موجودہ سیاسی صورتحال اور پس پردہ حقائق۔۔۔۔۔نوازشریف۔۔۔عمران خان۔۔۔اسٹبلشمنٹ۔۔۔

پاکستان دنیا کا ایک امیرترین ملک ہے،لیکن بدقسمتی سے اسے ہمشیہ ہی لیٹرے حکمران ہی ملے ہیں پاکستان میں جمہوریت کبھی نہیں رہی آمریت مختلف شکلوں میں ہمشیہ مسلط رہی ہے چاہے وہ فوج کی صورت میں ہو یا خاندانی شکل میں لیکن خاندانی آمروں سے فوجی بہتر رہے ہیں کیونکہ انکے دور میں مہنگائی کنٹرول رہی ہے اور کچھ ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں پاکستان میں پیٹرول سے لیکر ہر طرح کی معدنیات موجود ہیں زرخیز زمین سے لیکر ریگستان اور پہاڑ بھی موجود ہیں ہر طرح کا موسم موجود ہے لیکن حکمران اچھے نہیں مئیسرآئے نواز شریف جو کہ بے چارے طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان تشریف لائے اور حکومت میں آنے کے لئے جدوجہد شروع کی لیکن ماضی سے سبق نہیں سیکھا ،میں نواز شریف کا ماضی جانتا ہوں ،نواز شریف بذات خود برے انسان نہیں تھے جب تک انکے استاد جناب غلام حیدر وائیں مرحوم زندہ تھے یہ مشکل کا کبھی شکار نہیں ہوئے اور جناب رانا پھول محمد کی راہنمائی بھی انکو حاصل تھی اس وقت تک یہ عوام سے قریب تھے اور لوگوں کا ان سے ملنا بھی آسان ہواکرتا تھا یہ 180-H ماڈل ٹاؤن میں عوام سے ملتے تھے اس وقت اسٹبلشمنٹ کو نواز شریف پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی تھی اور نواز شریف کو امریکی حمایت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کوئی شک نہیں پنجاب میں عوام نوازشریف کے ساتھ تھی نوازشریف سے غلطیوں کا آغاز اس وقت ہواجب 1993-96جب بے نظیر کی حکومت تھی اور شہباز شریف علاج کے بہانے لندن چلے گئے اور پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی اپوزیشن لیڈر بنے اور اڈیالہ جیل کی یاترا بھی ن لیگ کے لئے کی اس وقت میاں نواز شریف نے تحریک نجات کا اعلان کردیا اور بھرے جلسے میں فرمایا کہ پرویز الٰہی ہی اگلے وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے لیکن اپنے وعدے کو نوازشریف نے پورا نہ کیا اور شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا اس وقت ن لیگ میں ایک گروپ بناناشروع ہو گیا اسکے بعد لاہور کی مئیرشپ جو کہ زمانہ قدیم سے آرائیں خاندان کے پاس رہی ہے اسکو بھی خواجہ حسان کو مئیر بنا کر ن لیگ میں میاں اظہر میا ں منیر کو اپنے مخالف کر لیا ن لیگ میں آرائیں میاں مرغوب کو مئیر بنانا چاہتے تھے لیکن خواجہ حسان کے مئیر بننے کے بعد چوہدری شجاعت گروپ کے ساتھ میاں اظہر اور آرائیں بھی شامل ہو گئے اس وقت اندرون خانہ سازشیں شروع ہو گئی پھر مشرف کو اس گروپ نے سگنل دیا اور نوازشریف ڈائریکٹ مری سیل اور پھر سعودیہ راونہ،پھر 8سال بعد واپسی ہوئی اور ماضی سے سبق نہ سیکھا غلطیاں دوبارہ سٹارٹ کر دیں
غلطی نمبر۱-لوٹوں اور چاپلوسوں کو دوبارہ نہ صرف لیا بلکہ پنجاب حکومت کے فنڈز بھی انکے اشارے پر کردئے جیساکہ الیکشن کے لئے ماڈل ٹاؤن میں میڈیاسیل کا قیام جہاں انویسٹر کے طور پر طارق عظیم کی آمد اور انٹرویو ڈائیزنگ سے لیکرآرٹیکل رائٹنگ اور میڈیا کی پرچیزتک سب پنجاب حکومت کے خرچے پر ہوتاتھا اس وقت کے انفارمیشن سیکرٹری پنجاب وانی صاحب بھی وہاں ہوتے تھے 2012میں ہی امریکی قونصل جنرل نے ماڈل ٹاؤن میں پہلے مریم سے ملاقات کی اسکے بعد امریکی سفیر نے رائیونڈ میں نواز شریف سے ملاقات کی اور امریکی سپورٹ سے نواز شریف 2013کے الیکشن میں حکومت میں آئے ،اب وہ امریکی سپورٹ ہٹ چکی ہے نواز شریف مشرف کو نظربند کرنیکی غلطی بھی کرچکے تھے اور عوام سے ملنا تو ایک طرف ن لیگی بھی ان سے نہیں مل سکتے تھے ن لیگ دو حصوں کا شکا ر ہے ایک شہباز شریف کا گروپ دوسرا نوازشریف کا یہ انکی اندرونی صورتحال 2009سے ہے اس کے بعد نواز شریف اپنے بڑے ہمدردوں عربوں کو بھی اپنے خلاف کرچکے ہیں کیونکہ یمن میں پاکستانی فوج نہیں بھیجی یہ کا م انہوں نے ٹھیک کیا تھا کیوں کہ پاکستانی فوج کرائے کی فوج نہیں جہاں جس کا دل کیا بھیج دی ان حالات میں جب بیرونی ہمدردوں نے نواز شریف پر سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اسٹبلشمنٹ کا کام آسان کردیا اور ان کو ایک کمزور مقدمے میں نااہل کردیا جو کہ باآسانی کسی بھی وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا جاسکتا ہے اصل چیز ہے قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کے پیسے کا حساب اور شریف ٹرسٹ کی حقیقت اور انکے اثاثے اگر انکی بنیاد پر فیصلہ ہوتا تو اس کو توڑنا ناممکن تھا ،اب اس کے بعد باری ہے عمران خان اور جہانگیر ترین کی کیونکہ ماضی کی طرح اسٹبلشمنٹ انکو استعمال ضرور کر رہی ہے لیکن خان صاحب کو حکومت نہیں دے گئی یہ بھی نااہل ہو جائے گئے ،اصل ڈیل زرداری کے ساتھ ہو چکی ہے زرداری خاموشی سے سارا کھیل دیکھ رہاہے کیونکہ وہ جانتا ہے اگلی حکومت اس کی ہے عوام تو جذباتی ہے لیکن ان فیصلوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ملا سوائے مصروفیت سے اگر پاکستانی عدلیہ واقعی عوام کو کوئی فائدہ دینا چاہتی ہے تو ان لیڈروں کے اثاثے ضبط کرکے ملکی قرضہ اتارکر ملک کو بیرونی طاقتوں سے آزاد کروائے پاکستان میں سیاست کی نہیں ملک کی خوشحالی کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے ایک ملک اور ایک قوم بننے کی ضرورت ہے پاکستان کو ضرورت ہے نظام فاروقی کی جسکا عدل سب کے لئے برابر تھا جس نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں بخشا،پاکستان کو ضرورت ہے ایک نظام کی جو سب کے لئے برابر ہو عوام کو سیاسی مصروفیت کی کوئی ضرورت نہیں انصاف کی ضرورت ہے -