’’عقیقہ‘‘ مشہور نفلی صدقہ اور رسول اﷲ ؐ کی پیاری سنت
ہے جو نومود بچے سے الا بلا دُور کرنے اور اُسے مختلف قسم کی آفات و بلیات
سے محفوظ رکھنے کے لئے اُس کی پیدائش کے ساتویں دن کیا جاتا ہے ۔ لڑکے کی
طرف سے دو بکرے جب کہ لڑکی کی طرف سے ایک بکرا بطورِ عقیقہ کے صدقہ کرنا
مستحب ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ام کرزؓ نے نبی اکرم ؐ سے عقیقہ
کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ: ’’ لڑکے کی طرف سے دو بکرے
عقیقہ کے صدقہ کیے جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا عقیقہ کا صدقہ کیا
جائے ۔ (فتح الباری :۵۹۲/۹)لیکن اگر لڑکے کی طرف سے دو بکرے صدقہ کرنے کی
وسعت اور گنجائش نہ ہو تو ایک بکرا بھی صدقہ کردینا کافی ہے ، جیساکہ حضرت
علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے حضرت امام حسنؓ کی طرف سے ایک بکرے کا
عقیقہ کیا۔(مشکوٰۃ شریف : ۳۶۲/۱) اورحضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسولِ
اکرمؐ نے حضرت حسن اور حضرت حسین کی پیدائش کے ساتویں دن اُن کی طرف سے
عقیقہ فرمایا ۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ دو مینڈھے ذبح فرمائے۔(موارد
الظمآن الیٰ زوائد ابن حبان: ۳۸۵/۳ ، ۳۸۹)
حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا کہ :
’’جس شخص کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اُس کی طرف سے (عقیقہ کا جانور )
ذبح کرنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ وہ ذبح کرے!۔ (المعجم الاوسط: ۱۷۳/۲)
عقیقہ کوئی فرض یا واجب عبادت نہیں کہ جس کا بہرصورت اداء کرنا ضروری اور
لازمی ہے ، بلکہ یہ ایک مستحب سنت ہے ، اگر وسعت اور طاقت موجود ہو تو ضرور
کرنا چاہیے، لیکن اگر گنجائش نہ ہو تو نہ کرنے میں کسی قسم کاکوئی گناہ
نہیں ، صرف عقیقہ کی سنت سے محرومی رہے گی۔ (شامی:۳۳۶/۶، عالمگیری:۳۶۴/۵)
عقیقہ کرنے کی صحیح مسنون میعاد حدیث شریف کی روشنی میں بچے کی پیدائش کا
ساتواں دن ، یاچودہواں دن ، یااکیسواں دن ہے ، اس کے بعد اس کی حیثیت نفلی
صدقہ کی سی ہوجاتی ہے۔(مجمع الزوائد : ۶۵/۴) اور ساتویں دن عقیقہ کرنا
بالاتفاق مستحب ہے ۔ اسی طرح دار قطنی کی ایک روایت کے مطابق چودہویں دن
عقیقہ کرنا بھی مستحب ہے ، جب کہ امام ترمذی کے نقل کردہ ایک قول کے مطابق
اگر کسی نے ان دونوں (ساتویں اور چودہویں دن)میں عقیقہ نہیں کیا تو اکیسویں
دن بھی کرلینا مستحب ہے۔ بہرحال اگر کوئی شخص ساتویں دن ، یا چودہویں ، یا
اکیسویں دن کے علاوہ کسی اور دن عقیقہ کرے تو نفس عقیقہ تو اداء ہوجائے گا
، البتہ اس کا وہ استحباب ، اور ثواب جوکہ ساتویں دن ، چودہویں دن ، اور
اکیسویں دن کرنے میں تھا وہ حاصل نہ ہوگا ۔(جامع ترمذی :۲۷۸/۱) اسی وجہ سے
فقہاء نے لکھا ہے کہ بڑی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کا عقیقہ کرنے کی کوئی
ضرورت نہیں ۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل : ۴۷۹/۵) تاہم اس کے باوجود اگر
پھر بھی کوئی عقیقہ کرنا چاہے تواس کے لئے کرنا جائز ہے۔ (اعلاء السنن:
۱۲۱/۱۷) البتہ ساتویں دن کی اس میں رعایت رکھنا مناسب ہے ، جس کا طریقہ کار
یہ ہے کہ پیدائش والے دن سے پہلے والے دن عقیقہ کیا جائے ! مثلاً پیدائش کا
دن جمعہ تھا تو عقیقہ جمعرات کو کرے ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۶۳۸/۳)اور
حضرت تھانویؒ نے آسان الفاظ میں اس کا طریقہ یہ تحریر فرمایا ہے کہ جس دن
بچہ پیدا ہوا ہو اُس سے ایک دن پہلے عقیقہ کردے ! یعنی اگر بچہ جمعہ کو
