یہ کہاوت مشہور ہے کہ فلاں چلا ہوا کارتوس ہے۔کیا یہ
کہاوت ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر پوری اترتی ہے؟یہ صاحب کمانڈو کہلاتے ہیں۔مگر
جب عدلیہ نے ان کو اپنے اوپر الزام کی صفائی کے لیے عدالت بلایا تو گاڑی کا
رخ موڑ کر عدالت جانے کے بجائے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔پھر عدالت میں
مقدمات کا سامنا کرنے کا وقت آیا تو جعلی سرٹیفکیٹ بنایا کہ کمر میں درد ہے
۔بیماری کا بہنا بنا کر بیرون ملک چلے گئے ۔اگلے دن ہشاش بشاش نظر آتے ہوئے
اپنی پارٹی کے پروگرام کی صدارت کرتے دیکھے گئے۔پھر کہیں امریکا میں شادی
کے موقعہ پر ڈانس کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ یہ کیسے کمر کی بیماری ہے اﷲ ہی
جانیں! اب کہتے پھرتے ہیں کہ پاکستان میں میرے خلاف مقدمات ختم ہوں تو واپس
آؤں!بھائی مقدمات تو کاروائی پورا ہونے پر ہی ختم ہوا کرتے ہیں آپ کورٹ سے
وعدہ نباتے ہوئے واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے تومقدمات تو ختم ہوں گے۔
ویسے موسوف تاریخ میں وردی پہن کر جھوٹ کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ نہ جانے اب
اپنے وعدے پر کب عمل کر کے مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔ ویسے تو عدالت میں
پیش نہ ہونے پر ان کی جائداد کی لسٹ بھی عدالت نے مانگی تھی شاید ضبط بھی
کی ہوئی ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے پارلیمنٹ میں ووٹ دیتے وقت ان سے وعدہ لیا
تھا کہ وہ وردی اُتار دیں گے۔مگر دنیا نے دیکھا کہ وہ وعدے سے صافٖ صاف مگر
گئے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان بھی اپنے
وعدے سے اعلانیہ مگر گئے تھے اور کہا تھا کہ وعدہ کوئی قرآن یا حدیث ہے کہ
اس کو پورا کیا جائے؟ صاحبو! ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہماری تاریخ کی ایک عجیب و
غریب شخصیت ہے۔مارشل لاء لگانے میں جواز پیش کیا کرتے ہیں کہ مجھے دکھا کس
نے دیا تھا؟ امریکا کی ایک کال پر فوراً گھٹنے ٹیک دیے۔ امریکی کہتے ہیں کہ
ان کے خیال کے مطابق ۹ مطالبات میں سے ڈکٹیٹرمشرف کچھ منظور کرے گا مگر
انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ڈکٹیٹر مشرف نے امریکا کے سارے کے سارے
مطالبات مان لیے۔تاریخ میں پہلے مرتبہ پاکستان اور افغانستان کی دوستی
افغان طالبان کے دورحکومت میں قائم ہوئی تھی ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو گئی
تھی اب جس پر ہمیں لاکھوں کی فوج لگانی پڑھ رہی ہے۔ جہاں سے پاکستان پر
بھارت اور امریکا کہ شہ پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی افغانستان میں
قوم پرست حکومتیں جو بھارت اور روس کی دوست تھیں ہمیشہ پاکستان ٹوڑنے کی
سازشیں کرتے رہتی تھیں۔ حوالے کے لیے مرحوم سرحدی گاندھی غفار خان صاحب کے
بیٹے ولی خان اور ان کے بیٹے اسفند یارولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے
منحرف کیمونسٹ کارکن صوفی جمعہ خان کی کتاب’’ فریب ناتمام‘‘ میں دیکھ سکتے
ہیں۔ برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف ڈکٹیٹر مشرف امریکا کو پاکستان کے
ہوائی ،زمینی اور بحری راستے استعمال کرنے کی اجازت دینے پر افغان طالبان
نے پاکستان کو امریکا کاجنگی اتحادی تصور کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی
تھی۔ ڈکٹیڑ مشرف نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دینے پر نہ تو اپنی فوج سے اور
نہ ہی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے مشورہ کیا تھا جو کہ ایک قومی جرم ہے۔
عجیب و غریب شخصیت رکھنے والے ڈکٹیٹرنے پہلے کہا کہ میرا آئیدیل اتاترک ہے۔
اپنے آپ کو روشن خیال کہتا ہے۔ اپنے دونوں طرف کتے بیٹھا کر میڈیا کے ذریعے
مغرب کو اپنے روشن خیال ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ایوان صدر میں گانے بجانے کی
محفل سجاتا ہے۔کہتا کہ ہمارے گھر میں شام غزل منعقد ہوا کرتی تھی میرے والد
طبلہ بجاتے تھے میں سرنگی بجاتا تھا میری والدہ غزل گاتی تھی۔ ویسے
پاکستانی تاریخ میں کسی صدر سے ایسی باتیں منسوب ہوئی ہیں؟ یقینا نہیں
