حکمران اور احتساب

پانامہ ہنگامہ گزشتہ برس ماہ ِ اپریل سے جاری ہے۔ جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہلچل کی فضا پیدا کردی ہے۔ اس ہنگامہ میں شریف خان دان سمیت ملک کی 250 بااثر شخصیات زد میں آئیں۔کئی ملکوں میں عوامی عہدوں پر فائز افراد پانامہ لیکس سے متاثر ہونے کے بعد فوراً مستعفی ہوگئے ۔ جب کہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہوا، یعنی شریف خان دان اس کے خلاف ڈٹ گیا۔پس دھرنوں کے کھلاڑی نے وزیراعظم سے استعفیٰ دلوانے کے لئے دھرنا ’’ٹو‘‘ کا اعلان کردیا جس سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر چڑھ گیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے چارماہ کا ریکارڈ ساز دھرنا ’’ون ‘‘ دیا تھا۔ یوں اس کے دھرنے کا تجربہ موجود تھا۔ اس سیاسی درجہ حرارت میں کمی اس وقت آئی جب عدالت عظمیٰ نے اپنا مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے پانامہ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر شروع کردی۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جنہوں نے اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی 2017 کو جمع کروادی۔ جس کے بعد کیس کی مزید سماعت پانچ روز جاری رہی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا جو مناسب وقت پر سنا دیا جائے گا۔ یہ مستقبل کی باتیں ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا اور اس پر مسلم لیگ (ن) ، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کا کیا رد عمل ہوگا۔ لیکن اس ساری صورت حال میں راقم نے جو بات خاص طور پر نوٹ کی وہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کی پانامہ ہنگامہ کے حوالے سے وہ مثالیں ہیں جن میں باہر دنیاکے عوامی عہدہ رکھنے والوں کے استعفوں یا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں دی جاتی ہیں۔ یعنی فلاں ملک کا وزیراعظم مستعفی ہوگیا اور فلاں نے عہدہ چھوڑ دیا۔ تاریخ اسلام میں حکمرانوں اور احتساب سے متعلق اَن گنت واقعات ملتے ہیں۔

ایک مرتبہ خلیفہ دوم حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد میں منبر رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوگیااور کہا ۔ ’’اے عمر ؓ ! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا‘‘۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا موجود ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے ۔ آپ ؓ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بابا کو جو کپڑا بیت المال سے ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا۔ اس سے اُن کا لباس تیار نہیں ہوسکتا تھا اور ان کے پاس جو پہننے کے لئے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہوچکا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ یہ ہیں تاریخ اسلام کی روشن مثالیں ، جب کوئی بھی شخص خلیفہ وقت کا احتساب سر عام اور بلا خوف و جھجک کر سکتا تھا۔ ذرا سو چیے کہ وہ حکمران جس کی سلطنت بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلیہو اور جس کے رعب اور دبدبہ سے مشرکین کے پاؤں کانپنے لگتیہوں لیکن جب احتساب کا معاملہ آیا تو ایک غریب شخص نے بھرے مجمع میں زیادہ کپڑے کا احتساب مانگ لیا اور آپ ؓ نے فوراً خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا۔ یاد رہے خلیفہ دوم حضرت سیدنا فارق اعظم ؓ کے دور میں اہم خدمات کے لئے عہدیداروں کا اتخاب مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہوتا تھا۔ اور شخص تمام ارکان کی جانب سے منتخب ہوتا تو وہ اس خدمت پر مامور کیا جاتا۔ جب کوئی گورنر مقرر ہوتا تو اس کو ایک فرمان تقرری عطا ہوتا جس میں اس کی تقرری ، اختیارات اور فرائض کا ذکر ہوتا تھا۔اور جس کو مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا۔ اس کے علاوہ تقرری کے وقت اس پاس جس قدر مال و اسباب ہوتا اس کی مفصل فہرست تیار کی جاتی اور اگر گورنر کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا تو اس سے مواخذہ کیا جاتا تھا۔ ان تمام واقعات سے میری مراد پانامہ ہنگامہ جو پچھلے ڈیڑھ برس سے جاری ہے اور روزانہ سیاسی رہنما اور کارکن احتساب کے حوالے سے باہر دنیا کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں وزیراعظم مستعفی ہوگیا اور فلاں نے خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا۔ جس کی بنیادی وجہ ہماری اسلام سے دوری ہے اور ہم اقتدار اسلام کے لئے نہیں بلکہ اسلام آباد کے لئے چاہتے ہیں۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.