عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کابینہ کے پہلے
اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تعمیر و ترقی کے ویژن کو جاری رکھنے
کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دس سالہ منصوبے کو آئندہ 10 ماہ میں مکمل کریں
گے، سی پیک، توانائی، اقتصادی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسیاں
اسی طرح جاری رکھی جائیں گی، کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدو جہد کی
حمایت بھی جاری رکھیں گے۔دوسری طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف اتوار کو
گاڑیوں کے بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے موٹر وے کے ذریعے اسلام آبا دسے
لاہور جائیں گے اور راستے میں کئی جگہوں پر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے
ہوئے اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق
حیدر خان کی قیادت میں آزاد کشمیر کے تمام اضلاع اور مہاجرین مقیم پاکستان
کے حلقوں سے آنے والے کارکنوں کی گاڑیاں بھی آزاد کشمیر کے جھنڈوں کے ساتھ
نواز شریف کے اس قافلے میں شامل ہوں گی۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی ہدایت
پر اس سال14اگست کو آزاد کشمیر میں یوم آزادی پاکستان خصوصی طور پر سرکاری
اور عوامی سطح پر بھر پور جوش و خروش سے منانے کے انتطامات کئے جا رہے ہیں۔
عمران خان کے خلاف پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی کے سکینڈل سے ملکی
نجی ٹی وی چینلز پہ وہ تین روزہ مسلسل مہم ختم ہو گئی جو وزیر اعظم آزاد
کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے ایک جملے کے حوالے سے یوں جاری رکھی گئی کہ
اسے کشمیر یوں میں وسیع پیمانے پر سخت توہین پر مبنی قرار دیا
گیا۔ہندوستانی ٹی وی چینل ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو غدار اور
دہشت گرد کہہ رہے ہیں اور اب پاکستانی نجی چینلز ،سوشل میڈیا سے بھی اس سے
ملتی جلتی آوازوں نے ہندوستان سے آزادی کی جدوجہد میں بے مثال قربانیاں
دینے والے کشمیریوں کو پریشانی اور تشویش سے دوچار کر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر
کے عوام پر ہندوستانی فورسز کے بہیمانہ مظالم اور حریت رہنمائوں کے خلاف
ہندوستانی حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کی صورتحال پر پاکستان میں لاتعلقی کا
بھر پور مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بھی اسی طرح کا رجحان واضح طور پر
محسوس کیاجا سکتا ہے۔عشروں پہلے کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ آزاد کشمیر میں
وادی کشمیر کا مہاجر تاش کے پتوں کے اس جوکر کی مانند ہے جو ہر پتے کی جگہ
فٹ ہو جاتا ہے اور کام نکل جانے کے بعد اسے ایک طرف رکھ کر بھلا دیا جاتا
ہے۔
ملک بھر میں سنجیدہ حلقوں کی طرف سے ملک میں جاری انتشار اور بے یقینی کی
صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کے وسیع تر مفادات کے
لئے مہلک اور ناقابل تلافی نقصانات کا موجب قرار دیا جا رہاہے۔تین اگست کو
مولانا فضل الرحمان اور عاصمہ جہانگیر نے ملک کی موجود ہ خطرناک صورتحال کے
حوالے سے عوام کو حقائق پر مبنی اہم باتوں سے آگاہ کیا۔پاکستان کی ایک اہم
عوامی دفاعی قوت مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس سے ولولہ انگیز خطاب
میں کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ' آزادی بنیادی حق ہے ، آج اگر ہمارا
کشمیری لڑ رہا ہے توآزادی کے لئے لڑ رہا ہے ، اپنے اس حق کے لئے لڑ رہا ہے
جو حق اقوام عالم ، اقوام متحدہ ، سلامتی کوسنل نے تسلیم کیا ہے ، لیکن آج
وہ عالمی سیاست کے ایک با زیچہ اطفال بن گئے ہیں ، مذاق کیا جا رہا ہے ان
کے ساتھ ، ان کی قربانیوں سے مذاق کیا جارہا ہے ، ہندوستان کی وہاں اشتعال
انگیزیاں کیا پیغام دے رہی ہیں ، وہ خطے میں ایک شدت کا ماحول پیدا کرنا
چاہتا ہے ، ایک مشتعل ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے ، وہ جنگیںچھیڑنا چاہتا
ہے،چائنا کے ساتھ جنگ پاکستان کے ساتھ جنگ تاکہ خطے میں جنگ پیدا ہو اور
ترقی کے تمام منصوبے خاکستر ہو جائیں، اس لئے ہمیں ایک ذمہ دار قوم کا
مظاہرہ کرنا ہو گا، کشمیریوں کی جدوجہد ایک تحریک ہے ، تحریکیں رکتی نہیں
ہیں، تحریکیں مدو جذر کا شکار ضرور ہو جاتی ہیں، نشیب و فراز کا سامنا کرتی
ہیں، اتار چڑہائو کا شکار ہو جاتی ہیں لیکن اس کی لہریں رکتی نہیں ہیں، اور
انشا ء اللہ آزادی کی یہ تحریک آگے بڑہتی رہے گی، فلسطین کی آزادی کی تحریک
آگے بڑہتی رہے گی، میں انڈیا کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا، انسانیت اور
انصاف ملنا چاہئے ،اس کا حق ملنا چاہئے''۔
انسانی حقوق کی ممتاز رہنما عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے اپنی پریس کانفرنس
میں کشمیر کا بھر پور تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' اسی طرح گلگت بلتستان کے
لوگ اپنے حقوق مانگ رہے ہیں،اسی طرح آپ دیکھیںکہ کس طریقے سے ،مجھے بڑا
افسوس ہوا ،بہت ہ لی افسوس ہوا،ہم نے آزاد کشمیر کے پرائم منسٹر کے ساتھ
کیا الفاظ استعمال کئے،یہ اچھے الفاظ نہیں تھے،ہمارے لئے ادھر کا کشمیر ہو
اور ادھر کا کشمیر ہو،ہم ان کی جدوجہد کے ساتھ ہیں ،ہم سرینگر کے کشمیریوں
کے ساتھ ان کی جدوجہد ان کی اوپریشن کے خلاف ہم ہمیشہ آواز اٹھائیں گے،اس
کی مذمت کریں گے،مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کشمیری بھارئی ہمارے ساتھ
بیٹھے ہیں جڑ کے،ہم ان کے پرائم منسٹر کی تذلیل سرعام کریں ، یہ غلط بات
ہے''۔ کشمیر ہم جنگ کر کے نہیں لے سکتے ہیں، کشمیر ہمیں لینا پڑے
گاinteractionسے engagementسے ،چاہے وہ انگیجمنٹ بڑی خطرناک قسم کی
انگیجمنٹ ہو،میں یہ نہیں کہتی کہ آپ جائیں اور انہیں پیار کریں کہ پلیز دے
دیں۔لیکن جب ہم بات ہی نہیں کریں گے ،قطع کلامی کر دیں گے تو ہم کس طر ف
جائیں گے''۔ |