پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
عدل تو جمہور کا محافظ ہوا کرتا ہے لیکن یہ کیسا عدل ہے جو جمہور کا قاتل
نکلا۔ میاں نوازشریف جمہور کے نمائندے تھے جن کی سیاست کو عدل کی دودھاری
تلوار سے قتل کرنے کی سعی کی گئی لیکن وہ ایوانِ وزیرِاعظم سے نکل کر دلوں
کے حکمران بن گئے ۔ اُن کے نام کے ساتھ سابق کا لاحقہ لگانے کوکوئی تیار ہی
نہیں ۔ وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے بَرملا کہا ’’میرا
وزیرِاعظم آج بھی نوازشریف ہے اور میں اُنہیں کبھی بھی سابق وزیرِاعظم نہیں
کہوں گا‘‘۔
میاں نوازشریف کی نا اہلی کے بعد زبانِ خلق پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ
جمہور کے نمائندے کو کبھی ’’گاڈ فادر‘‘ اور کبھی ’’سِسلی مافیا‘‘ سے تشبیہ
دینے والو ! ڈرو اُس وقت سے جب تمہیں ایسے ’’مزاحیہ‘‘ فیصلوں کی بدولت بُری
ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ رحم کھاؤ اِس دھرتی پر جس کی بدولت تم ادب و
احترام کی بلند ترین مسند پر جلوہ افروز ہو ۔ ترس کھاؤ اِس قوم پر جو سات
عشروں سے اِس موہوم اُمید کے سہارے زندہ ہے کہ شاید کبھی صحنِ چمن میں بہار
آجائے ، شاید کبھی بے بَرگ و بار درخت پھولوں اور پھلوں سے لَد جائیں،شاید
کبھی ابرِ نیساں کو اِس دھرتی پر رحم آجائے اور شاید کبھی صحراؤں کی سی
پیاس لیے اِن ظلم کے ماتوں کو دو گھونٹ میسر آ جائیں لیکن آپ کے فیصلے نے
اُن کی ساری آشاؤں پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ آج تمہارے اِس فیصلے کی بدولت
پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر لطیفوں کی بھرمار ہے ۔ بین الاقوامی
میڈیا انگشت بدنداں کہ کیا فیصلے ایسے بھی ہوا کرتے ہیں؟۔
علمِ کیمیاکا عظیم فرانسیسی سائنس دان انتونی لاوئزر فرانس میں انتظامی ذمہ
داریاں اور عوامی خدمات بھی سرانجام دیتا رہا ۔ 1789ء کے انقلابِ فرانس کے
بعد اُسے بھی شاہ لوئی کے وفاداروں کی فہرست میں شامل کرکے گرفتار کر لیا
گیا ۔ دَورانِ سماعت لاوئزر کی ملک اور سائنس کے لیے بیش قیمت خدمات کا
حوالہ دیتے ہوئے معافی کی درخواست دی گئی لیکن جج نے یہ کہتے ہوئے درخواست
مسترد کر دی کہ جمہوریہ کو ذہین وفطین لوگوں کی ضرورت نہیں ۔ تب لاوئزر کی
بیوی نے کہا ’’اِس سر کو قلم کرنے میں ایک لمحہ بھی صرف نہ ہو گا لیکن ایسا
شخص دوبارہ پیدا کرنے میں صدیاں بیت جائیں گی‘‘۔ جج نے فیصلہ واپس لیا اور
سر جھکا کر عدالت سے باہر نکل گیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ میاں نوازشریف
ارسطوئے دوراں یا قائدِاعظم ثانی لیکن یہ ضرور کہ اِس قحط الرجال میں اُس
کے دَم سے ہی بہاریں تھیں۔ اُس نے آس کی ٹوٹی ڈور کو اپنے بین الاقوامی
تعلقات کے بَل پر مضبوط گانٹھ دے رکھی تھی اسی لیے چینی صدر نے کہا ’’مسٹر
نوازشریف ! سی پیک آپ کے لیے تحفہ ہے ‘‘۔ اِس سے پہلے اُن کے چین کے دَورے
کے دوران چین کے صدر یہ کہہ چکے تھے کہ ’’ہم آپ ہی کا انتظار کر رہے تھے‘‘
۔پاک چائنہ دوستی کا بندھن اٹوٹ سہی لیکن ملکوں کی دوستیاں باہمی مفادات سے
جُڑی ہوتی ہیں ۔ سی پیک منصوبہ انشاء اﷲ پایۂ تکمیل تک ضرور پہنچے گا لیکن
میاں صاحب کے اچانک منصہ شہود سے غائب ہو جانے سے اِس منصوبے کے تکمیلی
مراحل یقیناََ سُست پڑ جائیں گے جس کا پاکستان متحمل ہو سکتا ہے نہ چین۔
گویا اِس فیصلے سے سی پیک کی راہ میں سدِ سکندری نہ سہی ، بہت بڑی رکاوٹ
ضرور کھڑی ہو گئی جو یقیناََ ملک دشمن قوتوں کی شادمانی کا باعث ہو گی ۔
