ایک عشرے قبل اعلیٰ ایوانوں میں لینڈ ریکارڈ
مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم پر کام کی رفتار کا جائزہ لیا جارہاہے۔ یہ کام
سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دور سے جون 2007ء سے جاری ہے اور
گزشتہ نو سال سے موجودہ وزیراعلیٰ بھی تندہی سے اسے انجام تک پہنچانے کے
کارخیر میں مصروف ہیں۔ ایک عشرے سے عوام کو یہی بتایا جارہا ہے کہ ’’لینڈ
ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کے منصوبے سے صوبے میں معاشی و اقتصادی
ترقی میں مزید اضافے کے لئے نئی راہیں ہموار ہوں گی‘جائیداد کی ملکیت کو
محفوظ اور موثر بنایا جاسکے گا‘ عوام کی مشکلات کا ازالہ ممکن ہوگا۔ یہ بھی
بتایا جارہا ہے کہ اس پراجیکٹ کے تحت ہر قانونگوئی میں سروس سنٹر قائم کیا
جائے گا۔جہاں ہر شخص کو 30 منٹ کے اندر اس کی جائیداد کا فرد فراہم کیا
جائے گا اور زمین کا انتقال درج کرنے کی سہولت بھی مہیا کی جائے گی۔ یاد
رہے کہ دس برس قبل ایکنک کے بعد ورلڈ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس
پراجیکٹ کی منظوری دے دی تھی‘ جس کی تکمیل پر آنے والی لاگت کی رقم 3.115
ارب روپے بتائی گئی۔ اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی نے پنجاب لینڈ ریونیو ایکٹ
1976ء ترمیمی بل کی بھی منظوری دی تھی۔
ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ لینڈ ریکارڈ ک کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ ایک
انقلابی اقدام ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کے تحت اگر عملاً صوبے کے اکثر
اضلاع میں زمینوں کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے تو اس سے ملک کی
اقتصادی و معاشی ترقی کے لئے ایک اور ٹھوس بنیاد میسر آنے کے امکانات روشن
ہوں گے۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن
ارباب حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے۔
وطن عزیز میں محکمہ ریونیو نے شہری جائیداد اور شہری و زرعی اراضی کے
ریکارڈ کی ذمہ داری نچلے درجہ پر پٹواریوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ اس پر طرہ
یہ کہ اس میں متعلقہ محکمہ کے اہلکاران کسی بھی بدنیتی کے تحت تغیر و تبدل
کرسکتے ہیں۔ یہ تغیر اور تبدل اس محکمہ کے ذمہ داران کے قلم کی معمولی اور
ادنیٰ سی جنبش اور لرزش کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پٹواری گو کہ گریڈ وائز اعلیٰ
درجہ کا سرکاری اہلکار نہیں ہوتا لیکن اس کو اتنے اختیارات حاصل ہوتے ہیں
کہ وہ معمولی معمولی سے عوامی امور کی انجام دہی کے لئے جہاں شہریوں اور
سائلین سے منہ مانگی رشوت طلب کرتے ہوئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں
کرتے وہاں جب وہ چاہیں اصل مالک کو اس کی جائیداد اور زرعی اراضی سے محروم
کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی رکھتے ہیں ۔ یہ صوابدیدی اختیارات انہیں
حکومت نے عطا نہیں کئے بلکہ انہوں نے سول بیوروکریسی میں موجودہ کرپٹ مافیا
کے ساتھ ملی بھگت اور ساز باز کرکے از خود حاصل کر لیے ہیں۔ جب ایک شہری کی
جائیداد اور زرعی اراضی کے معاملے میں کوئی پٹواری بھاری بھر کم غیر سرکاری
فیس اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد حامد کی ٹوپی محمود کے سر پر رکھ دیتا ہے
توا س گتھی کو سلجھانے کے لئے متاثرہ شہری کو دیوانی مقدمہ دائر کرنے کے
لئے مجاز عدالتوں کی غلام گردشوں میں برس ہا برس اور نسل در نسل دھکے کھانا
پڑتے ہیں۔ وہ بدعنوانی اور بے ضابطگی جس کا ارتکاب ایک پٹواری رشوت وصولنے
کے بعد چند لمحوں میں کر گزرتا ہے‘ اس کا خمیازہ متاثرہ سائل اور شہری کو
دیوانی مقدمات کے روپ میں اتنی طویل اور اذیت ناک مدت تک بھگتنا پڑتا ہے کہ
بے چارہ دیوانی مقدمہ کا تعلق ہے تو یہ ایک تلخ اور ناخوشگوار سچ ہے کہ
قانونی اسقام کی وجہ سے ان میں اس ناقابل برداشت حد تک تاخیر ہوجاتی ہے کہ
مستغیث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور مقدمات کی سماعت کی کارروائی اور
سست رو رفتار ماتحت عدالتوں میں مروجہ ’’اقدارو روایات‘‘ کی وجہ سے شیطان
کی آنت کی طرح طویل ہوتی چلی جاتی ہے ۔ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن
سسٹم کے متعارف اور رائج ہونے کے بعد شہریوں کو اپنے جائز حقوق کے حصول
کیلئے پٹواریوں‘ قانونگوؤں‘ نائب تحصیلداروں اور تحصیلداروں کی ظالمانہ
