ہر آمر کے لیے مشکل مرحلہ ہوتاہے۔جب اسے اختیارات میں کسی
کو شریک کرنا پڑے ۔کسی بھی آمر کی یہ تمنا نہیں ہوتی مگرمجبورا کچھ لوگوں
کو شامل اقتدار کرناپڑا۔اگر ان کے بس میں ہوتاتو تاحیات تن تنہا۔سیاہ وسپید
کی ملکیت پاس رکھتے۔مگرعالمی دباؤ ایسا نہ کرنے دیتا۔ ملک کے اند ربیٹھے
بھی کچھ بے تاج بادشاہ بھی حصہ وصولنے کے لیے آمر کو مجبور کرتے ہیں۔جنرل
ضیا ء بھی کچھ اسی طرز کی مجبور ی کے سبب محمد خاں جونیجو کو شریک اقتدار
کرنے پر آمادہ ہوئے۔مہینوں دنیا سے ٹال مٹول کرتے ۔آج کل کا کہتے بالآخر
ایک دن انہیں شراکت اقتدار کا کڑوہ گھونٹ بھرنا ہی پڑا۔جونیجوصاحب کو وزیر
اعظم بنادیا گیا۔اس کے بعد کیا ہوا۔ایک لمبی کہانی مگر لب لباب یہی کہ وہی
ہوا جس کا ڈر تھا۔جمہوری وزیر اعظم نے جب فیتے کاٹنے شروع کیے۔ملکی اور غیر
ملکی بڑی سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے پائے گئے۔تو آمریت جنجھلا گئی۔بے بسی
یہ تھی۔کہ یہ فیصلہ ان کی مرضی اور خوشی سے نہیں ہوا تھا۔بلکہ دنیا داری کو
نبھانے کے لیے کیا گیاتھا۔جونیجو صاحب کو فوراراستے سے ہٹانا مناسب نہ
تھا۔صدر صاحب صبر کرتے رہے۔مگر یہ صبر اتنی ہی دیر رہا جتنی دیر آمر کی
برداشت رہتی ہے۔انتیس مئی انیس سو اٹھاسی کو جنرل صاحب نے مروت او ررواداری
کے تمام چولے اتار پھنکے ۔سیدھا سادا آمر بن کر اس جمہوری وزیر اعظم کو کان
سے بھر کر گھر بھجوادیا۔اس کے بعد حضر ت ضیاء نے جانے کیا کیا منصوبہ
بندیاں کرنا تھیں۔مگر قدرت کی منصوبہ بندی غالب آگئی۔اور وہ سبھی حسرتیں
لیے دنیا سے کوچ کرگئے ۔جمہوریت کو آمریت نے نہ تو اس سے قبل برداشت کیا
تھا۔نہ اس کے بعد ان دنوں نوازشریف کے گرد جو گھیرہ ایک عرصے سے ڈالا جارہا
تھا۔سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی نااہلی کا فیصلہ آجانے کے بعد یہ کوشش بھی
کسی کنارے لگی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے وزیر اعظم کو غلط بیان حلفی جمع
کروانے پر صادق و امین نہ ہونے کا مرتکب قرار دے دیا ہے۔الیکشن کمیشن کوحکم
جاری کیا گیا۔کہ وزیر اعظم نواز شریف کو فوری طور پر عہدے سے فارغ کیے جانے
کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ساتھ ہی صدر مملکت کو کہا گیاکہ وہ ملک میں نظم
ونسق کے احسن طریقے سے جاری رہنے کا اہتمام کریں۔مطلب یہ کہ نئے وزیر اعظم
کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلوائیں وزیر اعظم نواز شریف کی ناہلی
کے بعد کابینہ کے خود بخود ختم ہوجانے کے سبب پیدا شدہ خلا کو پر کرنے میں
اپنا رول اداکریں۔عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم نے وزیر اعظم
ہاؤس چھوڑدیا۔رائے ونڈ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کو سب وزیر اعظم ہاؤس کا
درجہ حاصل تھا۔یہ درجہ بھی ختم ہوا۔
سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔اور اس فیصلے سے
