شیر اور چوہے کی قربانی

شیر اور چوہے کی قربانی
میمو گیٹ کا سکینڈل پی پی قیادت کی توقعات کے بالکل برخلاف نتائج کا حامل ثابت ہوا۔ممکن ہے زرداری صاحب ایک چھوٹے موٹے ڈراوے کے طور پر میمو گیٹ کو استعمال کرنے کا ذہن بنائے ہوئے تھے۔مگر صورت حال بالکل متضاد بن گئی۔لیگی قیادت جو اپنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پہچان کے سبب زرداری صاحب کے ساتھ کھڑی تصور کی جارہی تھی۔اس نے بھی پی پی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں وزن ڈال کر پی پی قیادت کو یہ باور کروادیاکہ ہر حال میں زرداری حکومت کی حمایت ضرور ی نہیں ۔وزیر اعظم گیلانی کے لیے وہ ایام بڑے پریشان کن تھے۔پہلے پہل تو پی پی نے زبانی کلامی معاملہ نبٹ جانے کی آس لگائی مگر جب پاک فوج کی جانب سے تند وتیز بیانات آنے لگے تو اس بات کا احساس ہواکہ تھوڑی بہت قربانی دیے بغیر بات نہ بنے گی۔پہلے مرحلے کے طور پر حسین حقانی کی فراغت ہوئی۔زرداری صاحب کا خیال تھا۔کہ میمو گیٹ کوئی زیادہ بڑا معاملہ نہیں ہے۔حسین حقانی کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد پاک فوج نرم پڑجائے گی۔ایساہو نہ سکا۔بلکہ ادھر سے کچھ بڑا کیے جانے کی ڈیمانڈ محسوس کی جارہی تھی۔حالات بگڑتے چلے گئے۔جلد ہی ثابت ہوگیاکہ حسین حقانی کی قربانی بے سود ہے۔صدر زرداری نے لسے دا کم رونا یا نس جانا کافارمولہ استعمال کرتے ہوئے کچھ دنوں کے لیے دوبئی چلے جانے کا فیصلہ کرلیا ۔ان کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔کچھ مہینوں بعد میمو سکینڈل کے اثرات باقی نہ رہے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خاں کی طرف سے ایک بار پھر بڑھے دھڑلے سے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا گیا۔ہے۔خاں صاحب فرماتے ہیں۔کہ کون کہتاہے کہ میرے پاس منی ٹریل نہیں ہے۔عدالت میں جو ڈاکومینٹس مطلوب تھے۔جمع کروادیے گئے ہیں۔واضح رہے اخبار وں میں یہ خبر چھپی کہ سپریم کورٹ میں عمران خاں کے وکیل کا اعتراف سامنے آیا ہے۔جس میں ان کی طرف سے بیس سال پرانا ریکارڈ مہیا نہ ہونے کا ذکر کیا گیا۔ا س خبر کے بعد لیگی حلقوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی تھی۔ایک با رپھر تیرا کیا بنے گا کالیا جیسے ڈائیلاگ سننے کو ملے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا۔کہ ابھی تو تلاشی شروع ہوئی ہے۔آگے چل کر جانے کیا حال ہوتاہے۔میڈیا میں بیٹھے تجزیہ کار ان بھی اس خبر پر خاصے پرجوش تھے۔طرح طرح کے تجزیے سامنے آنے لگے۔اب چیئرمین تحریک انصاف عمران خاں کی طرف سے اس خبر کے مضمرات دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔خاں صاحب کہتے ہیں۔کہ کچھ لوگ نوا زشریف کے کیس او رمیرے کیس کو ایک سا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ بالکل غلط ہے۔میں نے حلال کی کمائی سے فلیٹ خریدے ۔میں تو صر ف کلب کے پاس بیس سال پرانا ریکارڈ میسر نہ ہونے کے سبب عدالت میں ریکارڈ پیش نہیں کرپایا۔

