صحافت اور رشتوں اَن سنی کہانی -’لفظوں کا لہو ‘

 اطہر معین ندوی
متعلم ( بی .اے )اے ایم یو علی گڑھ ، یوپی
جولائی کے مہینے میں بارش کی ایک شام میں اپنے سینئر مگر بے تکلف ساتھی نایاب حسن قاسمی کی رہا ئش گاہ پر بیٹھا ان سے محو گفتگو تھا کہ اچانک میری نظر سلمان عبد الصمد کی تخلیق ’’لفظوں کا لہو‘‘(دوسرا ایڈیشن)پر پڑی۔ تخلیق کارسے ناواقفیت کے باوجود کتاب کو پڑھنے اور تخلیق کار کو جاننے کا شوق ہوا۔پھر کیا تھا ان سے اجازت لے کر اپنی قیام گاہ لوٹا۔ ناول میں ایسی کشش اورجاذبیت تھی کہ بعض اہم مصروفیات کے باوجود صرف دو یا ڈھائی دن میں مکمل ناول پڑھ لیااوراس کے متعلق بے ساختہ چند جملے جو میرے ذہن میں آئے ، انھیں سپرد قلم کر دیا ۔

سلمان عبدالصمد کا ہ ناول ایک عمدہ ناول ہے،اس کے آ ئینہ میں ہم ہندوستان کے صحافتی واردات کے متعدد عکس دیکھ سکتے ہیں۔اس میں انہوں نے نائلہ کی زبانی صحافت کا تعارف کراتے ہوئے، صحافت کی اہمیت، دور جدید کا اخباری نظام، خبر نویسی، خبر ی لوازمات، صحافی کا کام، رپورٹنگ کی اہمیت، صحافت و سیاست کے میدان میں ہونے والی ظلم و بر بریت، فریب کاری ودھوکہ دہی، بے روزگاری، بد عنوانی، حکومت کی کوتاہ بینی، ایڈیٹر کی چاپلوسی،لا قونونیت، خود غرضی، محنت اور رسوائی، صحافی کو پیش آنے والے مسائل، عصر جدید میں پنپنے والے فتنے اور مادیت پرست معاشرہ کا بہترین نقشہ کھینچا ہے، صحافتی دنیا میں ہونے والی سوداگری کا معاملہ فلسفیانیہ انداز میں زیر بحث لایا ہے۔ صحافت کے پردے میں ہونے والی کارستانی کا بر ملا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے بعض جگہ مکالموں کے انداز میں بہترین اور عمدہ سوالات قائم کئے ہیں اور اچھے معاشرہ کے قیام کے لئے عورتوں کے ذہن ودماغ میں اٹھنے اور رسنے والے سوالات و جوابات اور انکی خواہشات و ارمان کو نہایت خوبصورت اندازمیں بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے عورتوں کی نفسیات،جذبات و احساسات کو قریب سے سمجھا اور پر کھا ہے۔ عورتوں کے تعلق سے ان کی سوچ بڑی بلند ہے، رشتوں کے تعلق سے ا ن کی حساس ذہنیت و طبیعت،صاف گوئی، بے باکی اور تلخ سچائی انکی عبارتوں سے آشکارا ہے ۔ ناول کا کردار محسن سعودی جانے کے بعد اپنی بیوی نائلہکو خط لکھتا ہے :
’’نائلہ ---- !
اپنے ملک کی سرحد سے نکلنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید میں انسانی دائرے سے بھی نکل گیا ہوں۔ نائلہ ! جب کوئی فرد مسلسل جرم کرتا ہے تو وہ سچ مچ انسان نہیں رہتا ، حیوان بن جاتا ہے۔اس لیے اسے انسانی معاشرہ سے الگ کردیا جاتا ہے ، تاکہ وہ اپنے آپ کو بدل سکے۔ انسانی معاشرے سے دور اسے کال کوٹھری میں رکھا جاتا ہے ،یہ اس کے لیے سزا ہوتی ہے ، مگر سعودی میں میرے ساتھ ․․․․․‘‘ (لفظوں کا لہو ، صفحہ نمبر 85)

