احتساب ضروری ہے

ایک احتساب قدرت نے بھی کرنا ہوتا ہے قدرت ایسے اسباب پیدا کر دیتی ہے کہ جن کی بدولت ظالم گرفت میں آجاتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کا حساب ہوناباقی ہے۔قدرت کا احتساب بے رحمانہ ہوتا ہے۔حکمران اب ہوش کے ناخن لیں۔جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو شائع کیا جائے اور اس کے مطابق انصاف کیا جائے ۔جس نے بھی ظلم کیا ہے اسے سزا دی جائے اگر یہاں بھی حکومت نے سستی دکھائی تو قدرت از خود انتقام لے گی بے گناہوں کا خون ظالموں پر قہر بن کر نازل ہو گا پھر کوئی بچانے ولا بھی نہ ہوگااور وہ ہی حقیقی احتساب ہو گا۔

کوئی بھی ریاست یا قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس میں احتساب کا مربوط نظام رائج نہ ہو۔ احتساب کا عمل صرف حکومت کے لیے محدود نہیں بلکہ اسے معاشرے کے ہر فرد پر لاگو ہونا چاہیے۔جب کسی بھی معاشرے کا ہر شعبہ اور فرد احتساب کے عمل میں سے گزرے گا تو وہ معاشرہ مثالی معاشرہ کہلائے گا۔ عمدہ طرزِ حکمرانی کا دارومدار اچھے نظامِ احتساب پر ہے۔جس حکومت کا احتساب کا نظام مضبوط اور مبنی بر انصاف ہو گا وہ حکومت اسی قدر عوام میں مقبول اور ریاست کے لیے مفید ہو گی۔اگر یہ کہا جائے کہ احتساب ہی اچھی طرزِ حکمرانی کی کنجی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔احتساب کا نظام صرف مالی امور پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ اس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔کسی بھی قوم کو اپنی اخلاقی اقدار کا بھی احتساب کرنا چاہیے کیونکہ اخلاقی گراوٹ بھی قوموں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔اگر ریاست میں احتساب کانظام موثراور مستحکم نہ ہو توریاست میں کرپشن،بدعنوانی،اقرباپروری اور ظلم کا دوردورہ ہوگااور وہ ریاست زوال پذیر ہو گی۔

ریاست میں احتساب کا موثر نظام قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔وہ ایسے آزادانہ ادارے قائم کرتی ہے جو قانون اور آئین کے مطابق ملک میں ہر کسی کا احتساب کر سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں احتساب کا نظام کبھی موثر انداز میں رائج نہیں ہو سکا ہے۔یہاں حکمرانوں نے احتسابی نظام کو مخالفین کو نیچا دکھانے اور انہیں سیاست میں محدود رکھنے کے لیے قائم رکھا ۔پاکستان کا احتسابی نظام کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف کوئی موثر کردار اد انہ کرسکا یہی وجہ ہے کہ اب پاکستانی معاشرے میں کر پشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔جب دنیا میں پانامہ پیپرز کا شور بلند ہوا تو اس کی گونج پاکستان میں بھی سنائی دی گی۔ابتدا میں اس آواز پر کسی نے کان نہ دھرا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔نیب نے پانامہ پیپرز میں موجود پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات کرنے میں سستی سے کام لیا اور حکمرانوں کے خلاف تحقیقات کرنے سے مکمل انکار بھی کیا۔تب سپریم کورٹ نے اپنا کردار ادا کرنا مناسب سمجھا اور اس معاملے پر از خود نوٹس لیا۔یہ امر بھی طے ہے کہ احتساب کرنا صرف حکومت کا کام ہے اور انصاف کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے مگر جب حکومت اپنے فرائض ادا کرنے میں دانستہ غفلت برتے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔اعلیٰ عدلیہ اور اور اس کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے اپنا کام موثر انداز میں کیا ۔تمام حقائق قوم کے سامنے آ چکے ہیں۔ حکمران خاندان کی مالی کرپشن ،جھوٹ اور بددیانتی سب کے سامنے ظاہر ہو چکی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مالی غبن اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے درست کہا ہے کہ اگر شہباز شریف کے منصوبوں پر جے آئی ٹی بنے تو قوم پانامہ کو بھول جائے گی۔ اب حکومتی ٹولہ اپنی خفت مٹانے کے لیے عمران خان کے احتساب کا شور مچا رہا ہے ۔عمران کا کیس بھی عدالت مین زیرِ سماعت ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے خود عمران کے خلاف تحقیقات کیوں نہ کی؟نیب،ایف آئی اے اور ایف بی آر نے عمران خان کے خلاف کیوں ایکشن نہ لیا؟احتساب کے اداروں نے کیوں ڈاکٹر عاصم،آیان علی اور شرجیل میمن کے خلاف سستی کا مظاہرہ کیا کمزور تحقیقات کیں جن کی بدولت عدالتیں ان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئیں ۔اسی طرح حکومتی ادارے عزیر بلوچ کو بھی اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔کچے کے علاقے سے پکڑا جانے والا چھوٹو گینگ ابھی تک زیر تفتیش ہے۔جب حکومت ایسے مجرموں کے معاملات لین دین کرے گی تو پھر احتساب کا نظام کس طرح قائم ہو پائے گا۔اس وقت حکمران خاندان کے اپنے پاؤں جلنے لگے ہیں تو وہ اور ان کے ساتھی دوسروں کے احتساب کا شور مچا رہے ہیں یہ شور قوم کو دھوکہ دینے کے لیے ہے۔
پاکستانی قوم اب یہ جان چکی ہے کہ انہیں لوٹنے والے کون ہیں؟جہاں حکومتی ادارے احتساب کرنے کے ذمہ دار ہیں وہاں قوم کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی احتساب کرے۔قوم حکمرانوں اور سیاستدانوں کا اخلاقی اور سیاسی احتساب کر سکتی ہے۔ نواز شریف اور ان کا خاندان حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ شریف خاندان کی حمایت کرنے والے اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔جھوٹ بولنے والوں اور ملک لوٹنے والوں کی حمایت کس طرح درست ہو سکتی ہے۔بددیانت،جھوٹے،بدعنوان اور نااہل کی حمایت ترک کر کے اخلاقی احتساب کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دے کر قوم ان کا سیاسی احتساب بھی کر سکتی ہے۔

ایک احتساب قدرت نے بھی کرنا ہوتا ہے قدرت ایسے اسباب پیدا کر دیتی ہے کہ جن کی بدولت ظالم گرفت میں آجاتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کا حساب ہوناباقی ہے۔قدرت کا احتساب بے رحمانہ ہوتا ہے۔حکمران اب ہوش کے ناخن لیں۔جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو شائع کیا جائے اور اس کے مطابق انصاف کیا جائے ۔جس نے بھی ظلم کیا ہے اسے سزا دی جائے اگر یہاں بھی حکومت نے سستی دکھائی تو قدرت از خود انتقام لے گی بے گناہوں کا خون ظالموں پر قہر بن کر نازل ہو گا پھر کوئی بچانے ولا بھی نہ ہوگااور وہ ہی حقیقی احتساب ہو گا۔

hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55734 views i am columnist and write on national and international issues... View More