ماہ اگست شروع ہوتے ہی میرے دل و دماغ میں یہ بات بندھی
ہوئی تھی کہ پاکستانی پرنٹ ہو یا الیکٹرونک میڈیا ،پاکستان کے ستر ویں
سالانہ جشن آزادی کے موقع پر انتہائی جوش و خروش کیلئے اپنی نشریات کا ایک
بڑے حصہ کی زینت بنائے گا، دل و افسوس کی بات تو یہ سامنے نظر آئی کہ
حکومتی چینل پی ٹی وی ہو یا نجی تمام چینلز وہ تمام تر سیاسی اصطبل میں
گدھے گھوڑیوں کی طرح بندھے نظر آئے، کوئی کسی پارٹی کی جگ جگ کرتی گائیں
بنا پھرتا تھا تو کوئی کسی کا کوا بنا کائیں کائیں کرتا نظر آیا، نہ ہمارے
معاشرے کے مسائل پر کوئی عکس بندی ہوتی نظر آئی اور نہ ہی آزادی کے حوالے
سے وہ آن ایئر اسپیس نظر آیا جو ایک زندہ قوم کے آزاد ملک کی آزاد
میڈیا کو حاصل ہے،نجی چینلزنےتصاویر اور وڈیو ناظرین سے آزادی کے حوالے سے
طلب کرکے تحائف کی چمک دکھاتے ہوئے کی ہے لیکن درحقیقت وہ سیاسی آسیر سے
باہر پھر بھی نکل نہ سکے ہیںکیونکہ پاکستانی ناظرین جانتے ہیں کہ عائشہ
گلالئی ہو یا عائشہ احدکی بلاوجہ اور بیکار باتوں میں تمام میڈیا اپنا وقت
ضائع کرتی چلی آرہی ہے، یہی نہیں نا اہل وزیر اعظم میاں نوازشریف ہوں یا
دیگر اپوزیشن جماعتوں کے شکوہ شکایت یا پھر حکومتی اراکین کی شرارتوں کو
فوکس کیا،کیا صرف آئی ایس پی آر کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ نئے ملی نغمے
لاؤنچ کرے ، بیس سے زائد ایسے نجی چینلز ہیں جن کے پاس جدید آلات ہیں اور
وہ بہترین ملی نغمے بناکر مارکیٹ میں داخل کرسکتے ہیں، یوں تو فلمیں ہو یا
ڈرامے آئے روز ناظرین کیلئے لاؤنچ کیئے جاتے ہیں مگر افسوس در افسوس یہ
کیسی حب الوطنی ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے ایک نغمہ نہین بنایا
جاتا۔۔۔؟؟؟ پندرہ اگست کو بھارت اپنا جشن آزادی منائے گا اور پاکستانی
میڈیا کو اپنے منہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ بھارتی میڈیا اپنے دیش کیلئے سب
سے زیادہ فوقیت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا دنیا بھر میں پاکستانی
چینل سے برتری حاصل کیئے ہوئے ہے۔۔معزز قارئین!! پاکستانی میڈیا درحقیقت
سیاسی میڈیا سیل بن چکا ہے ، پی پی پی ، پی ایم ایل نون، ایم کیو ایم
پاکستان ،پی ایس پی ، جے آئی، جے یو آئی ایف، اے این پی،پی ٹی آئی، پی
اے ٹی سمیت کئی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے سربراہ اگر جلسے و جلوس سے
خطاب کریں تو اپنا تمام بلیٹن ان کیلئے وقف کردیتے ہیں ، نہ پروفیشنلز ازم
کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی آزادی صحافت کا۔۔!! یہ حال ہمارے رپوٹرز
ہوں یا چیف بیوروز ان کا بھی کسی سے الگ نہیں۔۔۔ ، ہر وہ رپورٹر جس کو کوئی
بیٹ ملی ہو وہ اسی سیاسی جماعت کا رکن بن کر رہ جاتا ہے اور صحافت کے تمام
اصولوں کو توڑ کر جوڑ توڑ میں اپنا وقت صرف کردیتا ہے ۔۔۔ صحافت گویا
زندانوں میں بندھ کر رہ گئی ہو، یہ کسی نے نہیں خود صحافی اور صحافتی
اداروں نے کی ہے۔۔۔۔ منافقت ہو یا مصالحت اب صحافت کے اجلاسوں، فیصلوں اور
