پانامہ کیس کا فیصلہ آچکا ہے !
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں شامل پانچوں ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ،جسٹس
اعجازافضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن
نے آئین کے آرٹیکل62-1/Fکے تحت وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیتے
ہوئے تمام تر عوامی خدشات اور عدلیہ پر لگائے جانے والے پنجاب پرستی ‘
مقتدر وطاقتور طبقات کے تحفظ اور روایتی نا انصافی کے تمام الزامات کو باطل
ثابت کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ موجودہ پاکستانی عدلیہ تعصب
پرستی ‘ تنگ نظری ‘ جانبداری ‘ ابن الوقتی اور نظریہ ضرورت کی عینک لگاکر
عوام دشمنوں کا تحفظ کرنے والی سابق عدلیہ سے مختلف اور حقیقی معنوں میں
غیر جانبدار و جرا ¿تمند منصفوں پر مشتمل ایسی باکردار عدلیہ ہے جو اسلام
کے اصول مساوات کے تحت انصاف کی فراہمی کیلئے حقائق و شواہد کی روشنی
میںآئین و قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہے !
پانامہ کیس کے آغاز اور عدالتی تحقیقات کے دوران افواج پاکستان نے حکمرانوں
‘ حکومتی ذمہ داروں اور ن لیگی رہنماؤں کے عدلیہ اور اداروں کیخلاف دھمکی
آمیز بیانات ‘ قومی سلامتی کے ضامن خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر لگائے جانے
والے سازش کے بیہودہ الزامات کے باجو د غیر روایتی کردار ادا کرنے کی بجائے
صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس تدبر ‘ دانشمندی ‘ذمہ داری ‘ حب الوطنی
اور جمہوریت پرستی کا ثبوت ددیکر وطن عزیز کوسیاسی بحران سے نکلنے میں مدد
دی ہے اس کیلئے پاکستانی قوم کا ہر بچہ ‘ بوڑھا ‘ جوان اور عورت و مرد اپنی
فوج پر اعتماد و فخر کیساتھ ان کا ممنون و مشکور بھی ہے کیونکہ ہر پاکستانی
کو فوج سے یہی توقع ہے کہ وہ وطن عزیز کے دفاع پر توجہ مرکوزرکھنے ‘
پاکستان کیخلاف بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے ‘ دہشتگردی کے عفریت سے ملک و
قوم کو بچانے کیساتھ ہر سیاسی و قومی بحران کو حل کرنے میں معاون و مددگار
ثابت گی اور اس کا شمار قوم کو بحرانوں میں دھکیلنے والوں میں کبھی نہیں
ہوگا !
نوازشریف کو نا اہل قرار دلوانے والی آئین کی شق 62-1/F کے مطابق عام
انتخابات میں حصہ لینے والا ہر امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اپنے
اثاثوں ، سیاسی پس منظر اور نجی زندگی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو حرف بہ
حرف درست معلومات کی تحریری فراہمی کا پابند ہے اسلئے غلط معلومات کی فراہم
کرنے‘ مکمل معلومات کی فراہمی میں بخل سے کام لینے ‘ سچ نہ بول کر جھوٹا
ثابت ہونے ‘ امانت میں خیانت کرنے ‘ اخلاقی جرم کا ارتکاب کرنے اور ذہنی
تواز کھودینے والا فرد آئین کی اس شق کے تحت عوامی نمائندگی کا حق کھودیتا
ہے !
پانامہ کیس کے 25صفحات پر مشتمل فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میاں
نواز شریف کیپٹل ایف زیڈ ای جبل علی کے حوالے سے ملنے والی مراعات عام
انتخابات 2013ءمیں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنے میں ناکام
رہے جو کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء(روپا) کے سیکشن 12(2f) کی خلاف ورزی
ہے جبکہ میاں نواز شریف نے اس ضمن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا جس کی وجہ
سے وہ روپا کے سیکشن 99(f) اور آئین کے آرٹیکل 62(1f) کے تحت صادق اور امین
نہیں رہے اس لئے وہ بطور رکن مجلس شوریٰ نااہل ہو چکے ہیں!