رعونت اور سنگدلانہ نخوت سے رہائی مل سکتی ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ لینڈ مافیا کی تقویت ایک بڑا سبب جہاں
حکمران سیاسی جماعتوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی کی موثر ترین شخصیات کی
سرپرستی بتایا جاتا ہے ‘وہاں دوسری طرف یہ مافیا نظام عدل میں موجود بعض
اسقام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس فوجداری جرم کی سماعت دیوانی عدالتوں میں
منتقل کرانے میں کامیاب ہوجاتا۔ متاثرہ فریق دیوانی عدالتوں کے چکر لگا لگا
کر دیوانہ ہوجاتا لیکن اسے نہ تو اپنی غصب شدہ زمین اور جائیداد ملتی اور
نہ ہی انصاف۔ قومی اسمبلی کے اراکین کو اس امر کا جائزہ لینے کے لئے بھی
ایک کمیٹی تشکیل دینا چاہیے کہ وطن عزیز میں لینڈ مافیا کی سرپرستی ریٹائرڈ
اور حاضر سروس سول و ملٹری بیوروکریسی کی کون کون سی اعلیٰ شخصیات کر رہی
ہیں۔اس قسم کی باتیں زبان زدعام ہیں کہ لینڈ مافیا کے گارڈ فادرز مقبوضہ
زمین پر متعلقہ شہری ترقیاتی اداروں اور ریونیو بورڈ کے بزجمہران سے سازباز
کرکے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کر لیتے اور لوٹ مار کا بازار گرم کر
دیتے۔یہ اقدام یقیناً ستم بالائے ستم کی حیثیت رکھتا ہے۔اس قسم کی بباطن
ناجائز اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اس لئے شہریوں سے پیسے بٹورنے میں
کامیاب ہوتی رہیں کہ لینڈ مافیا کے اراکین ان سوسائٹیوں میں مجاز حکام کو
بالواسطہ طور پر پرکشش کمرشل پلاٹوں کے تحائف’’حصہ بقدر جثہ‘‘ پیش کرتے رہے۔
زمین اور جائیداد کے کسی قانونی مالک کا اپنی جائیداد اور زمین سے محروم
ہوجانا اس امر پر دال ہے کہ ہمارے معاشرے اور مملکت میں انصاف کی عملدرآمدی
اور قانون کی بالادستی کے اس دور میں بھی جنگل کا قانون’’سکہ رائج الوقت‘‘
بنا ہوا ہے۔لینڈ مافیا صرف ایک جرم نہیں بلکہ بیک وقت کئی فوجداری جرائم کا
مرتکب ہوتا ہے۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ زمینوں اور جائیدادوں
پر قبضہ کرنے والے لینڈ مافیاز نے باقاعدہ جرائم پیشہ اور غنڈہ عناصر کی
خدمات ’’ہائر‘‘ کر رکھی ہوتی ہیں۔جب تک وہ ان کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں
‘ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں سے تحفظ فراہم کرنے کی
باقاعدہ ’’فیس‘‘ ادا کی جاتی ہے۔ نیز ان جرائم پیشہ اور غنڈہ عناصر کو
ناجائز اور غیر قانونی خودکار مہلکت ترین آتشیں ہتھیاروں سے مسلح کرکے
معاشرے اور مملکت میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
وطن عزیز میں جرائم اور غنڈہ گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب لینڈ مافیا کا
طاقتور اور بارسوخ ہونا ہے۔
یہ تو ہر باخبر شہری جانتا ہے کہ وہ ممالک جہاں لینڈز ریکارڈ کی
کمپیوٹرائزیشن بام تکمیل تک پہنچ چکی ہے ‘وہاں شہریوں کو بہت سی آسائشیں
اور آسودگیاں حاصل ہیں۔اپنے حق کے حصول کے لئے ان کی راہ میں بیوروکریسی کا
تخلیق کردہ’’روایتی سرخ فیتہ‘‘ دیوار چین بن کر حائل نہیں ہوتا۔ پاکستان
میں بھی اگر دیگر صوبے‘ صوبہ پنجاب کے اس متعارف کردہ عوام دوست سسٹم سے
فائدہ اٹھاتے اور اسے اپنے ہاں رائج کرتے ہیں تو زمین مالکان کو جہاں اور
فوائد حاصل ہوں گے وہاں ان کے لئے اپنی زمینوں کی بنیاد پر بینکوں سے زرعی
اور دیگر قرضوں کے حصول میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔زراعت چونکہ اب باقاعدہ
ایک انڈسٹری بنتی جارہی ہے اور اس کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے
زمینداروں کو ون ونڈو سسٹم کے تحت ارزاں اور آسان طریق کار کے تحت قرضوں کی
فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اگر اس سسٹم پر مکمل طور پر عملدرآمد ہو تو
شہری حلقوں کو امید ہے کہ مستقبل میں انہیں فرد کے حصول کے لئے رشوت ستانی
اور بدعنوانی ایسے عفریتوں کے مظالم کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لینڈ
ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن پروجیکٹ جس میں بھی ترقی یافتہ جمہوری ملک اور معاشرے
میں متعارف کروایا گیا ‘وہاں عوام کو بہت سی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے نجات
ملی۔سیٹلائٹ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں شہری اور زرعی اراضی کے
ریکارڈ کا پٹواریانہ طریق کار اب ایک فرسودہ عمل تصور کیا جاتا ہے ۔پٹواری
کے مرتکب کردہ کوائف پر مشتمل ریکارڈ کا تحفظ اپنی جگہ ایک مشکل کام ہے۔ |