عدل الہٰی پر ایمان اور اس کے دلائل (دوسرا حصہ)

ہماري عقل، ظلم و ستم كو ناپسند اور برا كہتي ہے اور تمام عقلمندوں كا بھي اس پر اتفاق ہے كہ خداوند عالم نے اپنے بھيجے ہوئے انبياء كو بھي لوگوں پر ظلم و ستم نيز برے كاموں كے انجام دينے سے منع فرمايا ہے، اس بنا پر كيسے ہو سكتا ہے كہ جس چيز كو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند كريں اور خدا اپنے بھيجے ہوئے خاص بندوں كو ان كاموں سے منع كرے اور خود ان غلط كاموں كو انجام دے ؟!

عدل الہٰی پر ایمان اور اس کے دلائل

خداوند عالم عادل ہے يعني كسي پر ظلم نہيں كرتا اور اس سے كوئي بُرا فعل یا كام صادر نہيں ہوتا ہے بلكہ اس كے تمام كاموں ميں حكمت اور مصلحت پائي جاتي ہے اچھے كام كرنے والوں كو بہترين جزا دے گا كسي چيز ميں جھوٹ اور وعدہ خلافي نہيں كرتا ہے، كسي كو بے گناہ اور بے قصور جہنم ميں نہيں ڈالے گا، اس مطلب پر دو دليل پيش خدمت ہے ۔

پہلي دليل
جو شخص ظلم كرتا ہے يا برے كام كو انجام ديتا ہے اس كي صرف تين صورتيں پائي جاتي ہيں (۱) يا وہ اس كام كي اچھائي اور برائي سے واقف نہيں ہے اس وجہ سے ظلم و زيادتي انجام ديتا ہے (۲) ياوہ اس كام كي اچھائي اور برائي سے واقف و آگاہ ہے ليكن جو چيزيں دوسروں كے ہاتھوں ميں ديكھتا ہے چونكہ اس كے پاس وہ شي نہيں ہوتي اس لئے اس كو لينے كے لئے ان پر ظلم كرتا ہے تا كہ ان كے اموال كو لے كر فائدہ اٹھائے اپنے عيب و نقص (كمي) كو پورا كرے اس كا مطلب يہ ہے كہ اپنے كام كرنے والوں (كارگروں) پر ستم كرتا ہے اور ان كے حقوق كو ضائع و برباد كرتا ہے اور خود قوي ہے اس لئے كمزوروں اور مجبوروں پر ظلم كرتا ہے، اور ان كے اموال و اسباب سے چاہتا ہے كہ اپني كمي كو برطرف اور اپنے نقص كو پورا كرے (۳) يا ظلم و زيادتي سے آگاہي ركھتا ہے اس كو ان كي ضرورت بھي نہيں ہے، بلكہ انتقام اور بدلہ يا لہو و لعب كے لئے ايسا كام انجام ديتا ہے۔

عموما ًہر ظلم و ستم كرنے والے انہيں اسباب كي وجہ سے ان كاموں كے مرتكب ہوتے ہيں، ليكن خداوند عالم كي ذات اس سے منزہ اور پاكيزہ ہے، وہ ظلم و ستم نہيں كرتا اس لئے كہ جہالت و ناداني اس كے لئے قابل تصور نہيں ہے، اور وہ تمام چيزوں كي اچھائي اور برائي كي مصلحتوں سے خوب واقف ہے وہ ہر چيز سے مطلقا بے نياز ہے، اس كو كسي كام اور كسي چيز كي ضرورت و حاجت نہيں ہے، اس سے لغو و بےہودہ كام بھي صادر نہيں ہوتا اس لئے كہ وہ حكيم ہے در نتيجہ اس كے پاس صرف عدالت ہي عدالت موجود ہے ظلم و ستم كا شائبہ بھي نہيں پايا جاتا ہے ۔

دوسري دليل
ہماري عقل، ظلم و ستم كو ناپسند اور برا كہتي ہے اور تمام عقلمندوں كا بھي اس پر اتفاق ہے كہ خداوند عالم نے اپنے بھيجے ہوئے انبياء كو بھي لوگوں پر ظلم و ستم نيز برے كاموں كے انجام دينے سے منع فرمايا ہے، اس بنا پر كيسے ہو سكتا ہے كہ جس چيز كو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند كريں اور خدا اپنے بھيجے ہوئے خاص بندوں كو ان كاموں سے منع كرے اور خود ان غلط كاموں كو انجام دے ؟!
البتہ سماج اور معاشرے ميں ديكھنے كو ملتا ہے كہ تمام لوگ ہر جہت سے برابر نہيں ہيں، بلكہ بعض ان ميں فقير اور بعض غنى، بد صورت و خوبصورت، خوش فہم و نا فہم، سلامت و بيمار وغيرہ ان كے درميان فرق پايا جاتا ہے ۔

بعض اشخاص پريشانيوں ميں مبتلا رہتے ہيں يہ تمام كي تمام چيزيں بعض اسباب اور علتوں كي بنا پر انسان كے اوپر عارض ہوتي ہيں جس سے فرار اور چھٹكارا ممكن ہے، كبھي يہ اسباب طبعي علتوں كي بنياد پر اور كبھي خود انسان ان ميں دخالت ركھتا ہے ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود خدا كے فيض كا دروازہ كھلا ہوا ہے اور ہر شخص اپني استعداد و استطاعت كے مطابق اس سے فيض حاصل كرتا ہے خداوند عالم كسي بھي شخص كو اس كي قدرت و طاقت سے زيادہ تكليف و ذمہ داري نہيں ديتا، انسان كي كوشش اور محنت كبھي رائیگاں نہيں ہوتى، ہر فرد بشر كي ترقي كے لئے تمام حالات و شرائط ميں راستے كھلے ہوئے ہيں ۔
حوالہ جات
۱۔ سورہ موٴمنون
۲۔ ا ٓيت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَ اَنكُّم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ > كيا تم يہ گمان كرتے ہو كہ ہم نے تم كو بے كار پيدا كيا ہے اور تم ہمارے حضور ميں لوٹا كر نہيں لائے جاؤگے ۔
۳۔ آيت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَ اَنكُّم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ > كيا تم يہ گمان كرتے ہو كہ ہم نے تم كو بے كار پيدا كيا ہے اور تم ہمارے حضور ميں لوٹا كر نہيں لائے جاؤگے

محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.