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر میاں نوازشریف کی نا اہلی کے
نوٹیفکیشن کے اجراءکیساتھ صدر پاکستان کو بھی ملک میں جمہوری تسلسل کو
یقینی بنانے کیلئے آئین پاکستان کے تحت تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا پابند
کرتے ہوئے نیب کو 6ہفتوں کے اندر جے آئی ٹی کی طرف سے اکھٹے کئے گئے شواہد
‘ ایف آئی اے اور نیب کے پاس موجود مواد کی روشنی میںنواز شریف کے بچوںیعنی
مریم صفدر ‘ حسن نواز‘ حسین نواز، داماد کیپٹن صفدر اور سمدھی اسحاق ڈار
سمیت دیگر کیخلاف رپانچ ریفرنس راولپنڈی اسلام آباد کی احتساب عدالت
میںدائر کرنے اور جے آئی ٹی کی طرف سے میوچل لیگل اسسٹنس کے ذریعے بیرونی
ممالک سے مانگے گئے مواد سے استفادہ کرتے ہوئے ان ریفرنسز کو 6ماہ میں
نمٹانے کا حکم دیا !
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب نااہلی و معطلی کے نوٹیفکیشن
کے اجراءسے قبل ہی وزیراعظم نوازشریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکر اور
ایوان وزیراعظم سے پنجاب ہاؤس منتقل ہوکر ایک بہتری مثال و روایت قائم کرنے
کی کوشش کی مگر سیاسی حلقوں اور قانونی و آئینی ماہرین کی جانب سے وزیراعظم
کے اس مستحسن اقدام کو نوازشریف کی سیاسی و قانونی مجبوری قرار دیتے ہوئے
کہا گیاکہ پانامہ پیپرز کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق اور کرپشن کی داستان
پر قوم سے معافی مانگ کر بروقت استعفیٰ دیا جاتا تو عدلیہ ‘ قوم اور مسلم
لیگ(ن) اس طویل ترین مشقت اور ان مضمرات سے بچ جاتے جو پانامہ کیس عدالت
میں چلائے جانے ملک و قوم کو ہوئی اور جس کا خمیازہ پاکستان و عوام کو
اقتصادی و تجارتی خسارے اور خود وزیراعظم کو نا اہلی اور متوقع گرفتاری کے
صورت بھگتنا پڑرہا ہے کیونکہ قانونی ماہرین کے مطابق نوازشریف کی گرفتاری
کا امکان موجود ہے اسلئے انہیں اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کرالینی چاہئے
کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ نیب کی جانب سے احتساب
عدالت میں ریفرنس دائر ہونے پر احتساب عدالت کے سامنے یہ بات آئے کہ مدعا
علیہان یا کسی اور شخص کی طرف سے جمع کرایا گیا،کوئی ڈیڈ، دستاویز یا بیان
حلفی جعلی‘ جھوٹایا جعل سازی سے تیارکردہ ہے تو متعلقہ شخص کے خلاف قانون
کے مطابق ایکشن لیا جائے!
عدالتی فیصلے کے تحت‘ سابق ہوجانے والی وفاقی کابینہ میں شامل وزراءومشیران
اور ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے عدالتی فیصلے کو جانبدارانہ ‘ غیر منصفانہ
اورظالمانہ قرار دیتے ہوئے پانامہ کیس عدالتی فیصلے کیخلاف ”ریویو پٹیشن “
دائر کرنے کا عندیہ بھی دیا جس کے حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف
نے واضح کردیا کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار
دیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کا قانون ہی نہیں ہے مگر اس کے باوجود
مسلم لیگ ن کے رہنما قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ نواز شریف
چوتھی بار پھر پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے جبکہ عدالتی فیصلے
کے بعد مسلم لیگ (ن) لے اعلیٰ سطحی اجلاس میں مسلم لیگی رہنما ظفر علی شاہ
کی جانب سے قبل از وقت کی جانے والی یہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی کہ پارٹی
میں بہت سے اہل لوگ ہیں مگر میاں صاحب وزارت عظمیٰ کیلئے گھر کے بندے کو ہی
سامنی لائیں گے اور وہی ہوا !
