جب سے سی پیک منصوبہ شروع اوردنیاکواس کی اہمیت کااحساس
ہواہے اسی دن سے اس معاشی راہداری نے عالمی معیشت کے چار کھلاڑیوں میں بے
چینی اوراضطراب کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔اقوام عالم دونئے بلاکس میں تقسیم
نظر آرہی ہے۔سی پیک میں روس، ترکی،سعودی عرب اوربعض یورپی ممالک کی دلچسپی
اس کومرکزنگاہ بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف امریکا، بھارت، اسرائیل اورایران
کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک اورچبھ رہاہے۔دراصل انہیں خوب اندازہ ہے
کہ اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں پاکستان اور چین کودنیامیں غیرمعمولی
اقتصادی اہمیت حاصل ہوجائے گی اورن کی اجارہ داری کوشدیددھچکہ لگے
گا۔برصغیرمیں روس اورچین جیسی دوقوتوں کی خطے میں موجودگی اورکاروباری
مفادات کی بدولت یہ طاقتیں امن وامان کے قیام میں اہم کرداراداکریں گی
اوریوں یہ منصوبہ پاکستان کیلئے ایک انتہائی مضبوط دفاعی ڈھال بھی ثابت
ہوگا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کوبھی اس سے تقویت ملے گی اس لئے امریکا،
اسرائیل اوربھارت اس منصوبے کوہرصورت میں سبوتاژکرنے کیلئے شب وروزسازشوں
میں مصروف ہیں۔
ادھراب چین کے بعدروس بھی یہ کوشش کررہاہے کہ کسی طریقے سے افغانستان بھی
اس منصوبے کاحصہ بن جائے تاکہ سی پیک منصوبے کووسط ایشیا سے ملانے والاروٹ
مل جائے اور بھارت کی افغانستان سے اجارہ داری بھی ختم کردی جائے۔اس لئے
روس اب افغانستان میں طالبان کی پشت پرہے جو افغانستان کے ساٹھ فیصدعلاقے
پرقبضے کے بعداپنے قدم تیزی سے آگے بڑھا اوراپنی طاقت منوارہے ہیں۔ روس نے
کشمیرکے معاملے میں پاکستان کے مؤقف کی حمائت کرکے بھارت کودیرینہ حمائت سے
محروم کردیاہے۔ تمام عالمی سیاسی ودفاعی تجزیہ نگارحال ہی میں کابل میں
جرمن سفارت خانے کے قریب ریڈزون میں خوفناک خودکش دہماکے کودارلحکومت کابل
کانائن الیون قرار دیکر یہ تبصرہ کررہے ہیں کہ اس دہماکے سے طالبان کی
اظہارِ لاتعلقی کے باوجوداس کوان کے کھاتے میں ڈالنے اورافغان حکومت کی طرف
سے پاکستان کے سر تھوپنے کامقصدیہ ہے کہ افغانستان کے عوام کو پاکستان سے
متنفرکرکے سی پیک کے منصوبے میں شمولیت کی راہ کوروک کرامریکااوراس کے
حواریوں کی خوشنودی حاصل کی جائے مگرافغان حکومت کے خلاف ایک بڑے مظاہرے نے
یہ ثابت کردیاکہ وہ اس مقصدمیں کامیاب نہیں ہوسکتی اورعوام نے سات افراد کی
قربانی دیکرثابت کیاکہ وہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کوان تمام بم
دہماکوں کاذمہ دار سمجھتے ہیں اوراب توبھارت افغانستان میں اسٹرٹیجک معاہدے
کے نام پرپندرہ ہزارفوج افغانستان میں بھجوانے کی تیاریوں میں مصروف ہے
اورامریکا جوافغانستان سے ذلت آمیزشکست کے بعدنامرادہو کربوریا بسترگول
کرجانا چاہتا ہے ،اس کوجوازفراہم کرتاہے کہ وہ افغانستان میں نہ صرف
مزیدٹھہرے بلکہ اپنے مفادات اورتحفظ کیلئے مزیدفوج بھی افغانستان میں
لاکرکٹھ پتلی افغان حکمرانوں کواستحکام بخشے تاکہ افغانستان کاجوروٹ وسط
ایشیاسے سی پیک کوملاتاہے ،وہ نہ مل سکے اورسی پیک اقتصادی اہمیت کاحامل نہ
ہوسکے۔
ایک طرف تویہ چاروں یوں روڑے اٹکانے کیلئے انسانی جانوںسے کھیل رہے ہیں
تودوسری طرف سی پیک کوتوڑنے کیلئے ایک اہم متبادل روٹ کی تیاریوں میں بھی
مصروف ہیں۔ اس متبادل روٹ میں سعودی عرب کابھرپورتعاون ان چاروں ممالک
کوشدت سے درکارہے۔بھارت کامودی چاپلوسی کے ذریعے سعودی عرب کے حکمرانوں کے
دلوں میں نرم گوشہ حاصل کرنے میں یوں کامیاب ٹھہراکہ اس نے ایک
بڑاایوارڈحاصل کرنے کے ساتھ بڑے منصوبوں پردستخط کرانے میں کامیابی حاصل
کی۔دوسری طرف ایران نے سعودی عرب پردباؤبڑھانے کیلئے یمن میں حوثیوں
کوکھڑاکیا ،سعودی سرحدوں پرخطرہ کھڑا کرکے اس طرف دھکیل دیاکہ وہ امریکاسے
دنیاکے سب سے بڑے اسلحے کی خریداری کے معاہدے پردستخط کرے۔امریکانے وہی
کرداراس مرحلے پراپنایا ہواہے کہ چورکوچوری پراکسائے اورشاہ کو جاگنے کیلئے
کہے۔
اسرائیل سی پیک منصوبے کے خلاف جس روٹ پرسرگرم ہے،اس میں اسے سعودی عرب کی
حمائت درکارہے اوروہ اس سلسلے میں امریکاکی بھرپور معاونت حاصل کررہاہے۔
ڈھائی ماہ قبل اسرائیل کے وزیراعظم کادورۂ امریکا اورٹرمپ سے ملاقات
کرنااوراس کے بعدسعودی عرب کے بااختیار ولی عہد کا واشنگٹن جاکرٹرمپ سے
ملنابڑامعنی خیزسمجھاگیااور پھر کچھ بات آگے بڑھی توٹرمپ بھی سعودی عرب
اوراسرائیل کے دورے پرچلا آیا ۔ سعودی عرب سے اسرائیل تک براہِ راست ٹرمپ
کے طیارے کی اڑان کہیں اس تبدیلی کا اشارہ تو نہیں کرتی؟اسرائیلی منصوبہ ہے
کہ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے حجاز ریلوے روٹ جوشام،حجاز اورعراق تک
بنانے کافیصلہ کیاتھااگرچہ اس وقت اس کی تکمیل نہ ہوسکی، اب اسرائیل کی
کوشش ہے کہ وہ اس ٹریک کومکمل کرکے بصرہ تک لیجائے اوربھارت جوافغانستان سے
چاہ بہارتک سڑک بنواچکایوں چاہ بہاراوربصرہ تک پھرخلیج فارس بحری جہازوں سے
اٹ جائے گا۔وسط ایشیاکی ساری دولت اسی روٹ سے بحیرۂ روم کے ساحل تک آئے گی
اورساری دنیاتک جائے گی اوریہ چاریار(امریکا،بھارت، اسرائیل اورایران )
مالامال ہوجائیں گے اورسی پیک کاکانٹاان کی آنکھ سے نکل جائے گا۔اس منصوبے
کی کامیابی کی خاطرمال کھپے کی خاطر فلسطینیوں کوبھی خاصی مراعات دینے
کوتیارہے، شرط یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہیں۔
امریکی صدرکاالقاعدہ کے ساتھ حماس کودہشتگردوں میں لپیٹنے کاایک مقصدیہ بھی
ہے کہ وہ اس متبادل روٹ کے منصوبے کی راہ میں ایک رکاوٹ بن سکتی ہے،اس لئے
امریکیوں کایہ خیال ہے کہ حماس کوقابل نفرت قراردیکراس کے پر کاٹ دیئے
جائیں۔رہامعاملہ ایران کے خلاف ٹرمپ کا بولنا،یہ امریکی مروّجہ سیاست کے
مطابق سیاسی بیان ہے۔جب یہ روٹ آخری مرحلے میں ہوگاتوایران حسن روحانی کے
دورِ حکومت کی طرح پھر امریکاسے ہاتھ ملالے گااورامریکا بھی بڑی فراخ دلی
سے اس نوراکشتی کے خاتمے کااعلان کردے گا، سوال یہ پیداہوتاہے کہ سی پیک
منصوبہ جس میں بڑی طاقتوں روس،چین اورپاکستاان کی بھرپوردلچسپی ہے،وہ اس
سازش پریوں ٹھنڈے پیٹوں تونہیں رہیں گی اوریوں خطہ کی سیاست گرم رہے گی۔
