پاناما کیس کی کاز لسٹ کل لگا دی گئی تھی تمام متعلقہ
حضرات جس میں درخواست گزار، سراج الحق صاحب، عمران خان صاحب اور شیخ رشید
صاحب اور مدعا علیہان اور وکلا کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کر دیے گئے
تھے۔ ساڑھے گیارہ بجے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی لارجر بینچ، جسٹس آصف
سعیدکھوسہ صاحب کی سربراہی جس میں جناب جسٹس اعجاز الحسن صاحب، جسٹس گلزار
احمد صاحب،جسٹس اعجاز افضل صاحب اورجسٹس شیخ عظمت سعید صاحب شامل ہیں، نے
بلا آخر عوام کی امگوں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔
فیصلہ آیا کہ نیپ دو ہفتے کے اندر مریم نواز، اسحاق ڈار اورکپٹن صفدر کے
خلاف ریفرنس داہر کرے۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے عملہ نے کمرہ عدالت نمبر ون
میں پاناما کیس کا ریکارڈ پہنچا دیا۔کمرہ کھچا کھچ بھر گیا جس میں ملکی اور
انٹرنیشنل میڈیا موجود تھا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقی رپورٹ پیش کرنے کے بعد
فریقین کو سن کر انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے اکیس جولائی کو سپریم کورٹ
کے معزز ججوں نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس قبل پہلے ۳۰ ؍اپریل کے فیصلہ
میں دو ججوں نے وزیر اعظم کو نااہل قررار دیا اور تین ججوں نے وزیر اعظم کو
منی ٹریل کے ثبوت فراہم کرنے کے لیے ساٹھ دن کا موقعہ فراہم کیا۔ جس کے تحت
جے آئی ٹی بنی۔ جے آئی ٹی نے انصاف کے تقاضے پورا کرتے ہوئے وزیر اعظم اور
ان کے بچوں کو منی ٹریل کے ثبوت پیش کرنے کا پورہ موقعہ دیا اور مقررہ وقت
میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عدالت عالیہ کے سامنے پیش کر دی۔ نواز
شریف نے کاز لسٹ آنے پر وزیر اعظم ہاؤس میں قریبی رفقاء کا اجلاس طلب کیا
جس میں آئندہ کے لیے مشورے کیے۔ اس اجلاس میں اٹارنی جنرل قانونی مشاورت کے
لئے شریک ہوئے۔ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس اورکاز لسٹ کے آنے کے بعد
الیکٹرونک میڈیا پر اینکرز نے اپنے اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کیے۔ اُدھر
نوازلیگ کے کچھ وزرا نے باہر ملک جانے کے لیے ویزے لگوا لیے۔وزیر داخلہ نے
اپنی پریس کانفرنس میں نواز شریف کو جارچ شیٹ جاری کی اور کہا چند دن بعد
کھل کر میڈیا سے بات کروں گا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت پینتیس سال سے سرتاج
عزیز،مہتاب عباسی اور میں سینئر ترین نون لیگی اور نواز شریف کے ساتھی ہیں
باقی سب اِدھر اُدھر ہو گئے ۔ حالت یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ سے مجھے بھی مشاوارت
کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں نہیں بلایا گیا۔پینتالیس اجلاسوں میں صرف تین
اجلاس میں بلایا گیا۔ کہا کہ میں نے ہمیشہ نواز شریف کوصحیح مشورے دیے۔
مجھے منافقت نہیں آتی۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاناما کیس آنے کے بعد قومی
اسمبلی کی سیٹ اور وزارت داخلہ سے استعفیٰ دے دوں گا۔ اگر نواز شریف پاناما
کیس میں جیت گئے تو وزیر اعظم ہاؤس میں جاکر مبارک باد دوں گا۔ اور
خداناخاستہ نواز شریف کیس ہارگئے تو میں کسی عہدے کا امیدوار نہیں ہوں گا
عزت پیاری ہے کوئی عہدہ نہیں!۔میں نواز شریف کو مشورہ دیتا ہوں کہ جیتنے کی
شکل میں ارد گرد کے لوگوں کے مشورے پر کسی کی گردن زنی نہ کرنا اور ہارنے
