معلوم ہے، جیالے مجھے آڑھے ہاتھوں لیں گے مگر مجھے پھر
بھی یہ کہنا ہے کہ"قصوروار بھٹوہے"۔ بلکہ اس سے بھی آگے کہوں گا کہ قصور
وار بھٹو کی قومیانے کی پالیسی ہے۔ جس نے پاکستان کی سیاست میں ایک ایسے
باب کو جنم دیا جس میں ملکی سے زیادہ کاروباری مفادات اہم ہوتے گئے اور آج
ہم اس کا خمیازہ ایسے بھگت رہے ہیں کہ پورا ملک ایک عجیب سیاسی ہیجان میں
مبتلا ہے۔ ایک جا رہا دوسرا آ رہا ہے۔ کہیں اہلیت کے معیارات بن رہے ہیں
کہیں نااہلی کی تلوار برس رہی ہیں۔ سارے کا سارا قصور صرف اور صرف بھٹو کا
ہے کہ ان کی قومیانے کی پالیسی کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں
کہ کچھ پتا نہیں کس کے کتنے اثاثے ہیں ۔ بیٹا کہتا ہے باپ کا ہے، باپ کہتا
ہے بیٹے کا ہے۔
نہ بھٹو صاحب قومیانے کی پالیسی متعارف کرواتے(72سے 77) نہ ہی میاں محمد
شریف صاحب کی سٹیل مل قومی تحویل میں آتی نہ ہی وہ ضیاء کے ہم خیال
بنتے(اپنا کاروبار بچانے کے لیے)۔ نہ ہی انہیں میاں محمد نواز شریف صاحب کو
سیاست میں متعارف کروانا پڑتا(1976میں مسلم لیگ کا حصہ)۔ اور نہ ہی محترم
غلام جیلانی صاحب نئے سیاسی راہنماؤں کی تلاش میں نکلتے اور نہ ہی ان کی
نظر انتخاب میاں نواز شریف پر پڑتی(1980) اور نہ ہی انہیں پنجاب مشاورتی
کونسل کا ممبر چنا جاتا(1981)۔ جس کے بعد انہوں نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا
اور آج وہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتر چکے ہیں۔صوبائی مارشل لا
ایڈمنسٹریٹر کی شاباشی نے ان کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ یہ کہنا
واقعی درست ہے کہ آج جتنا نقصان وہ خود کو خود پہنچا سکتے ہیں کوئی اور
نہیں پہنچا سکتا۔ کیا خوب مکافات عمل ہے کہ گزرے کل میں میاں محمد نواز
شریف قدرے مضبوطی پاتے منتخب وزیر اعظم کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اس وقت
کے ڈکٹیٹر کی حمایت کی (جونیجو حکومت)۔ اور آج وہ اپنی حکومت جانے کا
واویلا کر رہے ہیں( جو باقاعدہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک مہینے سے
بھی زیادہ صفائی کا وقت دینے کے بعد ختم ہوئی )۔ جب کہ یہ یاد رہے کہ اگر
جونیجو اس وقت کے فوجی حکمران کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے
مضبوط ہو جاتے تو آج جمہوریت کی شکل بالکل مختلف اور خوبصورت ہوتی ۔ مگر
میاں صاحب نے ایک ڈکٹیٹر کی حمایت کر کے پاکستانی جمہوریت کے روشن مستقبل (جونیجو
حکومت) کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اور پاکستان کی جمہوری تاریخ میں
سے اگر اسلامی جمہوری اتحاد کو بھی نکال دیں تو آج یقیناًپاکستانی جمہوریت
مضبوط بنیادوں پہ استوار ہوتی ۔اسلامی جمہوری اتحاد کے کم و بیش 80فیصد
امیدوار میاں صاحب کی پارٹی سے تھے ۔ اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اتحاد
کتنا اسلامی تھا اور کتنا جمہوری جو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ
روکنے کے لیے بنایا گیا تھا او رکامیاب بھی رہا (88 میں نہیں مگر 90میں)۔
آج ایک قانونی فیصلے کی بنیاد پہ تنقید کے نشتر برساتے میاں صاحب نہ جانے
کیوں اس وقت ایک منتخب حکومت کو ختم کرنے کی حمایت کو اپنا کھرا سچ سمجھتے
ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی نمائندہ باربرا کروسیٹ نے انتخابی مہم کے دوران ایک
رپورٹ تیار کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ نگران حکومت کیوں کہ بی بی کے خلاف
کوئی الزام ثابت نہیں کر پائی لہذا وہ انتخابی مہم میں کامیابی حاصل کر پا
رہی ہیں(90ء)۔ مگر باربرا جانتی نہیں تھی کہ اسلامی جمہوری اتحاد میں پیسہ
ہے اور پیسہ جہاں بولتا ہے وہی پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ اور پلڑا بھاری رہا اس
اتحاد کا جس کا کچا چھٹا اصغر خان کیس میں کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔
مجھے حیرانگی ہوتی ہے جب ضیاء دور کی نوازشات، اسلامی جمہوری اتحاد کا غیر
جمہوری وجود، صوبائی پارٹی صدر ہو کر مرکزی پارٹی صدر(جونیجو) کی مخالفت،
غیر جمہوری اتحاد کے سربراہ کے طور پہ 90 میں حنان اقتدار سنبھالنا، آرمی
چیف سے گلف وار میں اختلافات، بینظیر کی حکومت گرانا(جس کا بظاہر قصہ کرپشن
تھی کوئی شک نہیں)۔97میں حکومت عدلیہ محاذ آرائی کے دوران فاروق لغاری کی
برطرفی،اعلیٰ عدلیہ پر حملہ (جس کی معافی 2006 میں مانگی گئی)، 98 میں آرمی
چیف کی برطرفی، 99 میں آرمی سے پرانی ڈگر پر اختلافات برقرار رکھنا، اور
اپنی مرضی سے سعودی عرب معائدہ کر کے جانا، اگر یہ تمام واقعات جمہوریت کے
خلاف کسی طرح کی سازش میں شمار نہیں ہوتے، اور سول ڈکٹیٹر شپ کا عملی نمونہ
نہیں ہیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پھر حالیہ اعلیٰ عدالت کا فیصلہ
جس میں نہ صرف صفائی کا موقع دیا گیا بلکہ ایک طویل بحث و مباحثہ بھی ہوا
یہ کس طرح جمہوریت کے خلاف سازش ہو سکتا ہے۔ اگر یہ جمہوریت ہے کہ جس میں
اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو تختہء مشق بنا لیا گیا ہے تو نہ جانے جمہوریت کا
وہ سبق کس عقل کے اندھے نے پڑھایا تھا کہ عدالتوں کے فیصلے ماننا جمہوریت
کا اصل حسن ہے۔
یقیناًاولین بات ہی صادق ہے کہ سارا قصور بھٹو کا تھا۔ نہ وہ قومیانے کی
پالیسی متعارف کرواتے ، نہ ہی۔۔۔ ۔
|