اللہ خیرکرے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کے معاملے میں جواعلان جاری کیااس نے
پاکستان کے سی پیک منصوبے کی دشمنی کاساکرداراداکیااوراس کا قطعاً
اچھاتاثرعرب ممالک میں نہیں ہوا۔ان چاریاروں نے پاکستان کے چاروں اطراف کو
گھیر کراسے بے دست وپابنانے کے منصوبے پرجوکام شروع کررکھاہے اس کاایک
مقصدیہ بھی ہے کہ جس طرح سعودی عرب کوگھرگھارکرمتبادل روٹ کیلئے آمادہ
کرناہے ،اسی طرح پاکستان پریلغار کرکے اس کوایٹمی قوت سے دستبردارکرانا بھی
ہے۔سابقہ چیف آف سٹاف اسلم بیگ کے دور میں ایران نے پاکستان سے ایٹمی
معاملے میں جوکردار اداکیاوہ داستان کرب سابق صدر پرویز مشرف کی زبانی جن
الفاظ میں بیان کی گئی ہے اسے ضبط تحریرمیں نہیں لایاجاسکتا۔رہا سعودی عرب
کامعاملہ کون ساایسامرحلہ ہے جب اس نے پاکستان کابھرپورساتھ نہ
دیاہواوربھرپوراعتمادثابت نہ کیاہو۔اس نے پاکستان کے دکھ کو اپنادکھ
سمجھا،سقوط مشرقی پاکستان پرشاہ فیصل شہیدتوپھوٹ پھوٹ کرروئے۔
ایٹمی دہماکے کے بعدجب پاکستان پرشدیدمعاشی اوراقتصادی پابندیاں عائدکردی
گئیں توسعودی عرب نے اپنی تجوریاں پاکستان کیلئے کھول دیں۔ طالبان کی حکومت
پاکستان نے تسلیم کی تودوسری تسلیم وتائیدکی آوازسعودی عرب کی تھی۔اس
قدرقلبی وروحانی وابستگی کی بنیادپرسعودی عرب نے اسلامی اتحاد میں پاکستان
کانام شامل بھی شامل کردیاتوکوئی انہونی نہ تھی۔گہرے تعلقات میں ایسا
ہوتاہے مگرایک لابی نے آسمان کوسرپراٹھالیا۔راحیل شریف کواسلامی فوج کی
سربراہی ملی تواس پر فخر کرنے کی بجائے اسی لابی نے طوفان برپاکردیا اور بے
پرکی خبریں اڑائی گئیں کہ راحیل شریف واپس آرہے ہیں۔ان کے حوالے سے جھوٹ
کابازارسجایاگیااوران کی پگڑی کوخوب اچھالاگیا۔کوئی ان سے پوچھے کہ تم کوکس
نے ان لغوالزامات لگانے کا اختیاردیاہے؟ کیا وہی جن کے متعلق کرائے کے بازی
گرکاجملہ استعمال کیا جاتاہے۔
آخرایران بت پرستوں اوربھگوان کے پجاری بھارت کے ساتھ کیوں کھڑاہے؟ ٹھوس
شواہدموجودہیں کہ سرتوڑکوشش کے باوجودمسلکی طوفان اٹھانے میں ناکام رہا
۔ابھی تک وہ تاریخی کردارگواہی کیلئے موجودہیں جنہوںنے ایرانی حکومت کے
خوفناک چہرے سے پردہ اٹھایاتھا۔ بے نظیرکے دورمیں ظفرہلالی اسپیشل سیکرٹری
تھے۔ظفرہلالی کاخاندان سفارت کاری کے حوالے سے مشہور ہے،ان کاخاندان ایران
سے قاچاربادشاہت کے زمانے میں ہجرت کرکے ہندوستان آیا۔ایران میں یہ خاندان
دربارسے اعلیٰ سطح پرمنسلک تھا ۔ بے نظیرکی والدہ نصرت بھٹوکاتعلق بھی
ایران سے تھا۔ظفر ہلالی کے بقول ایک دن بے نظیرنے انہیں بلاکرکہاکہ ایرانی
سفیرکوبلاکربتاؤ کہ ان کا سفارت خانہ جس قسم کا لٹریچر اور کیسٹ وغیرہ
پاکستان میں تقسیم کررہاہے اس سے ہمارے لئے بہت مشکلات پیداہورہی ہیں۔
ظفرہلال نے ایرانی سفیرمحمدمہدی اخوندزادہ پسنی کوبلایا۔اخوندزادہ انقلاب
ایران کے بعد١٩٨١ء میں پہلی مرتبہ بھارت میں سفیرمقررہوئے۔ ایران میں
انتظامی عہدوں اور وزارت خارجہ میں بھرتی براہِ راست قم میں موجود رہبر
کونسل کرتی ہے۔نوکری کیلئے انقلاب کے ساتھ وفاداری شرطِ اوّل ہے۔ اخوند