کی شکل میں تحمل سے برداشت کا مظاہرہ کرنا۔ اداروں سے لڑائی لینے میں ملک
کا نقصان ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو قبول کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان
پر کالے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ پارٹی پر اس وقت سخت مشکل وقت ہے میں
پارٹی سے کیوں الگ ہوں؟ بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں میں ان سے اتفاق کرتا
ہوں۔ ڈان لیک میں بھی کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو غلط مشورے دیے گئے۔ میں نے
ہمیشہ اداروں کے درمیان اتحاد اتفاق کا کہا۔ میرے فوجی بیک گرؤنڈ کی وجہ سے
میرے ساتھ یہ رویہ رکھا جارہا ہے لیکن مگر مجھے اپنے فوجی بیک گرونڈ پر فخر
ہے۔امیر جماعت اسلامی نے فیصلہ سے پہلے سپرہم کورٹ کے باہر عوام سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ کے بعد پاکستان میں کرپٹ عناصر کے
خلاف کاروائی کرے تاکہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو۔ پاکستان کی دکھیا
عوام جو کرپشن، مہنگائی لوڈشیڈنگ،امن وامان اور بیروزگاری کی ماری ہوئی ہے
۔ انصاف کے لیے عوام کی نظریں اپنی عظیم سپریم کورٹ کے فیصلہ کی طرف لگی
ہوئی تھی۔ اس لیے الیکٹرونگ میڈیا نے اس اہم کیس کی ریپورٹنگ کے لیے خصوصی
پروگرام کیے جس میں فیصلہ کی پل پل کی خبر عوام کے سامنے رکھیں۔ اُدھر
عمران خان نے سپریم کورٹ آنے سے رک گئے کیونکہ ان کی گرفتاری کا امکان تھا۔
وہ گھر میں ہی بیٹھ کر سپریم کورٹ کی کاروائی سنیں گے ۔ مریم اورنگزیب
صاحبہ سپریم کورٹ آئیں اور کہ پہلے دن سے معلوم ہے کہ وزیر اعظم سرخ رو
ہونگے۔ مریم نواز شریف اور نواز شریف کے بچے بھی سپریم کورٹ میں فیصلہ سننے
کے لیے آئے۔ الیکٹرونگ میڈیا میں ڈسکس ہو رہا ہے کہ خواجہ آصف امریکا میں
ہیں شاید نام نہاد جمہورت کے خلاف سازش میں مدد کی کوشش کر رہے ہوں۔ عابد
شیر علی سپریم کورٹ کے باہر کہتے رہے کہ نواز شریف پر کرپشن کا کوئی الزام
نہیں ہے۔ہاں الزام ہے کہ نواز شریف نے پاکستان میں بجلی پیدا کروا کر
اندھیرے ختم کیے۔ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور شروع کیا۔ سڑکوں کے جال
پچھائے۔بھائی اگر کرپشن کا الزام نہیں تو یہ کیس کیوں چل رہا ہے۔ لندن
فلیٹس کی منی ٹریل کیوں مانگی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ سپریم کورٹ کا
فیصلہ قبول تھا۔ کورٹ سے نواز شریف کا سیاسی تابوت نکلنا تھا۔۔۔شیخ صاحب!
قانون کے مطابق سب فریقین کو فیصلہ کو قبول کرنا تھا۔ کیا کوئی ہے جو سپریم
کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں کرے گا؟، سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے
آئینی اختیارات موجود تھے۔الیکٹرونک میڈیا کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کا مریم
نواز کو وزیر اعظم بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔نواز شریف کی کرپٹ سیاست
کا خاتمہ ہو گیا۔ وزیر داخلہ نے پنجاب ہاؤ س میں بیٹھ کر فیصلہ سنا۔ سپریم
کورٹ کے باہر پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے کارکن ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی
کرتے رہے۔ پولیس ان کو آمنے سامنے آنے سے روکتے رہے۔سپریم کورٹ اور ریڈ زون
میں تین ہزار پولیس فورس، ایف سی اوررینجرز بھی موجودر ہے روٹین سے زیادہ
سیکورٹی کا انتظام کیا گیا۔ |