اطہر اعظمی کے شعری مجموعہ’فکر‘ پرایک تاثر

خاص بات یہ بھی کہ ان کے یہاں سنجیدگی ، متانت اور بردباری کی وہ لہریں صاف نظر آتی ہیں جو مسائل کی تحلیل کیلئے ضروری ہیں ۔سیدھا سادا اور راست بیانیہ آج کی ضرورت ہے وہ اسی پر زور دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ ابہام و ایہام سے بڑی حد تک گریز کرتے ہیں ۔وہ شاعری کو شوق یا تفریح کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ اصلاح معاشرہ کیلئے ایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں سختی و کسیلے پن کا بھی احساس ہوتا ہے ۔

تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : فکر ( شعری مجموعہ )
شاعر : اطہر اعظمی ( موبائل : 892546875)
قیمت : 200/-روپئے ۔صفحات : 156
ملنے کے پتے : 241/19،اے ، گیٹ نمبر ۵،مالونی ملاڈ ویسٹ ،ممبئی ۹۵۔سیفی بک ایجنسی
،امین بلڈنگ ،جے جے روڈ،ممبئی ۹۔کتاب دار108/110جلال
منزل ،ٹیمکر اسٹریٹ ، ممبئی ۸
اس شعری مجموعے کے خالق اطہر اعظمی ہیں جو ایک عرصہ ٔ دراز سےعروس البلاد ( ممبئی ) میں مقیم ہیں ۔نسلی و ارضی اعتبار سے ان کا تعلق اعظم گزھ کی اس سرزمین سے ہے جو زمانہ ٔ قدیم سے مختلف علوم و فنون ،خصوصاً ادبیات و اسلامیات کے ماہرین اور شہسواروں کا مسکن رہا ہے ۔یہاں کے بیشتر اہل علم و فکر میں جولانی ٔ طبع کے ساتھ ایک خاص ندرت اور زاویہ ٔ نظر ان کی انفرادیت میں نمایاں رول ادا کرتا رہا ہے،جس کے تعلق سے مولانا اقبال سہیل نے کبھی کہا تھا ۔’جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے‘ ۔یہ انفرادیت بھی کلی نہیں جزوی تھی، اب یہ بھی زوال پذیر ہے لیکن یہ زوال جزوی نہیں ،کلی ہے ،کیونکہ قدروں کا انحطاط تو عالمی سطح پر جاری ہے ۔اطہر اعظمی اہل ادب کے درمیان اجنبی نہیں ،رسائل و جرائد میں ان کے کلام کی اشاعت اور اور ممبئی کی ادبی نشستوں میں ا ن کی شمولیت نے انہیں نہ اجنبی رہنے دیا نہ ہی غیر معروف ۔ان کے کلام میں فلسفیانہ موشگافیاں اور علمی نقاط پر بھلے ہی زور کم دیا گیا ہو لیکن سیدھے سادے اور سرل انداز نے ان کے یہاں شگفتگی اور اثر انگیزی ضرور پیدا کردی ہے ۔وہ اپنے سینے میں ایک حساس دل رکھتے ہیں اور ظاہر ہے شاعری احساس کے بغیر کہاں ،یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تہذیب و معاشرت کا پہلو نمایاں ہے وہ بار بار معاشرے کو اسی اقدار کا خوگر بننے پر زور دیتے ہیں جس کی عدم موجودگی نے آج پوری انسانی تہذیب کو ہی پامال کرکے رکھ دیا ہے ۔ماضی سے ربط ،حال کی آگہی اور مستقبل پر گہری نظر نفیس و معیاری ادب کی تخلیق کیلئے ضروری ہے ،اس کے بغیر جو بھی خلق ہوگا وہ ادب تو ہوسکتا ہے ادب عالیہ نہیں ۔اطہر اعظمی بھلےوہاں تک نہ پہنچے ہوں لیکن یہی کیا کم ہے کہ وہ اس سمت کے راہی تو ہیں ۔عبید اعظم اعظمی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’’ اطہر اعظمی کی شاعری محض حالات حاضرہ کا نشریہ نہیں ہے بلکہ اس میں مستقبل کی سمتیں اور مسائل صاف نظر آتے ہیں ۔وہ ایک بیدار ذہن انسان ہیں ان کے مزاج کی سچائی اور بیداری جگہ جگہ ان کی شاعری سے نمایاں ہے،ان کا بیباک قلم انہیں حقیقت نگاری اور حق بیانی سے چشم پوشی نہیں کرنے دیتا ۔‘‘

