اب ن لیگ کی بقاء کیسے ممکن ؟

این اے 95 نواشریف کا حلقہ انتخاب ھونےکیوجہ سے مشہور تھا جبکہ این اے 96 شہبازشریف کے حوالے سے مشہور تھا۔۔ 2002ء کے انتخابات میں نئی حلقہ بندیاں وجود میں آگئیںِ جس نتیجے میں حلقہ 95 اور حلقہ 96 کے اھم ن لیگی علاقوں کا مجموعہ این اے 120 وجود میں آگیا۔۔۔

این اے 95 میں 1988ء میں شہبازشریف پہلی بار منتخب ھوکر پنجاب اسمبلی پہنچے اور انہوں نے اپنے کارکنان کا کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جبکہ میاں نوازشریف نے اپنے سیکرٹری حضرات کے ذریعے بھرپور توجہ دی۔۔

1990ء کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے شہبازشریف این اے 96 میں آگئے جہاں انہیں عوام کیطرف سے بھرپور پذیرائی ملی اور یہیں سے وہ پہلی بار وزیراعلی پنجاب بنے مگر
مشرف کے مارشل لاء تک وہ ن لیگی کارکنان سے وعدوں کی ریکارڈ فلمیں چلاتے رھے اور کوئی کام نہیں کیا۔۔
بعدازاں جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا اور دوبارہ ن لیگیوں سے وعدے کرتے رھے ۔۔ 8 سال کی جلاوطنی کے دوران 96 اور 95 کے ن لیگی کارکنان نے آمریت کیخلاف اودھم مچاکر رکھا، مشرف آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔۔ اس دوران میں بذات خود لاھور کا تنظیمی نائب صدر بنایاگیا اور اس سے الگ میری سربراھی میں 1990ء سے یونیورسٹیز اور کالجز سطح کے پوسٹ گریجویٹ طلبہ اور نوجونوں کی اک اکثریت نے " یوتھ ایکش کمیٹی " کے پلیٹ فارم سے نون لیگ کیلئے میدان سیاست میں سرگرم عمل تھی۔۔ اس تنظیم نے ن لیگ کے نوجوانوں کیساتھ اور شہبازشریف سیکرٹریٹ کی ٹیم کیساتھ میدان جنگ میں آمریت کیخلاف بھرپور کردار ادا کیا اور 40 سے لیکر کم از کم 5 تک دھشت گردی کے مقدمات جن پر بنے انکی طویل فہرست ھے، کارکنان جیلوں میں گئے۔۔ میرے سمیت اکثریت نے مقدمات کا سامنا کیا اور آمریت کیخلاف اپنے وسائل لٹا دیئے، 2007ء میں جب شہبازشریف واپس وطن تشریف لائے تو انہوں نے اسقدر وعدے کررکھے تھے اور ان سے جان چھڑانے کیلئے اپنا حلقہ بدلنے کو بہتر فیصلہ جانا۔۔ انہوں نے لاھور سے باھر اب تک مختلف جگہیں بدل کر انتخابات میں حصہ لینےکا ریکارڈ قائم کردیا ھے۔۔

جنہوں نے 9 سال شہبازشریف کیلئے انکی موجودگی میں کام کیا اور 8 سال جلاوطنی میں انکی غیر موجودگی میں دن رات کام کیا ان سب کو بری طرح سے دھتکار دیا گیا ۔۔ اور شہبازشریف کا آخری سیاسی مسکن این اے 129 رائیونڈ ٹہرا وہاں بھی وھی سب کچھ کیا جو اس سے قبل مختلف حلقوں میں نظریاتی کارکنان و عوام سے کرتے آئے۔۔

2007ء سے لیکر آج 2017ء تک پارٹی تنظیمی امور پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور تنظیمی امور کا یہ کام حمزہ شہبازشریف کے ذمے لگا دیاگیا جنکے پاس خود پارٹی کا کوئی نمایاں عہدہ نہیں تھا وہ جلاوطنی کے بعد پہلی
بار ایم این اے بنے اور آج دوسری بار منتخب ھیں

