میاں نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد عوام کو
یہ تاثر دیا جارہاہے کہ پنا ماکیس یا ان پر کرپشن کے چارجز تو غلط تھے لیکن
ان کودبئی میں اقامہ پر نااہل کیا گیا۔یہاں میں بھارتی فلم جو لی ایل ایل
بی میں ججز صاحب کی ریماکس کا ذکر کروں گا بلکہ قارئین کو یہ فلم دیکھنی
بھی چاہیے جس کا دوسرا پارٹ بھی آیا ہے۔ اس فلم میں یہ بتا یا گیا ہے کہ اس
خطے میں کیس عدالتوں میں کیسا لڑا جاتا ہے، حقائق کیا ہوتے ہیں اور دولت
مند ان کو عدالت میں کیسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس فلم میں ججز صاحب
وکیل کو مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ وکیل صاحب جب کیس عدالت میں آجاتا ہے اور
فریقین کو ہم دیکھ اور ان کی بات سن کر اسی وقت ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ
مجرم کون ہے الزام کی حقیقت کیا ہے لیکن ہم فیصلہ نہیں کر سکتے، ہم ثبوتوں
کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ ثبوت پیش ہوں گے تو ہم فیصلہ کریں گے اس کے بغیر
ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
پناما کیس میں سپریم کورٹ میں میا ں نواز شریف کے وکیلوں کی دلائل اور ججز
کے سوال وجواب سے تو پہلے معلوم ہوگیا تھا کہ وزیراعظم کے بیٹوں نے بیرونی
ممالک دولت کاروبار سے نہیں بلکہ اس ملک سے کرپشن اور منی لاٹرنگ کرکے
جائدادیں بنائی ہے جو کہ درحقیقت میں میاں نواز شریف نے بنائی ہے لیکن اس
کے باوجود ججز نے ان کو پورا موقع دیا کہ بیرونی ممالک میں جائدادیں کیسے
بنائی ہے اور پیسہ کہاں سے آیا ہے جس پر میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں نے
کوئی ثبوت یا دستاویزات عدالت کو پیش نہیں کیے جس پر یہ فیصلہ ہوا کہ دو
ججز نے ان کو اس وقت نااہل کیا اور تین نے جے آئی ٹی بنائی تا کہ حقائق
عوام کے سامنے آجائے لیکن اس میں بھی میاں نواز شریف اور اس کے بیٹوں نے کو
ئی منی ٹریل یا ثبوت پیش نہیں کیے جس پر جے آئی ٹی میں ان کو بار بار آنا
بھی پڑا لیکن حقیقت یہ سامنے آئی کہ جوبھی دستاویزات انہوں نے جمع کیے ہیں
وہ سب ان کے اپنے بنائے گئے تھے ،مہریں بھی اپنی لگائی تھی۔ قانونی طور پر
جو دستاویز ات درکار ہوتی ہے یعنی رقم بنک کے ذریعے کہاں سے کہاں آئی ،کاروبار
میں نفع نقصان کے اکاونٹس پیش کی جاتی ہے جو کہ انہوں نے صرف قطری خط پیش
کرکے اور باقی میڈیا کو کہانی سنائی جو میڈیا نے بھر پور طریقے سے پیش کی
لیکن ججز کو حقیقت بہت پہلے معلوم ہو چکی تھی کہ یہ ساری دولت ناجائز طر
یقوں سے بنائی گئی ہے اور یہ لوگ جس طرح 35سال سے عوام کو بے وقوف بنا رہے
ہیں اسی طرح اب عدالت کو بھی بے وقوف بنانے میں لگے ہوئے ہیں جس میں یہ لوگ
ناکام رہیں۔ سپریم کورٹ 62اور63پر پہلے بھی22لوگوں کو سز ا دے چکی ہے لیکن
اس کیس میں بہت سی دوسری چیزیں بھی دیکھی گئی ہے ۔ ججز کا وزیراعظم نواز
شریف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی اپنی کرپشن اور لوٹ مار کی
وجہ سے ہی انہوں نے یہ فیصلہ دیا ہے۔اب نون لیگ والے عدالت کے خلاف
پروپیگنڈا چھوڑ دیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہونے میں رکاوٹ بننے
سے گریز کریں جو ان کے مستقبل کیلئے بھی اچھا ہے۔
دوسری بات جو انہوں نے عوام میں مشہور کی ہے کہ ہماری دولت تو ہمارے آبا
جان یعنی میاں شریف نے کمائی اور ہم نے تو سیاست میں صرف خرچ کیے تو یہ بھی
حقیقت سے منافی ہے ۔ ان کے والد کی اتنی دولت نہیں تھی۔ وہ کوئی فیس بک یا
کمپیوٹر سافٹ ویئر کے بانی بھی نہیں تھے وہ عام کا روبار کررہے تھے جو اس
ملک میں بہت سے لوگ کرتے رہے ہیں جن کی کھربوں کی دولت بیرونی ممالک میں
نہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ساری دولت انہوں نے ان دو بیٹوں میں
تقسیم کی باقی چار پانچوں کا کوئی حصہ نہیں تھا وہ بھی تو زندہ ہے ان کی
دولت تو اتنی نہیں جتنی میاں نواز شریف کی ہے بلکہ سچ تو ہے کہ اتنی دولت
شہباز شریف کی بھی نہیں ہے ۔ یہ صرف میاں نوازشریف صاحب کاکمال ہے کہ ان کی
دولت اور جائدادیں ہر ملک میں موجود ہے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف اور کے ساتھیوں جس میں بعض
صحافی بھی شامل ہے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وزیراعظم کی نااہلی صرف دبئی
میں ایک کمپنی جس کے میاں نواز شریف چیئرمین ہے ، جس میں انہوں نے تنخوا ہ
بھی نہیں لی اس پر ناہل کیا گیا جو حقیقت نہیں ہے بلکہ سپر یم کورٹ نے ان
کو جھوٹ بولنے ، غلط دستاویزات دینے اور آئین کی خلاف ورزی سمیت کئی وجوہات
پر نااہل کیا ہے جو فیصلہ میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے والے یعنی اپریل
والے فیصلے کا تسلسل ہے اس فیصلے کو اس کے ساتھ پڑھا جائے جس میں میاں
نوازشریف کیلئے گاڈ فادر کے الفاظ لکھے تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی
باتیں شامل تھی ۔کرپشن اور لوٹ مار ہی کی وجہ سے ایسی دولت بنائی جاتی ہے
جس کے ثبوت نہیں دیے جاتے ،جب کہ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ 30سال پرانی
ریکارڈ کون رکھتا ہے یہ بھی حقائق سے منافی بات ہے ۔ کاروباری لوگ ان پڑھ
اور جاہل ہی کیوں نہ ہوان کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور جب کاروبار
کروڑں اور اربوں کا ہو تو اس کا ریکارڈ کیلئے اپ کے باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ ہوتے
ہیں جو ٹیکس کو بچانے اور ادئیگی کے پورے پورے ڈاکومنٹس رکھتے ہیں ۔ عام
لوگوں کے لئے تو یہ ہوسکتا ہے کہ اپنی ریکارڈ نہ رکھیں لیکن بزنس کا ریکارڈ
ہمیشہ موجود ہوتا ہے ۔ایک آور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ساری
داستان یا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ہم نے کاروبار میں نقصان کیا ہے لیکن اس
کے باوجود ان کی دولت ہر ملک میں موجود ہے جس کا ابھی درست طریقے سے معلوم
نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کی تحقیقات ہوئی جو معلوم کرنا بھی مشکل ہے وجہ
اس کی یہی ہے کہ انہوں نے دبئی وغیر ہ میں اقامے لیے ہیں جس پر انہوں نے
وہاں بنک اکاونٹ کھلے ہیں جس کی بنیا د پر انہوں نے یورپی ممالک میں دولت
منتقل کی اور وہاں جائدادیں بنائی جس کی ریکارڈ پاکستانی شہریت کی وجہ سے
نہیں ہے بلکہ دبئی وغیرہ کی وجہ سے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب میں جو
کیسز ان کے خلاف شروع ہوتے ہیں ان ریفرنس میں نیب اہلکار کیا شامل کرتے ہیں
اور حقائق کو جاننے کیلئے کتنی سنجیدگی سے کام کیا جاتا ہے ۔ امید تو چلی
ہے کہ سچ سامنے آئے گا آج نہیں تو کل عوام کو حقائق سے باخبر ہوں گے اور
مجرموں کو سزا ملیں گی جس کا انحصار ہمارے مستقبل پر ہے کہ یہاں قانون کی
عملداری کو کیسے قائم کرنا ہے۔
قانون کی عملداری کو قائم کرنا آسان نہیں ہے ۔ راستے میں بہت مشکلات درپیش
ہوں گے اوربہت سے لوگ اس میں رکاوٹ بننے کی بھر پور کوشش کریں گے لیکن ملک
سے محبت کرنے والے اور قانون کی عملداری کو قائم کرنے والے ہمت نہ چھوڑیں
اور حقائق سامنے لاتے رہیں اس طرح ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا اور پڑھے
لکھے لوگ آگے آئیں گے جس طر ح ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور اسی طرح
ملک میں ایک نظام قائم ہوگا، جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہو۔
|