آج کل ہر کوئی پریشان ہے، تیز تر حالاتِ زندگی میں ہر
کوئی اپنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے دوڑ میں ہے، خاندان میں سب سے آگے
نکلنے ، دوستوں، کولیگز اور ہم پیشہ وہم رشتہ سب کے ساتھ مسابقت و
کمپیٹیشن نے ہر کسی کو ہلکان کردیاہے، کچھ لوگ سچ مچ مشکلات میں ہیں،
وہ مشکلات سے نکلنے کی تگ ودو میں ہیں، جہاں جائے، جس سے ملے رونا
دھونا شروع کردیتےہیں، کچھ تو ایسے ہیں کہ نعوذ بالله باری تعالی سے
بھی شکایتیں کرنے لگتے ہیں، اپنے اعمال وکردار اور اپناایمان و یقین کا
اندازہ کرنے کی کوشش تک نہیں کرتے،حالانکہ ہونا یہ چاہیئےکہ اپنے اعمال
،اپنا ایمان اور اپنا اعتقاد درست کیاجائے، اپنے معاملات کے لئےظاھری
اسباب اختیار کئے جائیں اور پھر بارگاہِ إلہی میں التجائیں کی جائیں،
اس اعتقاد کے ساتھ :اگر کام میری رضا ورغبت کےمطابق ہوگیا، تو الحمد
لله، نہ ہوا تو گویا رب کی طرف سے میری بہتری اسی میں ہے، نہ ہوا تو
تقدیر پر اعتراضات ،توکل یا تفویض پرتنقید کسی طرح مناسب نہیں، بہت سے
لوگ ہم سے کہتے ہیں:شیخ یہ تقدیر، تفویض، تسلیم، رضااور الله پر
اعتماد(ثِقہ)ہماری سمجھ سے باہر یا بالا تر ہیں، توہم کہتے ہیں: یہ
مشکل ترین مباحث ہیں،اِن کے پیچھے نہ پڑیں،اِن کی تہہ تک پہنچنے کے لئے
بڑے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں،بس کچھ کچھ سمجھ میں آجائیں تو کافی ہیں،حقیقت
یہ ہے کہ اِن ہی اصطلاحات میں سکون، اطمینان اور تمام ترمشکلات
وپریشانیوں کا حل اور مکمل علاج موجود ہے، کاش کوئی سمجھ جائے، آئیے
ذرہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
تفویض کا معنی ہے : فیض پہنچانا، فائدہ پہنچانا، باتوں باتوں میں ہی
کچھ سمجھا دینا۔
بڑی بات یہ ہوتی ہے ک شیخ کوتفویض کا فن ایسے آتاہو کہ شاگرد کو محسوس
بھی نہ ہو اور استاد باتوں باتوں میں ہی مالا مال کردے۔ جبکہ تصوف کی
اصطلاح میں:ہر کام کو الله کے حوالے کرنا اور ہمہ تن اپنے آپ کو باری
تعالی کے سپرد کر دینا۔
ہمارے سلف صالحین کی تو تعلیم ہی یہ تھی:الله پر توکل کرو اور مقام
تفویض حاصل کرو۔
ایک اصطلاح توکل علی الله کی ہے جس کا مطلب یہ ہے : سارے کام صرف اللہ
تعالی کے سپرد کرنے ہیں اور یہ واجب ہے بلکہ ایمانیات کے اصول میں سے
ایک اصل ہے الله تعالى كے فرمان کے مطابق:
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﻣﻮﻣﻦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺭﻛﮭﻨﺎ ﭼﺎہیئے۔
کسی فاضل محقق نے اسے یوں سمجھایا ہے: توکل لفظ 'وکل' سے نکلا ہے جس کے
معنی ہیں خود کو سپرد کردینا یا مکمل بھروسہ کرنا توکل کسی صاحب سے
سیکھنے کے بجائے معصوم بچوں سے سیکھیں. مشاہدہ ہے کہ جب کسی بچے کو
کوئی غیر انسان گود میں لینا چاہے تو وہ ڈر کر روتا ہے شور مچاتا ہے
مگر جب اسی بچے کو اس کا باپ گود میں لے کر ہوا میں کئی فٹ
اونچااچھالتا ہے تو وہ ڈرنے کے بجاۓ خوشی سے قلقاریاں مارتا ہے اور
اکثر دوبارہ اچھالنے کی فرمائش بھی کر ڈالتا ہے. وہ معصوم بچہ جانتا
ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اسکا باپ اسے زمین پر گرنے نہ دے گا. اس
بچہ کا یہ اعتماد اور بھروسہ دراصل اپنےباپ پر اس کا توکل ہے۔
توکل مفادات اور مطلوب کو پورا کرنے والے قوی اور معنوی اسباب میں سے
ایک ہے لیکن مومن پر لازم ہے کہ جو دیگر اسبابِ تدبیر اسے میسر ہیں،
انہیں بھی اس کے ساتھ ملائے، خواہ وہ عبادات میں سے ہوں ، جیسے دعا،
نماز، صدقہ اور صلہ رحمی ہیں ،یا اُن مادیات میں سے ہوں ، جن کا دار
ومدار سنت الہی کے مطابق اسباب پرہے، یہ سب رسول الله صلى الله عليه
وسلم کی اقتداء کرتےہوئے، کیونکہ آپ بہترین توکل کرنے والے تھے اور آپ
دیگر اسباب جو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے مناسب ہوتے
اختیارفرمایاکرتے تھے ۔
رجا اور اُمید یہ ہے:اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اور اس
امید پر عمل کیئے جانا کہ اللہ تعالیٰ |