ن لیگیوں نے محسوس کیا کہ حمزہ شہباز نے پارٹی اصولوں کو چھوڑ کر الگ سے مخصوص نظر افراد کا ٹولہ بنایا جنکا جلاوطنی پیریڈ سمیت کہیں قابل ذکر جدوجہد ذکر تک نہیں جبکہ ن لیگ لاھور کا دفتر ملک پرویز MNA کی ذاتی رھائش گاہ پر موجود نظر آیا اور یہ انکی ن لیگ سے نظریاتی وابستگی کا اک بڑا ثبوت ھے

قبل اس کےجب تک طارق بلاک گارڈن ٹاؤن پنجاب کا ن لیگی آفس قائم رھا اسوقت تک پھر بھی کارکنان جمع ھوجایاکرتے تھے مگر جب اس جگہ سے پنجاب سطح کے ن لیگی اس تنظیمی دفتر کا خاتمہ کردیاگیا تو ضلع قصور کے اسوقت کے کسی حلقے کے ن لیگی ناظم میاں ممتاز نے مسلم ٹاؤن لاھور میں ایک وسیع کوٹھی بمعہ فرنیچر و کمپیوٹر اور بھرپور ساز وسامان پارٹی کودیا اور ن لیگ پنجاب کا تنظیمی دفتر یہاں شفٹ ھوگیا جبکہ لاھور تنظیمی آفس ملک پرویز کی رھائش گاہ میں آج بھی قائم ھے جبکہ 2012ء الیکشن سے قبل مرکزی سیکرٹریٹ 180ایچ ن لیگ کا مرکزی دفتر ڈکلیئر کیاگیا۔۔

2013ء کے انتخابات کے بعد یہ بھی بے آباد دانستہ اسطرح سے کیاگیاکہ اس عمارت کو وزیراعلی پنجاب کا کیمپ آفس قرار دیکر پارٹی کی مرکزی تنظیمی عمارت کو تالے لگا دیئے گئے اور وھاں قائم سنٹرل میڈیا سیل کو دانستہ بند کردیاگیا اور ھم میڈیا سیل سے منسلک تھے ھمیں بھی وھاں سے یہ کہہ کر بیدخل کردیاگیا کہ آپکو اسلام آباد شفٹ کیاجائیگا۔۔ مرکزی پارٹی سیکرٹریٹ بند کردیاگیا اور یہ واحد لاھور میں نوازشریف کا سب سے بڑا سیاسی ڈیرہ تھا جسے بے آباد کردیاگیا۔۔ یوں لاھور، پنجاب و مرکزی ن لیگی آفس بند ھوگئے اس دوران حمزہ شہباز کبھی بھی لاھور پارٹی آفس نہیں گئے بلکہ لاھور کی تنظیم کو آج تک ملک پرویز MNA اپنے ذاتی جیب خرچ سے چلاتے رھے اور چلارھےھیں

مسلم ٹاؤن لاھور میں قائم پنجاب کا ن لیگی آفس پچھلے 9 سال سے بےیارومددگار پڑا ھے اس تنظیمی صدر کا دروازہ تک نون لیگ پنجاب کے صدر جناب شہبازشریف نے نہیں دیکھا اور نہ کبھی تشریف لائے اور نہ ھی 2013ء سے لیکر اب تک نوازشریف صاحب مرکزی آفس 180 ایچ ماڈل ٹاؤن تشریف لائے اور نہ مریم نواز تشریف یہاں آئیں۔۔ یوں ن لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ تباہ و برباد کرکے بیوروکریسی کو ن لیگی تنظیم بنالیاگیا۔۔

اب چونکہ میاں نوازشریف کی بقاء تنظیمی ڈھانچے پر ھی ھے اور تنظیمی ڈھانچے کا یہ پرسان حال ھے کہ اسکا وجود تک نہیں اور اس اھم معاملے پر کبھی توجہ ھی نہیں دی گئی اور دوران جلاوطنی سمیت 2013ء الیکشن مہم تک جنہوں نے سنٹرل سیکرٹریٹ دن رات کام کیا انہیں ذلیل و رسوا کیا گیا۔۔ سنٹرل میڈیا سیل بندش کے بعد یہ خانہ بدوش میڈیا سیل بن گیا جو ابھی تک انفرادی طور پر میرے جیسے ادنا ورکر چلارھے ھیں۔

