڑیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ملک و قوم کی فلاح بہبود، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کسی ٹین ٹوینٹی پرسنٹ، کسی شیدے ٹلی یا کسی کھلاڑی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایک کہنہ مشق سیاسی شعور اور فہم رکھنے والی لیڈر شپ اور اس کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں پر اور ملک کے چپے چپے پر معمور پیشہ ور محافظوں اور درد مند پاکستانیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہر آزمائش میں سرخرو فرمائے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ پاکستان ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے معرض وجود میں آیا تھا اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی، انشااللہ ، پاکستان زندہ باد

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494254 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.