اِسی لیے ہم کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے سِوا نگاہوں میں کوئی ججتا ہی
نہیں ۔آج تو ایک مخصوص ٹولہ بغلیں بھی بجا رہا ہے اور طنز کے تیروں کی بارش
بھی لیکن
تم نہ کہو تاریخ کہے گی ، یہ تھے کِس معیار کے لوگ
پتھر کھائے ، پھول تراشے ، راہوں کو ہموار کیا
نگاہوں میں جچے بھی تو کون ؟کیا عمران خاں؟ ، جسے ملک سے پیار ہے نہ قوم سے
، پیار ہے تو صرف اقتدار سے۔ اگر ملک و قوم سے پیار ہوتا تو وہ کنٹینر پر
کھڑے ہو کر سول نافرمانی کا اعلان نہ کرتا ، پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کی
تلقین نہ کرتا ، حواریوں کو یوٹیلٹی بِلز کی ادائیگی سے منع نہ کرتا ،وزیرِاعظم
ہاؤس اور پارلیمنٹ پر قبضے کی کوشش نہ کرتا ، پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ نہ
کرتا ، پولیس سٹیشن سے اپنے کارکنان کو زبردستی نہ چھڑواتا اور قدم قدم پر
یوٹرن نہ لیتا۔ اُس ضدی ، ہٹ دھرم اور نرگسیت کے شکار شخص کا ذاتی کردار سب
پر عیاں ہے ۔ ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کی عادت نہیں لیکن وطن کی
مٹی کا ہم پہ یہ قرض ضرور ہے کہ بھارتی اور یہودی فنڈنگ سے تشکیل پانے والی
تحریکِ انصاف کا اصلی چہرہ سب پہ عیاں کریں کیونکہ عدل کے اونچے ایوان اِس
معاملے پر تاحال خاموش ہیں ۔ خاموش کیا ، اُن میں تو اتنی بھی سکت نہیں کہ
اُس سے پوچھ سکیں کہ تم دہشت گردی کورٹ کے مفرور ہو ، پھر 23 دفعہ سپریم
کورٹ کے احاطے میں داخل کیسے ہو گئے ؟۔ عجیب بات ہے کہ ایک شخص اپنے گھر
میں رہتا ہے ، عدالتوں کے چکر لگاتا ہے ، پریس کانفرنسیں کرتا ہے ، جلسوں
میں تقریریں کرتا ہے ، اینکرز کو انٹرویوز دیتا ہے لیکن دہشت گردی کورٹ کا
مفرور بھی ہے اور اُس کی جائیداد کی قُرقی کا حکم بھی ۔ سچ کہا تھا
امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے کہ اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے سدل کا پلڑا اُس
کی جانب جھک جائے تو پھر اسلام اور قیصروکسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا ؟۔
تحریکِ انصاف کے نعیم الحق نے کہا ’’عمران خاں بنی گالہ میں اپنے گھر میں
بیٹھا ہے ، اگر کسی میں جرأت ہے تو اُسے گرفتار کرکے دکھائے‘‘۔ اگر بات
مقتدر حلقوں کی ہوتی ،جن کے بارے میں بیباک امتیاز عالم نے کہا ’’ممنوعہ
علاقے کے مکینوں تک رسائی کے لیے منصفوں میں دَم خم کہاں ‘‘تو ہم سمجھتے کہ
عدلیہ محتاط ہے لیکن کپتان کی پشت پرایسی کون سی طاقتیں کارفرما ہیں جو
عدلیہ اُُس پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ اگر یہی فیصلہ کپتان کے خلاف آیا
ہوتا تو وہ برملا کہہ دیتا ’’کتنے میں بِکے؟اور اُس کا کوئی کچھ بگاڑ نہ
پاتا ۔ ایسا ہوتا ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے ۔ اُدھر ایک نہال ہاشمی ہے جو
دست بستہ معافیاں مانگتے ہوئے بار بار کہہ رہا ہے کہ اُس نے ججز کا نام
نہیں لیا لیکن عدلیہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔
اپنی بدزبانی اور بدکلامی میں مشہور کپتان نے آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم کے
لیے تین مرتبہ گھٹیا اور ذلیل کا لفظ استعمال کیا اور اپنی عادت کے مطابق
کشمیریوں کو وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی ۔
کسی کو گھٹیا ، ذلیل ، کمینہ ، بے غیرت ، بے شرم اوربے حیا کہنا کپتان کا
تکیہ کلام ہے ۔ وہ اپنے جلسوں میں ایسے الفاظ اکثر دہراتا رہتا ہے اور اب