آج نواز شریف کو تنظیمی آرگنائزیشن پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ھے اور اگر 2018ء میں نوازشریف اکثریت سے جیتنا چاھتے ھیں تو انہیں عوام میں جڑیں پھیلانا ھونگی کہ اب واضح ھوچکا کہ پلیٹ میں رکھا اقتدار اب کبھی نہیں مل سکےگا البتہ عوامی زور و حمایت ھی انہیں دوبارہ اصل مقام دلاسکتی ھے اور اس حوالے سے بجائے مری، اسلام آباد کو اپنا سیاسی مسکن بنانے کے' انہیں لاھور میں آکر نئے سرے سے ھوم ورک کرنا ھوگا اور 2018ء تک تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی کیلئے اھم فیصلے کرنا ھونگے اسکے ساتھ ساتھ اب تک کام کرنیوالے میرے جیسے نظریاتی کارکنان کو ترجیحی بنیادوں پر ایڈجسٹ لازم کرکے حق تلفی کا ازالہ کرنا پڑیگا

این اے 120 میں ن لیگ کے زیادہ کمزور ھونے کی زیادہ ذمہ داری شہبازشریف پر عائد ھوتی ھے اور یہاں شہبازشریف پر کوئی اعتماد نہیں کرتا جبکہ 2013ء الیکشن مہم کے بعد مریم نواز کا بھی یہاں تشریف نہ لانا اور کسی کا کام تک نہ ھونا بڑی وجوھات ھیں اور یہاں سے شہباز شریف کا فرار ھونا سمجھ آتاھے کہ آج انکو خوب سمجھ میں آچکا کہ جو بویا تھا اسے اب کاٹنا ھی پڑیگا لہذا شہبازشریف نے یہاں سے الیکشن ضمنی لڑنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔۔

اب عوام ھو یا جماعتی کارکنان ۔۔ یہ سب امپورٹڈ امیدواران کیخلاف ھیں کہ یہ ملتے ھی نہیں اور یہاں اکثریتی آبادیوں میں صاف پانی، صحت و ترقیاتی کام و انفرادی کام کا تناسب زیرو ھی رھا۔۔ سارا فنڈ یہاں کے منتخب ن لیگی کھاگئے جنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔ آج این اے 120 میں ضمنی الیکشن کا معرکہ ن لیگ کیلئے گلے کی ھڈی بن گیا یوں یہ اب ن لیگی قیادت کیلئے اک بہت بڑا چیلنج ھے

حلقہ این اے 120 کے ن لیگیوں کے تحفظات جائز ھیں اور اگر قبل از انتخابات انکے اجتماعی و انفرادی کاموں کو ترجیح نہ دی گئی تو ن لیگ اپنی پرانی اس اھم سیٹ چلی جائیگی جسکا اثر پورے پنجاب پر نوازشریف کےحوالے سے منفی پڑیگا اور نوازشریف کا لاھوریوں سے 9 سال منہ موڑے رکھنا بھی منفی نتیجہ دیگا۔

شہبازشریف تو لاھور میں ن لیگی حلقوں میں وعدہ خلافیوں پر نیک نام ھرگز ھیں انہی کیوجہ سے نوازشریف کا ووٹ بنک اب خراب ھوچکا۔۔ یہ ایک ایسی سچ حقیقت ھے جس سے کوئی لاھوریا انکاری نہیں کریگا

اگر ن لیگ نے سیاست میں اپنا نام بچانا ھے تو لاھور کی اکثریتی آبادیوں کیجانب وسائل کا رخ موڑنا ھوگا، اب نعرے بازی کا دور کا خاتمہ ھوچکا، آج ن لیگ کا وجود بچانا اھم ترین ھدف ھے۔۔

لاھور میں ن لیگ سنٹرل سیکرٹریٹ کی بحالی سمیت مرکزی میڈیا سیل کی بحالی اشد ضرورت ھے اور جن متحرک کارکنان کو دھتکارا گیا انہیں ایڈجسٹ کرنے کیلئے اب بہت کم وقت دستیاب ھے۔۔ پارٹی کی بقاء انکے عملی اقدامات پر منحصر ھے کہ اگر انہوں نے پارٹی بچانی ھے تو انہیں پبلک آنا بھی پڑیگا جبکہ پنجاب حکومت پر مکمل انصار کا خاتمہ م کرنا ھوگا یہ سوچ کر کہ نون لیگ کی بقاء کو باھر کی بجائے اندر سے زیادہ خطرہ ھے۔۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334910 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More