نا اہل ہونے والے وزیر اعظم نے مسلم لیگ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنے
چھوٹے بھائی شہباز شریف کا نام نئے وزیراعظم کے طور پر پیش کرکے وزارت عظمی
کا عہدہ گھر میں ہی رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر نوازشریف کو اس مقام
لانے والے درباریوں نے جی حضوری کی روایت قائم رکھتے ہوئے شہباز شریف کے
نام پر وزارت عظمیٰ کیلئے فائنل کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ وزیر اعلی
پنجاب کو NA-130کی نشست سے انتخاب جتواکر وزارت عظمی کے عہدے کو گھر میں ہی
رکھنے کا نوازشریف کا آمرانہ فیصلہ نہال ہاشمی ‘عابد شیر علی ‘ طلا ل
چوہدری ‘ دانیال عزیز ‘ حنیف عباسی ‘ خواجہ سعد رفیق ‘ رانا ثناءاللہ ‘
خواجہ آصف ‘ مریم اورنگزیب‘ انوشہ رحمان اور منہ پھاڑ سر جھاڑ قسم کے دیگر
مسلم لیگی رہنماؤں کے دھمکی آمیز بیانات اور فوج وقومی سلامتی کے ضامن
ادارے آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے بیہودہ الزامات کی طرح احمقانہ ثابت
نہ ہوجائے کیونکہ ابھی تو شریف خاندان کے احتساب کا آغاز ہوا ہے۔ ابھی تو
عدالتی فیصلے کے مطابق نیب نے نوازشریف ‘ مریم نواز ‘ حسن نواز ’ حسین نواز
‘ کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کیخلاف ہی ریفرنس راولپنڈی اسلام آباد کی
احتساب عدالت کو نہیں بھیجنے بلکہ نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن
نواز اور اسحاق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میںبالواسطہ یا بلاواسطہ
معاونت فراہم کرنے کے جرم میں شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود قاضی، جاوید
کیانی اور سعید احمدکیخلاف بھی ریفرنس دائر کرنے ہیں اور جب یہ لوگ قانون
کے شکنجے میں آئیں گے تو اورکون کون سے ایسے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے جو
مسلم لیگ (ن) کی سیاست کیلئے زہر قاتل ثابت ہونگے ہیں۔بھی حقیقت ہے کہ
شہباز شریف پر پہلے ہی سے ریفرنس موجود ہین جبکہ حدیبیہ پیپر مل کیس میں
سامنے آنے والے شواہد کے بعد میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی نااہل
ہوسکتے ہیں جبکہ ایسے حالات میں جب عدالتی فیصلے کیساتھ ہی عابد شیر علی ‘
طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور آصف کرمانی جیسے جانثارو وفادار اچانک گدھے
کے سر سے سینگ ہوگئے وزارت عظمیٰ کی منزل تک پہنچنے کے 45روزہ سفر میں
نوازشریف و شہباز شریف کو بیچ مجدھار چھوڑ کر راہ بدلنے والوں میں مزید
کتنے کتنے لوگ شامل ہونگے ان کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا اور
اگر راہ بدلنے والوں میں اکثریت اراکین قومی اسمبلی کی ہوئی تو شہباز سریف
کیلئے وزیراعظم بننے اور نوازشریف کیلئے وزارت عظمیٰ کا عہدہ گھر ہی میں
رکھنے کے خواب کو عملی تعبیر دینا ہی ممکن نہیں رہے گا بلکہ قومی اسمبلی
میں حاصل اکثریت کی طرح پنجاب اسمبلی کی اکثریت اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ
بھی ان سے روٹھ جائے گی اور آئندہ انتخابات میں وفاق میں تو کیا پنجاب میں
بھی حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت کا حصول بھی مسلم لیگ (ن) کیلئے ممکن
نہیں رہے گا جبکہ اگر عوام نے عدالتی فیصلے کو انقلاب ‘ تبدیلی اور نجات کا
آغاز مان لیا تو میاں شہباز شریف کیلئے NA-130کی نشست پر کامیابی کا حصول
تک ممکن نہیں رہے گا کیونکہ ضمنی انتخابات سات روز بعد ہوں گے اور اس عرصہ
میں کیا کیا بدلتا جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا !
ان حالات میں ہم محترم میاں نوازشریف سے دست بستہ صرف یہی عرض کرسکتے ہیں
کہ وہ ان تما م چاپلوس مشیروں ‘ مفاد پرست دوستوں اور نافق احباب سے خود کو
محفوظ رکھیں جنہوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے میاں صاحب کے کردار کی
خوبیوں کو خامیوں میں تبدیل کرنے میں کسی فروگزاشت سے کام نہ لیتے ہوئے
انہیں اس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں ان کے آگے گڑھا اور پیچھے کھائی ہے
اسلئے نوازشریف کو ہمہ اقسام فیصلوں سے قبل زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا
چاہئے!