پیدا ہوا ہو تو جمعرات کو عقیقہ کردے اور اگر جمعرات کو پیدا ہوا ہو تو بدھ
کو کرے ، چاہے جب کرے وہ حساب سے ساتواں دن پڑے گا۔ (بہشتی زیور: ۲۵۹/۳)
ساتویں ، یا چودہویں ، یا اکیسویں دن کی رعایت رکھے بغیر مختلف اوقات میں
پیدا ہونے والے بچوں کا ایک ساتھ عقیقہ کرنا اور تمام جانور یا ایک اونٹ ،
گائے ، بیل ، بھینس وغیرہ ذبح کرنا جائز ہے ، لیکن خلافِ سنت ہے ، اس لئے
اس سے مسنون عقیقہ کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل
(بحذف و تغیر) : ۴۸۹/۵)
جن جانوروں کی قربانی جائز ہے اُن کا عقیقہ بھی جائز ہے اور جن جانوروں کی
قربانی جائز نہیں اُن کا عقیقہ بھی جائز نہیں ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ:
۶۳۷/۳) اسی طرح جن جانوروں میں سات حصے قربانی کے ہوسکتے ہیں اُن میں سات
حصے عقیقے کے بھی ہوسکتے ہیں ۔چنانچہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ عید قرباں پر
قربانی کے ساتھ بچوں کا عقیقہ بھی کیا جاسکتا ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ
لڑکے کی طرف سے دو حصے اور لڑکی کی طرف سے ایک حصہ مقرر کیا جائے اور اگر
لڑکے کی طرف سے دو حصے مقرر کرنے کی وسعت ا ور گنجائش نہ ہو تو لڑکے کی طرف
سے ایک حصہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔(اعلاء السنن : ۱۱۹/۱۷)اور ایک لڑکے کے
عقیقے میں پورا اونٹ، پوری گائے( اور پوری بھینس) بھی ذبح کی جاسکتی ہے ۔
(فتح الباری : ۵۹۳/۹ ، اعلاء السنن :۱۱۷/۱۷، بدائع الصنائع: ۷۲/۵)
عقیقہ چوں کہ نفلی صدقہ ہوتا ہے واجبی صدقہ نہیں ہوتا، اس لئے اس کا گوشت
خود کھانا ، اپنے عزیز و اقارب کو کھلانا، غرباء اور مساکین میں تقسیم
کرناسب جائز ہے ۔ بلکہ عقیقہ کے گوشت کا ایک تہائی حصہ غرباء و مساکین پر
تقسیم کرنا افضل ہے ۔ اور باقی دو تہائی حصے ماں ، باپ ، دادا ، دادی،
نانا، نانی، بھائی، بہن اور سب رشتہ دار کھاسکتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص
تمام گوشت رشتہ داروں میں تقسیم کردے، یا اُس کو پکاکر اُن کی ضیافت کردے
تو یہ بھی جائز ہے ۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل: ۴۹۰/۵)اسی طرح عقیقہ کا
گوشت چاہے کچا تقسیم کرے چاہے پکاکر بانٹے ، چاہے دعوت کرکے کھلا دے سب
درُست ہے۔(بہشتی زیور :۲۵۹/۳)
بعض علاقوں میں عورتوں میں جو یہ مشہور ہے کہ بچہ کی ولادت کے بعد عورتیں
اُس کے سر کے بال ایک مخصوص جگہ پر اُترواتی ہیں اور بکرے کی قربانی بھی
وہاں جاکر د یتی ہیں اور لڑکا پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ تک اس کے بال
اُتروانے سے پہلے اپنے اوپر گوشت کھانا حرام سمجھتی ہیں اور پھر کسی دن مرد
و عورتیں ڈھول کے ساتھ اس جگہ پر جاکر لڑکے کے سر کے بال اُترواتے ہیں اور
بکرے کا ذبیحہ کرکے وہاں ہی گوشت پکاکر کھاتے ہیں …… تو یاد رکھنا چاہیے کہ
قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ سب ہندوانہ رسومات ہیں جو
مسلمانوں میں در آئی ہیں اور چوں کہ اس میں فسادِ عقیدہ شامل ہے اس لئے یہ
اعتقادی بدعت ہے ، جو بعض صورتوں میں کفر و شرک تک پہنچاسکتی ہے ۔ چنانچہ
بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ نے دیا ہے ، اس لئے وہ
اس بزرگ کے مزار پر نیاز چڑھانے کی منت مانتے ہیں اور منت پوری کرنے کے لئے
اُس مزار پر جاکر بچے کے بال اُتارتے ہیں اور وہاں قربانی کرتے ہیں اور
دوسری بہت ساری خرافات کرتے ہیں ، لہٰذا مسلمانوں کو ایسی تمام خرافات و
بدعات سے حتیٰ الامکان بچنا اور ان سے احتراز کرنا لازمی ہے۔ (آپ کے مسائل
اور اُن کا حل (بحذف و تغیر): ۴۹۱/۵) |