متعلق اپنی رائے رکھنا اس کا حق۔اس فیصلے پر اب طرح طرح کی رائے آرہی
ہیں۔اکثریت نے اس فیصلے کو تاریخ کا کمزور ترین فیصلہ قرار دیاہے۔ایسا
کمزور فیصلہ جو کمزور دلیلوں کی بنیاد پردیا گیا۔سابق وزیر اطلاعات مریم
اورنگزیب نے کہاہے کہ یہ فیصلہ افسوس ناک ہے۔مگر خلاف توقع نہیں ۔نوازشریف
ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔اوروزیر اعظم خوہ کوئی بھی ہو ہماراوزیر اعظم نواز
شریف ہی ہوگا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر رائے زنی ہورہی ہے ۔اور اگلے کئی
دنوں تک ہوتی رہے گی۔کچھ سوال اس فیصلے نے ایسے پید کیے ہیں۔جو اسے جلدی
بھول جانے کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ یہ ایک بہت
بڑا فیصلہ تھا۔ نوازشریف او ران کے خاندان کو سیاست سے آؤٹ کرنے کا یہ
فیصلہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اس فیصلے کی رو سے نوازشریف جو تین بار
منتخب وزیر اعظم رہے ۔اب تاحیات نااہل ہوچکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیااتنے بڑے
اثرات کا حامل فیصلہ اتنا بڑا جواز دے پایاہے۔بظاہر فیصلہ بڑا مگر اس کی
دلیل چھوٹی نظر آتی ہے۔شریف فیملی متواتر اس شکایت کا اظہار کرتی رہی ہے کہ
کچھ قوتیں اس کے خلاف سازش کررہی ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف سے کچھ لوگ بغض
او رحسد کے سبب انہیں حکومت سے ہتانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں اس خوف سے
برداشت نہیں کررہے کہ اس سورج کے آگے ان کے چراغ مانند پڑرہے ہیں۔سب سے
زیادہ ان لوگوں کو تکلیف ہے جو خودساختہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں۔جو قانون اور
آئن سے متصادم اختیار ات سے دستبردار ہونے پرتیار نہیں۔سابق وزیر ریلوے
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں۔کہ احتساب سے انکارنہیں مگر یہ احتساب ان لوگوں تک
بھی پہنچنا چاہیے جوپردے کے پیچھے رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔
ایک سوال اس بنچ کویکا یکی تین رکنی سے پانچ رکنی کردینے سے متعلق بھی
ہے۔یہ منطق بھی سمجھ میں نہیں آئی۔محترمہ عاصمہ جہانگیر نے سماعت تین ججز
کے کرنے اور فیصلہ پانچ ججز کے سنانے کو ایک انوکھی مثال قرا ردیا ہے۔ جو
آج تک نہیں دیکھی گئی۔محترمہ عاصمہ جہانگیر کی یہ حیرت شریف فیملی کی اسی
بے زاری کا ایک باب ہے۔جو سازشیوں سے متعلق ہے۔اصل میں کچھ لوگوں کو ڈر
تھا۔کہ سماعت کرنے والے تین میں سے دوججز نااہلی کے خلاف نہ فیصلہ
سنادیں۔تب دو کے مقابلے میں ایک کے سبب وزیر اعظم نواز شریف بچ جاتے۔اس
مرحلے پرکسی قسم کا رسک لینے نہ لینے کا منصوبہ بنایاگیا۔تاکہ دو ججزجو
پہلے نااہلی کا فیصلہ دے چکے کسی ایک کو مذید ملا کر روز روز کی یہ ٹینشن
دو ر کی جائے ۔ان لوگوں کے اندر کے خوف نے یکا یکی تین رکنی بنچ کو پانچ
رکنی پنچ میں تبدیل کروایا۔
|