وزیر اعظم نواز شریف کو ملک میں ایک طبقہ ناقابل برداشت قرار دے چکا ہے۔یہ وہی طبقہ ہے جو ملک میں افراتفری اور غیر یقینی ماحول کو پسند کرتاہے۔جنگل کے قانون جیسا یہ ماحول ان کے ناجائز اور مجرمانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ناگزیز ہوتاہے۔یہ ایسا ماحول ہوتاہے۔جس میں چور اور سادھ کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا یہ قانون اس طبقے کو پسند ہے۔اور اس کی ضرو رت بھی ۔نوازشریف ملک میں قانون اور آئن کی حکمرانی کے متمنی ہیں۔انہیں یہ بندہ اسی لیے ناگوار گزرتاہے۔ جوں جوں نواز شریف اس فیلڈ میں پرانے ہورہے ہیں۔ان کا اعتماد اور قوت بھی بڑھ رہاہے۔تاریخ میں پہلی بار ایک فوجی آمر کو جواب دہی کے امرسے گزرنا پڑا۔ایک جمہوری حکمران کے دور میں اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔اسے جن اطراف سے تحفظ کی امید تھی۔وہاں سے کچھ نہ مل سکا۔سارے امکانات مسترد ہوجانے کے بعد آمر کے پاس دو ہی راستے تھے۔یا تو مقدمات کا سامنا کرتا۔جس کے نتیجے میں اسے پھانسی یا عمر قید سے کم کی سزا نہ ہوتی۔یا پھر جعلی میڈیکل سرٹیفیکیٹ پر علاج کے بہانے عدالتی راستے سے باہر فرار ہوجاتا۔نوازشریف کو ناپسند کرنے والے طبقہ کے لیے اس آمر کی بے بسی اذیت ناک تھی۔انہیں یقین ہے کہ نوازشر یف کو ہٹائے بغیر بات نہیں بنے گی۔

چیئرمیں تحریک انصاف کی طرف سے منی ٹریل کے ادھورے ہونے کا اعتراف غیر معمولی ہے۔کہانی غالبا اس طرف بڑھ رہی ہے۔جدھر جانے کا اندازہ نہ تھا۔خاں صاحب اس سے قبل ایک بار کہ چکے ہیں۔کہ گاڈ فادر کی کرپشن کو سامنے لانے کے نتیجے میں اگر میں نااہل بھی ہوجاؤں تو یہ قربانی معمولی ہے۔شاید انہیں احساس ہوتا جارہاہے کہ نواز شریف کو جتنا تر نوالہ تصور کیا جارہا تھا۔وہ اتنے ہیں نہیں ۔یہ معاملہ طول پکڑتا چلاجارہا ہے۔طوالت کے سبب اب عمران خاں بھی احتساب کے شکنجے میں نظر آرہے ہیں۔ پانامہ کیس سے قبل تک وزیر اعظم نوازشریف کا امیج عمران خاں کے بہ نسبت زیادہ ایماندار ۔شریف ۔مذہبی او رسلجھے آدمی کا تھا۔ان پر مالی بد عنوانی کے الزامات تولگتے رہے مگر اخلاق سوز معاملات میں عمران خاں کی شہرت زیادہ خراب رہی۔خاں صاحب ڈر رہے تھے کہ زیادہ طوالت سے احتساب کا سلسلہ خود ان تک پہنچ سکتاہے۔سابق صدر پرویز مشر ف ایک طاقتور فوجی حکمران تھے۔انہیں بھی احتساب سے بچانے کے لیے ہر حربہ ناکام ہوا۔بالاخر انہیں باہر ہی نکلوانا پڑا۔خاں صاحب اپنے ضمانتیوں کی محدود قوت سے پریشان ہیں۔سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خاں صاحب کو جو تسلیاں دی گئی تھیں۔معاملات کی طوالت ان تسلیوں کو بے اثر کرنے لگی ہے۔خاں صاحب کو حالات اس نہچ تک نہ پہنچنے کی گارنٹی دی گئی تھی۔اب جب کہ حالات وہاں تک پہنچ چکے تو عمران کی پریشانی دیدنی ہے۔جہاں تک عمران خاں نواز شریف کو پھنسانے میں اپنی قربانی کومعمولی قرار دے رہے ہیں۔یہ غلط نہیں ۔جو طبقہ نوازشریف سے خوفزدہ ہے۔اس کے لیے خاں صاحب کی حیثیت کسی بغل بچہ سے زیادہ نہیں۔اگر عمران خاں سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اور ان کا منظر سے آؤٹ ہوجانا ایک سا ہے تو وہ یاد رکھیں شیر اور چوہے کی قربانی دینے سے دونوں کا سٹیٹس ایک نہیں ہوجاتا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.