زادہ اس شرط پرپورااترتاتھا۔اخوندزادہ ١٩٩٣ء سے ١٩٩٨ء تک پاکستان
کاسفیررہا۔ ظفر ہلالی نے جب اس کے سامنے لٹریچر اورکیسٹ کی بات رکھی اور
پاکستانی حکومت کے تحفظات کااظہارکیاتو انہوں نے الٹاسوال کردیاکہ آپ کے
اندازے کے مطابق پاکستان میں کتنے لوگ ہیںجوایران کے کہنے پرہتھیار اٹھا
سکتے ہیں؟ ظفرہلالی نے کہامجھے کیامعلوم تواخوندزادہ نے کہاکہ ۷۵ہزارافراد
ہمارے کہنے پرفوری ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن ہم آپ کوایک برادرملک سمجھتے
ہیں، اس لئے آپ کیلئے مسائل پیدانہیں کرناچاہتے۔(ابھی حال ہی میں ردّ
الفسادآپریشن کے دوران سرحدی علاقوں سے امام بارگاہ کے تہہ خانہ سے بھاری
اور جدید اسلحے کی کھیپ کی برآمدگی نے تو سیکورٹی اداروں کوحیران
کردیاتھا)۔ رہبر اعظم کا پسندیدہ ،بھارت میں سفارت کاری اور۷۵ہزارمسلح
افرادکی تیاری پاکستان میں ہے،اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایران پاکستان
میں کن عزائم میں مصروف ہے۔
ایرانی انقلاب سے پہلے پاکستان اورایران کے تعلقات مثالی اورمسلکی نفرت سے
مبراتھے،باقاعدہ آرسی ڈی معاہدے کے تحت پاکستان،ایران اور ترکی کے شہری
ویزوں کی پابندی کے بغیرسفرکرتے تھے اورباہمی تجارت میں بے شمارمراعات
موجودتھیں لیکن ایرانی انقلاب کے بعدجب اس انقلاب کوپڑوسی ممالک میں برآمد
کرنے کی پالیسی پرعملدرآمدشروع ہواتواخوت ومحبت کی جگہ نفرت اور منافقت
حاوی ہوگئی اورآج یہ عالم ہے کہ ایران میں کوئی سنی پارلیمنٹ ممبرنہیں بن
سکتاجبکہ تین یہودی پارلیمنٹ ممبرہیں۔ایرانی دارلحکومت تہران میں سنیوں کو
مسجدبنانے کی اجازت نہیں جبکہ اسی شہرمیں گرجا گھر،مندر،گردوارے اور آتش
کدے موجودہیں۔ایران کے اسکول،کالجزاوریونیورسٹی میں ان بچوں کو داخلہ نہیں
دیا جاتا جن کے نام ابوبکر،عمر،عثمان،عائشہ،حفضہ وغیرہ ہوں۔ کیایہ ہے
ایرانی انقلاب جس کی مثال ہمارے ہاں کے زر خریددانشور بڑے فخرسے دیتے ہیں؟
سعودی عرب جواب تک سلطان عبدالحمیدثانی کے حجازریلوے منصوبے پر راضی نہیں
ہورہالیکن خدانخواستہ پاکستان کے رویے کودیکھ کراس پر راضی ہوگیاتوعظیم
الشان سی پیک منصوبہ اپنی افادیت کھوبیٹھے گااورپاکستان کی ترقی کاخواب
دیوانے کاخواب بن کررہ جائے گا۔یوں پھراسرائیل کا توسیعی منصوبہ ، امریکاکی
معیشت پرگرفت ایران کی بندرگاہ چاہ بہارکی کامیابی اوربھارت کی دلی خواہش
پوری ہوجائے گی۔باخبرذرائع اطلاع دے رہے ہیں کہ ایران اوربھارت کے درمیان
سمندری راستے سے رابطہ ہوگیاہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ کاکہناہے کہ اس رابطے سے
(ایران اوربھارت) کافاصلہ اب دوروز سے بھی کم ہوگیاہے۔ایران کی جہازراں
کمپنی کے بحری جہازبھارت کی بندرگاہ کاندلاسے ٣٠٠اور مندرا سے ١٠١کنٹینرز
سے لیکرایرانی بندرگاہ چاہ بہارپہنچے ہیں۔
ادہرپاکستان کے زرخریددانشورجوچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے ماہرہیں
ان کاپروپیگنڈہ ان کے پیٹ کی سوچ سے بڑھ کرنہیں۔ایران اور سعودی عرب دو
