جب ہم ذرا کم کم عقلمند ہوا کرتے تھے‘‘،،،کسی نے ہم سے
کہا‘‘،،،بھائی صاحب آپ فیس بک سے کتنی جان کاری
رکھتے ہیں‘‘،،،ہم ٹھہرے سدا کے شاعرانہ طبیعت کے انسان‘‘‘،،،ہم جھٹ سے بولے
کہ کہیں وہ ہمیں کوڑھ مغز نہ
سمجھ لے‘‘،،،کوئی بھی کتابی چہرہ فیس بک ہی ہو گا‘‘،،،،
پوچھنے والے نے ایسے سر ہلایا جیسے قوم نے نواز شریف کے کشکول توڑنے کے
اعلان کو سن کر ہلایا تھا‘‘،،،خیر ہمیں
اپنی دانش پر پورا بھروسا تھا‘‘،،،اسی لیے ہمیں اس کے سر کی حرکت سے کوئی
سروکار نہ تھا‘‘،،،پہلے شاعر حضرات
کسی دل کی واردات کے لیے موسم،،،شادی،،،عید،،یا کسی فنکشن کا انتظار کیا
کرتے تھے‘‘،،،اس کے بعد کوئی واردات ہو جایا کرتی تھی‘‘،،،پتا چلتا
تھا‘‘،،،کہ پوئٹ بھائی عین سٹیج پر پہلی بیوی سے پٹ جایا کرتے تھے‘‘،،،
مگر اب یہ دل کی واردات والا کا م فیس بک نے اپنے ذمے لے لیا ہے‘‘،،،اگر
شادی کامیاب ہو گئی تو سب اچھا ‘‘،،،
ورنہ ایسی نیوز بناتے ہیں‘‘،،،فیس بک کی محبت کا انجام‘‘،،،لڑکی نے شادی کے
پہلے ہی دن لڑکے کو دہر فٹے منہ کہہ دیا‘‘،،،ملتان کی لڑکی کراچی میں دربدر
کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور‘‘،،،،پولیس نے لڑکی کو دارلامان بھیج دیا‘‘،،،
غرض ہر واردات فیس بک کے کھاتےمیں ڈال دی گئی‘‘،،،،مگر یہ پتانہ چل سکا
آجکل کہ کتنے جوڑے ہنسی خوشی
رہ رہے ہیں‘‘،،،کون کون موج کررہا ہے‘‘،،،فیس بک نہ ہوگئی سوتیلی ماں
ہوگئی‘‘،،،
ہر حسینہ فیس سے ہی بک ہو جاتی ہے‘‘،،،مگر کیا کیجئے دو دن میں ہی نانی یاد
آجاتی ہے‘‘،،،بھائی ہم تو یہی کہتے ہیں‘‘،،،کہ پراٹھا اور عشق گرم ہی اچھے
لگتے ہیں‘‘،،،فیس بک پر پراٹھا تو ملتا نہیں ورنہ ہم اسے دن رات یوز
کرتے‘‘،،،
ویسے اس کا نام بدل دینا چاہیے‘‘،،،جیسے کہ آتے جاؤ پھنستے جاؤ‘‘،،،دور کے
ڈھول سہانے‘‘،،، آم کے آم گھٹلیوں کےدام‘‘‘‘،،،،،،اب فرنگی ہماری یہ
ایڈوائز تو لینے سے رہے‘‘،،،،پھر بھی ہم آج تک سمجھ نہیں پائے‘‘،،،کہ اگر
فیس بک بلاک یا ہیک ہو جائے‘‘،،،یا اپریٹ نہ ہوسکے‘‘،،،سوسائٹی میں اک
بھونچال سا آجاتاہے‘‘،،،ہرکوئی ایسے بوکھلایا نظرآتا ہے‘‘،،،جیسے بجلی کا
بل مہینے میں دو بار آگیا ہو‘‘۔۔۔۔۔۔
|