تحریر: قندیل سحر
میں آج بذات خود یہ لکھنے کی جسارت کبھی نہ کرتی، اپنے اندر اُٹھنے والے
الفاظ کے مدوجزر کو خاموش کردیتی، اپنے ذہن کی دیواروں پر اُبھرنے والی
تصاویر کو مٹادیتی مگر میں ہرگز ایسا نہیں کروں گی کیونکہ فکر و سخن کے اس
معاشرے میں چند دھیمی دھیمی سی سرگوشیوں نے میرے ذہن کو میری سوچ اور میرے
الفاظ کو جلا بخشی اور مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آج میرے ملک میں
جبرو استبداد کی آندھیاں کیوں چل رہی ہیں۔ کبھی میرا معصوم دل ان آندھیوں
سے دبک کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہے اور کبھی یہی دل جرأت سے ضمیر کو
جھنجورتا ہے اور کہتا ہے ’’ مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے‘‘
حق و باطل کی آویزش ازل سے جاری رہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ چراغ
مصطفوی ؐ سے شراربو لہبی کی ستیزہ کاری ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے۔ باطل کبھی
نمرود کا غرور بن کر کبھی فرعون کا جبرو استبداد بن کر اور کبھی یزید کی بے
رحمی و بربریت بن کر میدان میں اُترا جبکہ اسکے مقابلے میں حق کبھی خلیل اﷲ
کا صدق بن کر کبھی کلیم اﷲ کا خلوص بن کر اور کبھی امام عالی مقام کا صبر و
استقلال بن کر نمودار ہوا اور یہ ثابت کردیا کہ جبرو استبداد کی ان اندھیوں
سے مجادلہ احسن ہوتا رہا ہے لیکن مفاہمت نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ کبھی حق کے پرستاروں کو عرب کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں
کئی کئی دن گھسیٹا گیا لیکن زبان سے نکلا ’’احد احد‘‘۔آروں سے چیر دینے کی
دھمکیاں دی گئیں، کبھی جلتے ہوئے تیل کے کڑاہوں میں نرم جسموں کو پھینکا
گیا، کبھی نازک جسموں کو تیروں سے چھلنی کردیا گیا، کبھی گھوڑوں کے سموں کے
نیچے روندا گیا،کبھی تحت و تاج کبھی سرداری کبھی مکہ کی خوبصورت لڑکی سے
شادی کی پیشکش کی گئی، مقصد صرف یہ تھا کہ جبر و ظلم، استبداد سے مفاہمت
کرلیں لیکن حق کے ان فرزندانوں نے یہ سب کچھ پاؤں کی ٹھوکر سے ٹھکرا دیا۔
کانٹوں کی شاہراہوں پر سربکف ہوکر چل پڑے، بلاؤں کے دشت میں بھی جبر ناروا
سے مفاہمت نہ کی۔
کیونکہ یہ نغمہ دصل گل ِ لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کے خزاں لا الہ الا ﷲ
اگر تریخ کی ورق گردانی کی جائے تو آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ یاد
آتا ہے جب ہر طرف ظلم، جبر، طاقت، دولت کا راج تھا، انسانیت دم توڑ چکی
تھی، ایسے میں حضور اکرمؐ نور مجسم اﷲ کا اذن لے کر نکلے کہ ایسے حالات سے
کسی طور پر مفاہمت نہیں کرنی اور ان کے خلاف ڈٹ جانا ہے پھر چاہے راہ میں
آندھی آئے یا طوفان۔
کبھی اُنہیں جادوگر کہا گیا تو کبھی کاہن کا طعنہ دیا گیا، کبھی مجنوں قرار
دیا گیا تو کبھی آسیب زدہ۔ ظلم و جبر نے حق کی تبلیغ کو روکنے کی سرتوڑ
کوششیں شروع کردیں اور حضور پاکؐ کو باز رکھا گیا لیکن آپؐ کے پائے استقلال
میں لغزش نہ آئی اور جو آپؐ نے جواب دیا وہ آج بھی تاریخ کے سینے میں محفوظ
ہے۔
’’یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو بھی
میں اپنے کام سے کبھی باز نہ آؤں گا‘‘
چلئے حضور پاکؐ کے زمانے سے کچھ دیر بعد امام عالی مقام امام حسینؓ کے دور
میں چلئے۔ یزید نے کہا میرے ہاتھ پر بیعت کرلیجئے۔ اگر مفاہمت کرکے سرداری
لے لینی ہوتی تو آپؓ اپنے بہتر ساتھیوں کی جان کا نذرانہ کبھی پیش کرتے۔
آپؓ نے یہ ثابت کردیا کہ اسلام کے سپوتوں کا سر کٹ تو سکتا ہے مگر جھک نہیں
سکتا اور تاریخ گواہ ہے کہ
کرتی ہے پیش اب بھی شہادت حسین کی
آزادیِِ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کہ سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
معراج انسانی کی کٹھن منازل صرف وہی افراد طے کرسکتے ہیں جو نرم دم گفتگو
اور گرم دس جستجو کی مثال ہوں، جن کی امیدیں قلیل لیکن مقاصد جلیل ہوں، جو
حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم ہوں تو رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح
تندو گرم ہوں، جو صدیق کا ایمانی جلال، فاروق کا رعب و دبدبہ، عثمان کی حیا
اور حیدر کے کردار کی شجاعت کے آئینہ دار ہوں، جو ستاروں پر کمندیں ڈال
سکتے ہوں۔
آج پھر سرزمین پاک کو معرکہ حق و باطل درپیش ہے، باطل کی قوتیں اس سرزمین
کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرہی ہیں۔ ہمیں ان قوتوں کے
خلاف ڈٹ جانا ہوگا اور اگر آج کوئی ظالم عفریت اس ملک کو اپنے قابو میں
کرنا چاہے تو ہمیں اسکے خلاف آگے بڑھنا ہوگا۔ مفاہمت کی بجائے اسکی میلی
آنکھ کو پھوڑ دینا ہوگا۔ اسکے نوکیلے جبڑوں کو چیر دینا ہوگا اور ہمیں اپنے
تمام نونہالانِ وطن کو اس بات کے لئے تیار کرنا ہے کہ وہ بھی آگے بڑھ سکیں
اور یہ کہہ سکیں:
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے |