گلگت بلتستان ملک کا ایک ایسا حصہ ہے جو جغرافیائی لحاظ
سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اپنے مخصوص ثقافت کی وجہ سے ایک الگ پہچان
رکھتا ہے ۔ سیاسی حوالے سے یہ علاقہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے
قومی سیاسی دھارے میں شامل نہیں ہے جسے یہاں کی بڑی تعداد میں عوام اپنی
محرومی کا سامان سمجھتے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں مختلف ادوار میں مختلف
سیاسی و انتظامی اصلاحات ہوتی رہی ہیں اور بدلتے ادوار کے بدلتے اصلاحات کے
بعد پیپلزپارٹی نے آخری بار 2009میں امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس کے نام سے
صدارتی آرڈیننس جاری کرکے اسے ایک عبوری صوبے کی شکل دیدی جس کے بعد سیاسی
نظام کا سربراہ اب وزیراعلیٰ اور وفاق کی نمائندگی گورنر کرتا ہے ۔
گلگت بلتستان میں سیاسی پارٹی کی بنیاد پہلے انتخابات 1994میں کرائے گئے تب
سے آج تک مذہبی جماعتوں کو اس خطے میں واضح نشستیں ملتی رہی ہیں اور ہر
حکومت میں ان کا حصہ رہا ہے ۔مذہبی جماعتوں کے حصہ کے ساتھ ساتھ اس بات کا
زکر کرنا بھی یہاں ضروری ہے کہ ماضی میں گلگت بلتستان فرقہ وارانہ فسادات
کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور تھا لوگ گلگت بلتستان آنے سے قبل 100بار
پوچھتے تھے کہ مذہبی ماحول کنٹرول میں ہے یا کنٹرول سے باہر ہے ۔ اور مذہبی
جماعتوں کی سیاست کا محور ہمیشہ ’کوٹہ ‘رہا ہے جس میں اپنے حصے کے کوٹے پر
نشستیں لی جاتی یا پھر حکومت سازی میں شریک ہوتے ۔ دور کی بات نہیں 2009کے
انتخابات میں جمعیت علماء اسلام پاکستان قانون سازاسمبلی گلگت بلتستان کے
33رکنی ایوان میں 4اراکین کے ساتھ دوسری بڑی جماعت اور حکومت اتحادی تھی ان
کے 3ممبران پارلیمانی سیکریٹریز جبکہ 1وزیر اور صوبائی جنرل سیکریٹری
مولانا عطاء اﷲ شہاب ان چار ممبران اور حکومتی اتحاد کے نتیجے میں گلگت
بلتستان کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔اس کے باوجود ’علاقے میں فرقہ وارانہ
فسادات کے محرکات ‘کے حوالے سے صوبائی سرپرست اعلیٰ سے مولانا قاضی عنایت
اﷲ نے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سازی بیلنس نہیں ہے
کیونکہ گورنر ، وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدے پر کوئی بھی ہمارے مسلک یا
فرقے کا نہیں ہے ۔ 2015کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دو تہائی اکثریت حاصل
کرلی اور سنگل پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور حافظ حفیظ الرحمن
وزیراعلیٰ بن گئے ۔ جس پر ان کے اوپر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ’25فیصد
نمائندگی والے 75فیصد پر حکومت کررہے ہیں ‘۔ یہ اس علاقے کی بدترین سیاسی
صورتحال کی ایک واضح مثال ہے ۔ جبکہ کئی حلقے بالخصوص گلگت کا حلقہ
نمبر1اور حلقہ نمبر2مذہبی سیاست کے حوالے سے مشہور رہا ہے ۔ انتخابات سے
قبل مساجد سے اپنے ’فرقے ‘کے ’سب سے بہترین‘ کا انتخاب کیا جاتا اور ’عوام
الناس ‘ ان کے پیچھے لپک پڑتی ۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت کے ان حلقوں خصوصاً
حلقہ نمبر1میں سب سے کم ترقیاتی کام ہوئے ہیں ۔گویاں یہ بات واضح ہے کہ
مذہبی جماعتیں ملک بھر کی طرح یہاں پر بھی عوام کو پھسلانے میں تو کامیاب
ہوتی ہیں لیکن اسمبلی میں خود پھلساً سے بچ نہیں پاتی ہے۔ جس وقت گلگت
بلتستان میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے اس وقت عوام کے ووٹوں سے منتخب
ہونے والے ’عوامی لیڈران ‘کا ان فسادات میں بلاواسطہ یا بالواسطہ تعلق ضرور
رہا ہے ۔
قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے حلقہ نمبر18دیامر میں 10جولائی 2016کو
ضمنی انتخابات ہوئے اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے صوبائی وزیر اچانک انتقال
کرگئے تھے جس کے بعد ان کے بھائی کو جانشینی عطا کرکے میدان میں اتارا گیا
جبکہ مد مقابل جمعیت علماء اسلام کے سابق وزیر تھے جنہوں نے محکمہ صحت جیسے
اہم شعبے میں پانچ سال وزارت سنبھال لی تھی ۔ عوام نے مسلم لیگ ن کے مرحوم
وزیر کے گمنام بھائی کو جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کے مقابلے میں اپنا
لیڈر نامزد کردیا ۔
قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے حلقہ نمبر4نگر میں اسلامی تحریک کے
پارلیمانی لیڈر ،جو کہ حکومتی حلقے کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے ، اچانک
انتقال کرگئے ۔ اس حلقے میں 9جولائی 2017کو ضمنی انتخابات ہونا طے پائے
۔مرحوم پارلیمانی لیڈر کے جانشینی کے طور پر ان کے بھائی کو میدان میں
اتارا گیا جبکہ ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کا امیدوار تھا جو سیاسی حوالے سے
نووارد تھے ۔ اسلامی تحریک کے امیدوار کی حمایت میں مسلم لیگ ن کے علاوہ
مجلس وحدت المسلمین نے اپنا امیدوار نہیں لاکر حمایت کا اعلان کردیا ۔ قابل
زکر بات یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں مجلس وحدت المسلمین اور اسلامی
تحریک کے پاس دو دو نشستیں تھیں،1,1خاتون نشست انہیں اسمبلی رول کے مطابق
کوٹے میں ملی جبکہ ٹاس کے زریعے اسلامی تحریک کو ٹیکنوکریٹ کی نشست ملی جس
کے بعد اسلامی تحریک کے پاس چار اور مجلس وحدت المسلمین کے پاس 3نشستیں رہی
۔ اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے لئے مجلس وحدت المسلمین نے سرتوڑ کوششیں کرکے
اسلامی تحریک کا راستہ روک لیا اور جمعیت علماء اسلام کے اکلوتے ممبر کو
’اپوزیشن لیڈر ‘کا ’تاج ‘نصیب ہوا ۔ جس کے بعد دونوں ایک ہی فرقے سے تعلق
رکھنے والی جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف بیانا ت کا نہ ختم ہونے والا
سلسلہ شروع ہوا اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ جنت بھی نہیں
جائینگے لیکن نگر کے حلقے میں تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر دوبارہ اتحاد
کرلیا لیکن نگر کے عوام نے دیامر کے عوام کی طرح یہاں بھی مذہبی سیاست کا
راستہ روک لیا ۔
موجودہ صورتحال بھی مذہبی جماعتوں کے واضح لائحہ عمل کی دلیل دیتا ہے ۔
مجلس وحدت المسلمین کا 1ممبر جماعتی پالیسیوں کی خلاف ورزی کے بعد بنیادی
رکنیت بھی کھوچکا ہے اور آزاد حیثیت سے اسمبلی میں موجود ہے ۔ اسلامی تحریک
کا منتخب رکن اسمبلی مکمل طور پر حکومت کے پہلو میں نظر آرہا ہے اب صرف
انہیں حکومتی کابینہ اجلاس میں شرکت کی دعوت رہ گئی ہے ۔جمعیت علماء اسلام
کا رکن اسمبلی و موجودہ اپوزیشن لیڈر کیا مجال ہے کہ کسی بھی وقت جماعتی
پالیسی کو اپنے قریب پھڑکنے دیں ۔وہ بھی مکمل طور پر جماعتی پالیسیوں سے
باغی نظر آرہے ہیں ۔جبکہ خواتین ممبران شروع سے ہی اپنے ہاتھوں پیدا کردہ
’صنفی امتیاز‘کا شکار ہیں۔اس سے قبل 2015کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے
گو کہ دعوے اقوام متحدہ کی حیثیت سے کئے یعنی انہوں نے گلگت بلتستان کو
مکمل پاکستانی صوبہ بنانے کا بھی اعلان کردیا جبکہ امیدوار صرف انہی حلقوں
سے کھڑے کئے جہاں پر ان کے فرقے کی آبادی زیادہ ہوں۔ انتخابات میں ان کا
رویہ دوسرے جماعتوں پر احسان ڈالنے والا نظر آیا ۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ضلع دیامر کا جی بی ایل اے 18اور ضلع نگر کا جی بی ایل
اے 4دونوں حلقوں میں مذہبی حوالے سے تکثیریت نہیں بلکہ دونوں حلقوں میں
100فیصد آبادی 1,1فرقے کی ہے ۔مذہبی حوالے سے 100فیصد ایک ہی فرقے پر مشتمل
ان حلقوں نے ضلع گلگت بالعموم حلقہ 1اور حلقہ 2کو بالخصوص دعوت فکر دی ہے
کہ سیاست اور نمائندگی کا تعلق زہنی فکر سے نہیں جسمانی ضروریات سے ہوتی
ہیں اور ایسے لوگوں کو رد کریں جو مشترکہ مجالس میں مشترکہ اور مسجدوں کے
منبروں سے منتازعہ تقاریر کرتے ہیں ۔ اور ایسے سیاسی مداریوں کو مسترد کرے
جو ہوتے تو علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب لیکن دعویٰ اور کریڈٹ لیتے
ہیں علاقے کے امن کا ۔ بقول شاعر
بے وجہ تو نہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغبان ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
یہی وہ مقام ہے جہاں پر ہمارا معاشرہ پھنسا ہوا ہے جس میں علاقائی حدود سے
زیادہ زہنی و فکری ہم آہنگی کو ترجیح دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ گلگت
بلتستان اب تک ’سعودی عرب بمقابلہ ایران ‘کانٹے دار مقابلے اور تصادم کے
لئے بہترین میدان کے طور پر سامنے رہا ہے ۔ اور اس میں آج کی موجودہ سیاسی
قیادت کو بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو مذہب کے بنیاد پر دیکھنا ہے
یا ان کو ضروریات اور شہریت کی بنیاد پر دیکھنا ہے ۔ عوام کو ان کا اور خدا
کے مابین رشتہ کو دیکھنا ہے یا انسان کا انسان سے رشتہ کے طور پر ۔
جمشید خان دکھی کے اس دعوت فکر کے ساتھ اجازت ۔
دیوارِتعصب،یہ لسانی ، یہ جہالت
کس کس کو گرائیں گے کہ دیوار بہت ہیں |