یہی رویہ اُس کے پیروکاروں کا بھی بن گیا ہے ۔ ہم تو اتنی ہی عرض کر سکتے
ہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتا ہے ۔
آج یہ بازاری الفاظ زبان زدِ عام ہیں جو لاریب کپتان کی دین ہیں ۔ سیاست
میں گالی گلوچ کا عنصر لانے والے کپتان کو کل کلاں جب ذلیل ، کمینہ ، گھٹیا
، بے غیرت ، بے شرم اور بے حیا کہا جائے گا تو یقیناََ اُسے بہت تکلیف ہو
گی لیکن’’ خود کردہ را علاجے نیست ‘‘۔
کپتان نے جب وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے لیے یہ الفاظ کہے تو اُس سے بہت پہلے
وہ یہ وضاحت کر چکے تھے کہ اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے پھر
اُن کی پریس کانفرنس کے ویڈیو کلپس بھی سامنے آگئے جن میں وزیرِاعظم آزاد
کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا ’’ایک صاحب ہیں جن پر الزام ہے کہ مبینہ طور
پر ایک بغیر نکاح کے بچی کے باپ ہیں ۔وہ طلاق فیڈریشن کے سربراہ ہیں ۔ وہ
دو بار طلاق دے چکے ہیں ۔ یہ گناہ نہیں لیکن رسول اﷲ ﷺ نے اسلام میں طلاق
کو بڑا بُرا فعل قرار دیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ وہ 62/63 پر پورا اترتا ہے ۔
کل اُس نے کہا کہ وہ علامہ اقبال کا پاکستان بنا رہا ہے ۔ یہ جو اُس پر
الزامات ہیں کیا یہ ہی قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کا خواب ہیں ؟۔ مجھے
سوچنا پڑے گا بحیثیت کشمیری کہ میں کِس ملک کے ساتھ اپنی قسمت کو جوڑوں ۔
اگر یہ ہی ہے علامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے پاکستان کا خواب‘‘۔ راجہ
فاروق حیدر کے اِس بیان سے عیاں ہے کہ اُنہیں ایسا پاکستان قبول نہیں جس کا
سربراہ عمران خاں جیسا کردار رکھنے والا شخص ہو کیونکہ یہ نہ علامہ اقبالؒ
کا خواب تھا نہ قائدِ اعظم ؒ کی سوچ ۔اصل ماجرا یہ ہے کہ راجہ فاروق حیدر
نے کپتان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کی اور کپتان گالی گلوچ پر
اُتر آیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست میں ذاتیات کو نہیں لانا چاہیے اِس لیے
راجہ صاحب نے غلط کیا لیکن کپتان نے انتہا کر دی ۔
تین رکنی بنچ کے اِس فیصلے کے بعد ملک میں افراتفری کا عالم ہے ۔ لوگ اِسے
تاریخ کا بیمار فیصلہ سمجھتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو پہلے ہی سے واضح
ہو چکا تھا کہ تین رکنی بنچ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینا ہی ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں ’’ یہ انصاف کا نہیں ، تحریکِ انصاف کا فیصلہ
ہے‘‘۔ گلگت بلتستان کے وزیرِاعلیٰ نے کہا ’’جے آئی ٹی میں تحریکِ انصاف کا
کارکُن اور پرویز مشرف کا نمائندہ شامل تھا ۔ تحقیقات کی جائیں کہ ججز کی
فیملیز عدالت میں کیا کر رہی تھیں ۔ کیا پہلے کبھی ججز کی فیملیز نے
وزیرِِاعظم کے خلاف فیصلہ آنے پر تالیاں بجائی ہیں‘‘؟۔ حیرت ہے کہ پانچ
رکنی بنچ جس کے چار ارکان پر’’ پی سی او ججز‘‘ کا ٹھپہ لگ چکا ہے ، وہ کیا
وزیرِاعظم کی نا اہلی کا جشن منانے کے لیے اپنی فیملیز کو کورٹ روم میں
لائے تھے ؟۔ اُدھر میاں نوازشریف کا یہ عالم کہ اُنہوں نے پارلیمانی پارٹی
کے اجلاس میں انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جن جذبات کا
اظہار کیا اُن کا لُبِ لباب یہ تھا کہ
تم رکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی
تم نے میرا اُمید سے کم ساتھ دیا ہے
اے قافلے والو میری ہمت کو سراہو
ہر چند کہ زخمی ہیں قدم ، ساتھ دیا ہے |