انسانیت وغمخواری کے علاوہ رشتوں کی پاسداری کے تئیں مختلف مقامات پر بڑ ی عمدگی سے بحث کی ہے ۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے انسانی رشتوں پر زبردست فلسفیانہ نظریات پیش کئے ۔ ان کے فلسفے جہاں تخلیق کی معنویت واضح کرتے ہیں ، وہیں ہمیں سماجی رویوں پر بھی غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس طرح انھوں نے زبان کی سطح پر بھی عمدگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ جستہ جستہ استعمال ہونے والی دیہاتی زبان میں بھی بڑی شگفتگی پائی جاتی ہے ،جسے پڑھ کر قاری ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔
یہ ناول رنگ و نور کی ایک نئی اور عجیب دنیا رکھتا ہے جسے دیکھ کر قاری دنگ اور حیران رہ جاتا ہے۔کتاب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناول نگار الفاظ کے زیر و بم، اتار چڑھاؤ، اسکی جدت و ندرت، جملوں کی شائستگی،شگفتگی و شستگی سے نہ صرف شناسا بلکہ جزئیات نگاری انکا نمایاں وصف ہے۔ وہ ناول نویسی کے جدید رجحانات سے بھی واقف ہے۔ انہوں نے واقعات کی کڑیاں خوبصورت و دلکش انداز سے جوڑی ہیں۔انکے یہا ں ناول کے تمام لوازمات موجود ہیں۔انہوں نے نت نئی تعبیرات و تشبیہات کو بہت خوش اسلوبی سے اپنے جملوں میں استعمال کیاہے، انکا انداز تحریر بیانیہ ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ موصوف رچا ہو ا فنی شعور رکھتے ہیں۔ البتہ ان جملہ فنی محاسن کے درمیا ن جو ایک بات کھٹکتی ہے وہ مصنف کا اسلوب ہے،جس میں اردو الفاظ کے ساتھ ساتھ دیہاتی اور انگریزی الفاظ کی آمیزش ہے۔

ہر فن کار و تخلیق کارکی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اپنے فن و تخلیق کو وہ اس طرح سے پیش کرے کہ وہ کمال کی انتہائی بلندیوں پر نظر آئے اور یہ تمنا اس وقت پوری ہو سکتی ہے کہ فن کار اپنی تخلیق پر خون جگر صرف کرے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان عبد الصمد نے جس دیدہ ریزی، لگن، دلجمعی اور محنت کے ساتھ اپنا خون جگر صرف کیا ہے وہ اس کتاب کے حرف حرف سے عیاں ہے۔انشاء اﷲ انکی کو ششیں ضرور بار آور ہوگی۔ یہ ناول اپنی نو عیت کا منفرد ناول ہے،ناول نگاری کے فن میں یہ ایک اجتہادی کاوش ہے۔ پوری کتاب کے مطالعے کے بعدپتاچلتا ہے کہ’لفظوں کا لہو‘کی تخلیق مصنف کے عمیق مشاہدات و تجربات،احساسات کے گہرے سمندرمیں غوطہ خوری کا نتیجہ ہے۔

ناول کے لئے انہوں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے اور جس طرز میں اسے پیش کیا ہے،وہ خود ان کو دوسرے ناول نگار اورتخلیق کاروں سے ممتاز کرتا ہے۔اس کتاب میں اس طرح کی کہانیاں نہیں ہیں کہ ایک تھا را جہ، ایک تھی رانی، دونوں مرگئے ختم کہانی، بلکہ اس کتاب کی ہر کہانی آخر میں پڑھنے والوں کو ایک پیغام دیتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔جیساکہ کتاب کے اندر محسن کی کہانی نائلہ کو اور نائلہ کی کہانی نیلا اور زنیرہ کو سوچنے پر مجبور کر تی ہے۔عموما کتابوں کے آغاز میں طویل تمہید، پیش لفظ، مصنف و مؤ لف کی آراء و غیرہ کئی صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں، مگر سلما ن عبد الصمد کا یہ ناول ان روایا ت سے با لکل جدا ہے۔ اس میں انسانی فطرت کا بھی خیال رکھا گیا ہے جس سے وہ لطف اندوز ہو سکیں، یہ کتاب کل ۲۲۱ صفحات پر مشتمل ہے،سر ورق بھی کافی دیدہ زیب،جاذب نظر اور پر کشش ہے،شاندار طباعت کے باوجود قیمت صرف سو رو پیہے جو ناول سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت کم ہے۔یہ ناول باذوق انسان کوپڑھناچاہیے۔ناول کے لیے تخلیق کار کارابطہ نمبر 9810318692 یہ ہے ۔
 

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100976 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More