ان حالات میں پیپلز پارٹی کے کے چیئرمین بلاول بھٹوآئین کے آرٹیکل 62و 63پر
تحفظات کے اظہارباوجود پانامہ کیس کے فیصلے کو جمہوریت و ملکی بقاکا فیصلہ
اور قوم کی فتح قرار دیں یامریم نواز اور مریم اورنگزیب نوازشریف کو کرپشن
سے پاک قرار دیتے ہوئے نوازشریف کے بھرپور طاقت کیساتھ واپس آکر چوتھی بار
پھر وزیراعظم بننے کی نوید سنائیں ۔
سینئر قانون دان عاصمہ جہانگیر اور نوازشریف کے معتمد ‘ مربی ‘ محسن اور
مرید و جمیعت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن عدالتی فیصلے پر
تنقید کرتے ہوئے اسے سیاسی بحران پیدا کرنے کا ایجنڈہ قرار دیں یا تحریک
انصاف کے چیئرمین اسے سیاسی تاریخ کا معجزاتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ملک کی
طاقتور ترین شخصیت پر قانون کی گرفت و پکڑ کیلئے نفل نمازیں ادا کریں اور
عدالتی فیصلے کو تبدیلی کی بنیاد قرار دیں ۔
احسن اقبال ‘ خواجہ سعد رفیق ‘ خاقان عباسی ‘ زاہد حامد ‘ انوشہ رحمان ‘
چوہدری نثار اور دیگر مسلم لیگی رہنما پانامہ کیس کو پاکستان کیخلاف بیرونی
سازش قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کریں یاامیر جماعت
اسلامی سراج الحق عدالتی فیصلے کو جمہوریت پر 35سالہ قبضے کا خاتمہ قرار
دیں !
یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی وسیاسی سطح پر چند محدود و مخصوص طبقات کے سوا
تما م طبقات اور شعبہ جات سے وابستہ افراد نے پانامہ کیس کے عدالتی فیصلے
کو تاریخ ساز ‘ منصفانہ ‘ پاکستان کے محفوظ و پر امن اور کرپشن سے پاک
مستقبل کیلئے دور رس نتائج کا حامل فیصلہ قرار دیتے ہوئے مٹھائیاں تقسیم
کیں اور ملک بھر میں عدالتی فیصلے پر جشن منایا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت
ہے کہ پاکستان کے عوام نوازشریف سے اتنی محبت نہیں کرتے جتنی انہیں کرپشن
سے نفرت ہے کیونکہ کرپشن و کمیشن کی لعنت نے ایک عام پاکستانی سے اس کا
وقار ‘خوددار تشخص ‘ سہولیات اور حتیٰ کہ پر امن و محفوظ زندگی گزارنے کا
حق تک چھین لیا ہے اور ہر اس فرد کا احتساب اور اس سے نجات چاہتے ہیں جو
کسی بھی طرح سے کرپشن و کمیشن میں ملوث رہ کر عوامی وقومی مسائل ‘بحرانوں ‘
استحصال ‘ نا انصافی اور عدم تحفظ کا ذمہ دار ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پانامہ کیس فیصلے کو عوامی سطح پر بھرپور مقبولیت و پذیرائی
حاصل ہوئی ہے مگر اس فیصلے کے ذریعے عوامی امنگوں کی تکمیل ‘ عوامی اعتماد
کے تحفظ اور عوام کو دشمنوں ‘ ظالموں ‘ استحصالیوں اور مسائل و مصائب کے
ذمہ داروں سے نجات دلانے کا جو بار گراں عدلیہ نے اپنے کاندھوں پر لے لیا
ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اسے پاکستا ن میں موجود ہر کرپٹ فرد و قوت کا
احتساب کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو ‘
میدان سیاست سے ہو ‘ شعبہ صحافت سے ہو ‘ دفاعی ‘ تحفظاتی ‘ تعلیمی ‘ طبی ‘
انتظامی محکموں واداروں سے ہو یا انصاف کی فراہمی کے ذمہ داروں سے ہو!
عدلیہ کو سب کا بلا تفریق سب کا احتساب کرنا ہو گا اور آ ئندہ انتخابات میں
الیکشن کمیشن کو آئین کی شق 62اور 63پر یقینی عملدرآمد کا پابند بناکر ہرا
س فرد کا ایوان اقتدار و اختیار تک پہنچنے کا راستہ روکنا ہوگا جو کسی بھی
طرح اور کسی بھی وجہ سے صداقت و امانت کی آئینی اہلیت پر پورا اترنے سے
قاصر ہو اگر عدلیہ نے ایسا کیا تو وہ عوامی خواہشات اور قومی ضروریات کے
مطابق پاکستان میں انقلاب لاکر پاکستا ن کو حقیقی معنوں اسلامی ‘ جمہوری
اور فلاحی مملکت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی بصورت دیگر عدلیہ کا یہ تاریخی
فیصلہ بھٹو عدالتی قتل کی طرح تاریخ کا تاریک ترین فیصلہ اور جمہوریت و
ترقی کا قتل کہلائے گا ۔ |