ہوئیں یہ تو کم ظرفی کی باتیں ہیں۔اسلام آباد لال مسجد کے خطیب مولانا
عبدالعزیز صاحب کے ساتھ عجیب ڈرامہ کیا۔ پہلے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسے
اُکسایا پر لال مسجد میں کاروائی کے دوران اسے برقعہ پہنا کر مسجد سے باہر
نکال کر پلائنٹڈانٹرویو کر کے مذہبی شخصیت کوبدنام کرنے کی کوشش کی۔ لال
مسجد میں کاروائی کے دوران عبدلعزیز کے بھائی کو قتل کیا۔جس کا مقدمہ اب
بھی بھگت رہا ہے۔مدرسہ حفصہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے والی پاکستانی قوم کی
بچیوں کو فاسفورس بم مار کر مدرسے کے اندر ہی جلا دیا۔ اکرم ذکی صاحب نے
اپنے تحقیقی رپورٹ میں ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ اسی وجہ سے سوات میں
حفصہ بریگیٹ قائم ہوا اور فوج پر حملے کیے۔پاکستان کے مایا ناز ایٹمی
پروگرام کی بنیاد رکھنے اور پایا تکمیل تک پہنچانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر
قدیر خان ایٹمی سائنسدان کو امریکا کے کہنے پر دنیا کے سامنے ذلیل کیا۔مغرب
کو خوش کرنے کے لیے میڈیا پر آکرپوری پاکستانی قوم کو اسلام پسندی پر چارج
شیٹ کیا اور جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ افغانستان کے سفیر ملا ضعیف
صاحب کو بین القوامی قوانین کی خلاف دردی کرتے ہوئے امریکاکے حوالے کیا۔
ملک سے ۶۰۰ جہادی مسلمانوں کو ڈالر کے عوض امریکا کے حوالے کیا۔جس میں قوم
کی مظلوم بیٹی حافظ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقہ بھی شامل ہے۔ پاکستان وفادار
بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو دھمکی دی کہ تمھیں ایسا راکٹ لگے گا کہ تم
تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پھر فوجی کاروائی کے ذریعے راکٹ فائر کروا کے اسے
غار کر اندر قتل کروا دیا۔ اس کا بھی مقدمہ قائم ہے۔ ملک میں دو دفعہ
امرجنسی لگائی اور آئین پاکستان کو توڑا ۔ اس پر غداری کا مقدمہ قائم
ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عدلیہ سے لڑائی مول لی اور ججوں کو ان
کے گھروں میں قید کیا۔ملک میں تعلیمی نصاب سے جہاد کی تعلیمات کو نکال
دیا۔امریکا کو بلوچستان کے شمسی ہوئی اڈے سے ڈرون حملے کی اجازت دی۔ جس سے
ملک میں پہلی دفعہ خود کش بمبار پیداہوئے۔آج جو خود کش حملے ہو رہے ہیں
ڈکٹیٹر مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ امریکا اور بھارت نے منحرف
قبالیوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی ٹرنینگ کے لیے فاٹا میں اڈے قائم کیے
اور اس وقت کے (ر)جنرل شاید عزیز نے ڈکٹیٹر مشرف کو اس کی اطلاع دی مگر اس
پر کان نہیں دھرے۔ افغانستان سے بارود کے ٹرک بلوچستان میں آرہے ہیں۔ گوادر
بندرگاہ سے امریکی سازو سامان آ رہا ہے کی بھی اطلاع کی۔حوالہ شاید عزیز کی
کتاب ’’ یہ خاموشی کب تک ‘‘ تکبر کا یہ عالم کہ اپنے دور اقتدار میں یہ
گردان دھراتا رہتا تھا کہ میں نواز شرف صاحب اور مرحومہ بے نظیر صاحبہ کو
ملک میں نہیں آنے دوں گا۔مکافات عمل دیکھیں کہ یہ دونوں تو ملک میں واپس
آئے اور سیاست بھی کی اقتدار میں آئے مگرڈکٹیٹر مشرف ملک سے بھاگا ہوا ہے
اور کہتا پھرتا ہے کہ پاکستان میں میرے خلاف قائم مقدمے ختم ہو تو میں واپس
آؤں۔جب ملک سے پہلے دفعہ فرار ہوا تھا تو کہتا تھا کہ مجھے پانچ سال مزید
اقتدار میں رہنا چاہیے تھے۔ میں نے دردی اُتاری تو میری فوج میرے مخالف
ہوگئی۔(ر) جنرل اسلم بیگ صاحب الیکٹرونک میڈیا پر کہہ چکے ہیں کہ میں مشرف
کو منہ نہیں لگاتا۔ مرحوم(ر)جنرل حمید گل بھی مشرف کو پسند نہیں کرتے تھے۔
صاحبو! ان ساری خرابیوں اور پاکستان کو مشکلات میں پھنسا دینے کے باوجود
ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پرڈکٹیٹر مشرف کو قوم کا نجات دہندہ بنا کر
کون پیش کر رہا ہے؟کیا یہ امریکی فنڈڈ میڈیا ہے یا پاکستان کے خلاف کام
کرنے والی بھارتی اور مغربی سیکولر لابی کی کارستانی ہے ۔یا کیا ڈکٹیٹر
مشرف پیمنٹ کر کے الیکٹرونک میڈیا پر سستی شہرت کے لیے اپنی پروجیکشن کر
رہا ہے؟ یہ کیا ہے کہ چلے ہوئے کارتوس میں پھر سے بارود بھر کر اسے چلانے
کی بے سود کوشش کی جارہی ہے۔ اﷲ پاکستان کو سازشوں سے محفوط رکھے آمین۔ |