روک سکو تو روک لو

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلیت کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ماہرین قانون کی آراء منقسم ہیں اکثریتی طبقہ اس فیصلہ پر حیرت کا اظہار کررہا ہے پانامہ سے اقامہ تک کو ایک ایسا کھیل قرار دے رہا ہے جس کا واحد مقصد نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کو نکڑے لگانا تھا نواز شریف اور ان کے قریبی رفقاء گزشتہ کئی ماہ سے جس سازش کا رونا رورہے تھے اگر شیخ رشید احمد کے اس ذو معنی جملے کو سچ مان لیا جائے کہ اس فیصلے پر سب سے زیادہ لڈو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے من میں پھوٹے ہیں تو پھر یقیناًنقب بھی گھر کے اندر سے لگی ہے ۔

اقتدار کی غلام گردشوں میں ساز شوں کے جال ہمیشہ سے بنے جاتے رہے ہیں اُکھاڑ پچھاڑ کا نہ یہ کھیل نیا ہے اور نہ ہی نوازشریف نے پہلی بار سیاسی شطرنج کی بساط پر مات کھائی ہے تاہم اس بار انہوں نے چوہدری نثار کے مشورے پر بہت دیر سے سہی مگر عمل کرلیا کہ محاذ آرائی کا راستہ نہ اپنایا جائے اگر وہ اس مشورے کو پہلے مان لیتے تو شاید آج اس قدر سیاسی بدحالی کا شکار نہ ہوتے ۔ مریم نواز نے درست کہا کہ نوازشریف ایک بار پھر پوری طاقت سے واپس لوٹیں گے ۔۔۔اس کا امکان موجود ہے اگر اس سازش نے رائے ونڈ کے محلات سے باہر جنم لیا ہوا کیونکہ سارے زخم بھر جاتے ہیں لیکن بروٹس کے خنجر سے زخمی ہونے والے کو تاریخ نے پھر کبھی اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے نہیں دیکھا وہ آہ ’’بروٹس یو ٹو‘‘ بھی بہ مشکل ہی کہہ پاتا ہے ۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی اس کے بارے میں ابھی تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس کا اندازہ مستقبل قریب کے اقدامات سے ہوگا اگر نوازشریف کی نااہلی کے بعد احتساب کا نعرہ دم توڑ جاتا ہے اور تلوار صرف شیر یف خاندان پر ہی چلتی ہے تو یقیناًیہ فیصلہ بھی ماضی کے سیاسی فیصلوں کی طرح متنازعہ رہے گا اور اگر اس فیصلے کی کوکھ سے غیر جانبدارانہ احتساب جنم لیتا ہے اور قوم کی برسوں کی یہ تمنا پوری ہوتی ہے کہ اس ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹنے والے سارے مافیا قانون کے شکنجے میں آئیں تو یقیناًیہ ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور قومیں جب کھٹن رستوں پر سفر کا آغاز کرتی ہیں تو زیرو پوائنٹ کی ہا ہا کار کی تاریخ میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لیکن اگر ماضی کی طرح یہ کہانی بھی ایک وزیر اعظم کی نا اہلی تک ہی محدود رہی تو ہماری تاریخ ایسے فیصلوں کے معاملہ میں خود کفیل ہے اور آج انہیں ہم کن الفاظ سے یاد کرتے ہیں یہ بھی کسی سے بھولا ہر گز نہیں ہے ۔

یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کے جس مقدمہ میں سزا دی اور جس کے نتیجہ کے طور پر انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے اس کا پس منظر کیا تھا؟۔۔۔اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار بہ ضد تھے حکومت سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے مذکورہ حکومت کو ایک خط تحریر کرے حکومت نے اس عدالتی حکم پر تاریخی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ عدالت عظمیٰ اور اس وقت کی حکومت کے درمیان اختلافات کی ایک خلیج حائل ہوتی گئی ۔ ملک سپریم کورٹ اور حکومت وقت کی اس رسہ کشی سے ایک طویل عرصہ ہیجان میں مبتلا رہا آخر کار وزیر اعظم کی طلبی ہوئی اور چند سیکنڈ کی سزا نے یوسف رضا گیلانی کو ایوان اقتدار سے بوریا بستر باندھنے پر مجبورکردیا ۔ یوسف رضاگیلانی کے بعد مخدوم شہاب کو پارٹی وزیر اعظم بنانا چاہتی تھی مگر ان کے نام پر اتفاق کی خبر نکلتے ہی مخدوم شہاب کا کچہ چھٹہ سامنے آگیا اور مجبوراً یا ضرورتاً وزارت عظمیٰ کا تاج راجہ پرویز اشرف کے سر کی زینت بنادیا گیا ۔ وہ سارا معاملہ جس کے نتیجہ میں ایک منتخب وزیر اعظم کو نا اہلی کا زخم سہنا پڑا بعد میں ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ،سوئس حکومت کو خط لکھنے کا اس کے بعد کسی نے نہ سنا گویا سارا کھیل ایک وزیر اعظم کی نا اہلی اور راجہ پرویز اشرف کو اقتدار کا جھولا جھلانے کا تھا ۔ مخدوم شہاب کے بعد دوچار اور نام بھی سامنے آتے تو ان کا حشر بھی مخدوم جیسا ہی ہونا تھا ۔

اب نوازشریف کی نا اہلی کے بعد منظر ماضی جیسا ہی ہے خواجہ آصف سمیت جو بھی ممکنہ وزیر اعظم کا نام سامنے آتا ہے اس کی خرابیوں کا ڈھول بھی فوراً پیٹ دیا جاتا ہے اور آج کل مشہور خرابی اقامہ ہے ۔ اب اس کھیل کی پس پشت قوتیں اگر شہباز شریف کو ہی وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرچکی ہیں تو مسلم لیگ (ن)ہزار مشاورتیں کرلے گھوم پھر کر انہیں وزیر اعظم تو شہباز شریف کو ہی بنا نا پڑے گا ۔مریم نواز کے اس جملے کہ روک سکو تو روک لو کے جواب میں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے والوں نے ان ہی کا جملہ ان ہی کو لوٹادیا ہے ۔

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 58 Articles with 46096 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.