خاص بات یہ بھی کہ ان کے یہاں سنجیدگی ، متانت اور بردباری کی وہ لہریں صاف نظر آتی ہیں جو مسائل کی تحلیل کیلئے ضروری ہیں ۔سیدھا سادا اور راست بیانیہ آج کی ضرورت ہے وہ اسی پر زور دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ ابہام و ایہام سے بڑی حد تک گریز کرتے ہیں ۔وہ شاعری کو شوق یا تفریح کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ اصلاح معاشرہ کیلئے ایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں سختی و کسیلے پن کا بھی احساس ہوتا ہے ۔جہاں تک طرز نگارش اور زبان کا معاملہ ہے ہر صنف سخن میں انہوں نے عام فہم اور سہل تر اسلوب کو ترجیح دی ہے جو آج کی ضرورت بھی ہے ۔ چند اشعار بطور تمثیل یہاں درج ہیںآپ خود ہی دیکھ لیں، کیونکہ خوب و ناخوب کا فیصلہ بہر صورت آپ کو ہی کرنا ہے ۔
ترے آئینہ ٔ وحدت کی وسعت رہے محجوب بھی روشن بھی سب میں
انگلی اٹھائیں غیر پہ پر اس سے قبل خود اپنا قدم بھی دیکھئے کیا اپنی حد میں ہے
خوں پسینہ بہا اسامی کا پھر زمیندار کو لگان ملی
رہا عروج کا دن تو سبھی چلے ہمراہ ہوئی جو شام تو سایہ بھی ساتھ چھوڑگیا
آج کے خود ساختہ سردار کا امتحاں میداں میں کل ہوجائے گا
بالمشافہ ( بابو آر کے کی طنزو مزاح پر مبنی کتاب )
بابو آر کے اردو قبیلے والوں کیلئے محتاج تعارف نہیں وہ ایک عرصے سے مختلف رسائل و اخبارات کیلئےلکھ رہے ہیں ان کی طنزو مزاح پر مبنی تحریریں قاری پر ایک خاص رنگ قائم کرتی ہیں ،وہ زندگی کو کڑوی کسیلی نگاہوں سے نہیں بڑی محبت سے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب زندگی کے رنگا رنگ پیکر اور زاویئے ان کی نگاہوں سے سرسراتے ہوئے گزرتے ہیں تو وہ اس پر سرسری نہیں گہری نظر ڈالتےہیں اورسارے نشیب وفراز کا بخوبی تجزیہ کرتےہوئے قابل قبول حل بھی پیش کردیتے ہیں ۔بالمشافہ ان کی تازہ کتاب ہے اس سے قبل بھی ان کی متعدد کتابیں منظر عام ہوچکی ہیں ۔طنز و مزاح جیسےموضوع پر قلم اٹھانا آسان کام نہیں ، لیکن بابو آرکے کی تحریریں بتاتی ہیں کہ وہ یہ مشکل کام بڑی آسانی سےکرلیتے ہیں ۔معاشرے میں پھیلی کثافتوں کا تجزیہ بڑے خوبصورت ڈھنگ سے کرتے ہیں اور اس طرح کہ توازن بھی قائم رہے اور نشتر زنی کا کام بھی ہو جائے ، ان کی نشتریت پر صحت مندی کا رجحان غالب رہتا ہے وہ انتشار و افتراق کی فضا سے بچتے ہوئے تعمیری پہلو پر توجہ دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ ان کی تحریروں میں ایک ایسی انجذابی کیفیت ابھرتی ہے جس سے قاری نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے اندر سماجی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کر گزرنے کی قوت بھی بیدار ہوتی ہے ۔بابو کی طنزو مزاح میں ڈوبی تحریریں یوں تو سبھی کیلئے ہیں لیکن بچوں کیلئے ان کی تحریریں اختصاص کا درجہ اختیار کرلیتی ہیں اس وقت ان کے قلم کی شوخی قابل دید ہوجاتی ہے ،الف سے اونٹ اور آؤ سوچیں جیسی کتابیں اس کی مثال ہیں۔’ خطا معاف’ ہوبہو‘ اور ’بالمشافہ ‘ میں وہ مزید کھل کر سامنے آئے ہیں جہاں وہ طنز و مزاح کے سنجیدہ تیر چلاتے دکھائی دیتے ہیں ۔بالمشافہ سے ایک اقتباس دیکھئے ۔

’’ہمارے سماج میں سرکاری نل ایک مہان درجہ رکھتا ہے اور یہی سرکاری نل ہمارے بھارتیہ سماج کا اٹوٹ انگ بھی ہیں لیکن آپ لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اسی اٹوٹ انگ سے ہمارے انگ انگ بھی ٹوٹ رہے ہیں ،انہی سرکاری نلوں پر پانی کیلئے ہمارے پیروں پر پلاسٹر اور سروں پر پٹیاں بندھ رہی ہیں ۔انہی سرکاری نلوں کی آغوش میں ہنسا ،عدم تعاون ، دادا گیری اور مارا ماری نے جنم لیا ہے ۔ان نلوں کا خونی اتہاس گواہ ہے کہ ان سے پانی کے دھارے تو کبھی کبھار ہی پھوٹتے ہیں لیکن خون کے دھارے ہمیشہ چھوٹے ہیں ۔ ‘‘
بابو آر کے کی تحریروں میں سرلتا اور شگفتگی کا بار بار تجربہ ہوتا ہے تو وہیں تحیر خیزی اور چونکا دینے والا انداز بھی اجاگر ہوتا ہے جس سے قاری کے خون کی گردش بڑھ جاتی ہے، پراثر اور مفید تحریروں کیلئے یہ اچھے عناصر ہیں جس کا اچھا خاصا حصہ بابو کو قدرت نے فراہم کیا ہے ۔ ۱۲۰؍صفحات کی یہ کتاب صرف ۱۰۰؍ روپئے میں رحمانی پبلی کیشنز مالیگاؤں میں دستیاب ہے ۔رابطے کیلئے نمبر : 9270704505/9890801886

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.