سمندرہیں جوساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں مگرملتے نہیں۔مسلک نے ان کے درمیان پردہ
حائل کررکھاہے مگراس کامطلب یہ تونہیں کہ مسلک کے نام پر دنیامیں فساد
پھیلایاجائے۔امریکی صدرنے فلسطینیوں کا دل جیتنے کیلئے یہ اعلان کردیاکہ
امریکی سفارت خانہ بیت المقدس (یروشلم )منتقل نہیں کریں گے،یوں ٹرمپ
انتخابی مہم میں کئے گئے وعدے سے منحرف ہوگئے ،اسرائیل بھی اس پرراضی
ہوجائے گا۔اس وقت معیشت کے ہاتھیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں
افغانستان رونداجارہاہے اورسعودی عرب کی اہمیت دوچندہوگئی ہے اورایران نے
پاکستان کی بجائے بھارت کاساتھ دیکرکیاآخرت کاسودہ دنیاسے تونہیں کرلیا؟یہ
دنیاتوکھیل تماشہ ہے اوراس میں آخرت کی نقدی لٹاناکہاں کی دانشمندی ہے؟
ایران کویادرکھناچاہئے کہ بھارت چالبازاورمکارملک ہے۔خالصتان امریکاکے
سربراہ ڈاکٹرامرجیت سنگھ کے بقول بے نظیربھٹوکے اورراجیوگاندھی کے درمیان
ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھاکہ پاکستان بھارت کوسکھوں کی فہرستیں فراہم کرے
گاجس کے جواب میں بھارت سیاچین گلیشئیرسے اپنی فوج واپس بلالے گا ۔ بھارت
نے پاکستان سے ہمارے جانبازوں کی فہرستیں لیکرسکھوں کی ایسی ظالمانہ نسل
کشی کی کہ دوہفتوں میں ہزاروں نوجوان سکھوں کوگھروں سے اٹھاکرغائب
کردیاگیاجن کاآج تک کوئی پتہ نہیں اورجب راجیوحکومت اپنے مقصد میں کامیاب
ہوگئی توراجیونے پیغام بھجوایا کہ بے نظیرآپ کابہت شکریہ ، آپ نے ہماری جس
طرح مدد کی ایساتوہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن افسوس کے ساتھ مجھے
کہناپڑرہاہے کہ میری حکومت آپ سے کئے گئے وعدہ پورانہیں کر سکتی کیونکہ
میری فوجی اسٹیبلشمنٹ نہیں مان رہی۔ امرجیت سنگھ کامزیدکہناہے کہ مرنے سے
پہلے بے نظیربھٹوکاانٹرویوریکارڈ پرموجود ہے جس میں انہوں نے کہاکہ جب
پنجاب بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہاتھاتواس نازک موڑ پر ہم نے بھارت کی مددکی
تھی۔
اب قطرکے خلاف بھی سعودی عرب اوران کے ساتھی ممالک نے مقاطعہ کرنے کااعلان
کردیا۔قطرکے امیرنے حماس اورالقاعدہ کی حمائت میں بیان دیا۔ قطر جو
مختصرترین آبادی کا ملک ہے ،مشرقِ اوسط میں امریکاکابیس ہے۔امریکانے ١٩٩٠ء
میں قطرمیں ایک بڑاہوائی اڈہ بنایا۔نائن الیون کے بعداس نے قطرمیں بڑا فوجی
بیس قائم کرکے مشرقِ اوسط کی لڑائی اورافغانستان کی جنگ میں کردار
اداکیا۔اب بھی گیارہ ہزارامریکی فوجی دوحہ میں موجودہیں۔اب قطرکے حکمران
کایہ بیان کیاامریکاکوبائی پاس کرکے دیاگیاہے؟ہرگزنہیں بلکہ یہ سعودی عرب
پردباؤکاایک اورحربہ ہے کہ اس کابوناپڑوسی قطربھی خم ٹھونک کرکھڑاہوگیا جس
کی سرحدسعودی عرب سے ملتی ہے۔اللہ خیرکرے کوئی بڑی کھچڑی پک رہی ہے۔
قطرکیوں پرخطرہوگیا؟ایران قطرکی حمائت میں کھڑاہوگیااورسمندری راستے سے
غذائی اشیاء بھیجنے کی پیشکش کردی ۔قطرسعودی عرب تنازعہ نے وزیراعظم
نوازشریف کوسخت امتحان سے دوچارکردیاہے۔قطری شہزادہ کے اندر پاناما لیکس کی
جان ہے توسعودی عرب جانِ جاں ہے ،اب ہمارے وزیراعظم کیلئے آفت جاں ہے کہ
جائیں توجائیں کہاں؟ |