ارادوں میںداخل ہوگئی۔۔۔۔ مالکان کو سمجھانا، مشورہ دینا جہاں ،جہاں دیدہ
اور دور نظر صحافیوں کی ذمہ داری ہے وہیں وہ با اختیار افسران بھی شامل ہیں
جو مالکان سے بھاری تنخواہ کیساتھ بھرپور مراعات حاصل کررہے ہیں ، ایسے
افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو اپنے چینل کا وہ چہرہ دکھائیں
کہ دیکھنے والے کہ اٹھیں کہ یہی وہ چینل ہے جس کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں یعنی
کسی ایک سیاسی جماعت کی جانب جھکا ہوا نہ ہو ، معزز ناظرین۔۔۔!!سی این این،
بی بی سی، الجزیرہ، آر ٹی، سی این بی سی سمیت کئی بڑے چینلز کو دیکھا جائے
جہاں صحافت اور آزادی میڈیا کے اصولوں کا خیال کیا جاتاہے تو وہاں ہمیں
پرسنٹیج کے حساب سے تمام امور کو دیکھا جاسکتا ہے ،کوئی بھی بلیٹن بلاوجہ
ضائع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی ایک اشو پر تمام وقت نہیں رکا جاتا البتہ
گاہے بگاہے بڑے اشو ز پر رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔۔۔۔، پاکستانی میڈیا دنیا
بھر کے بڑے سے بڑے اشوز سے غافل نظر آتی ہے انہیں دنیا کے بڑے اشوز پر بھی
نظر رکھنی چاہیئے شائد یہ اس لیئے نہیں کررہے کہ پھر سیاسی جماعتوں کو اپنا
اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا حکومتی ہوں یا اپوزیشن سیاسی جماعتیں ان سے عوام
ان کی ذمہ داریوں کے متعلق سوالات کریں گے شائد پاکستانی میڈیا سیاستدانوں
کی ڈھال بنا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کئی سالوں سے پاکستانی میڈیا میں مثبت
سیاسی سرگرمیوں کے بجائے منفی دائرہ کار کی جانب زیادہ مصروف عمل نظر آتا
ہے، اس بابت صحافتی تنظیمیں اور خاص کر پیمرا کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا کو اس بابت پابند کرے کہ وہ کسی بھی سیاسی
جماعت کا میڈیا سیل نہ بنے۔۔۔، معزز قائرین!! پیمرا سے لائسنس لیتے وقت
مختلف اشوز کا پرسنٹیچ لکھا جاتا ہے لیکن پاکستانی میڈیا تمام اصولوں کو
روندھا ہوا اپنی من مانی پر اترا ہوا ہے گویایہاں قانون نام کی کوئی شئے
نہیں۔۔۔ !! جب ہماری میڈیا ہی قانون شکنی کریگی تو پھر عوام کیا سیکھے گی۔۔،
حالیہ دور میں نا اہل وزیراعظم کو جس طریقے سے میڈیا میں پیش کیا جارہا ہے
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کی کوئی وقعت نہیں۔۔۔!! جس ملک میں سپریم
کورٹ کی کوئی وقعت نہ ہو یعنی قانون کو اپنی لونڈی سمجھا جائے وہاں ریاست
کیونکر بہتر انداز میں چل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔معزز قائرین!! سابق صدر و ریٹائرڈ
جنرل پرویز مشرف کے بقول آمر دور میں ہی پاکستانی نغموں اورجذبوں ، ولولہ
انگیز احساسات کی بھر مارنظر آتی ہے ان کے مطابق یاد رکھنے کی بات ہے کہ
کبھی بھی جمہوری دور میں جشن آزادی کے تہوار کو اس عالیشان سے نہیں منایا
گیا جس طرح آمر یاافواج پاکستان مناتی ہے، پرویز مشرف کے مطابق کیا صرف
پاکستانی افواج ہی عالیشان انداز میں جشن آزادی کی تقاریب منعقد کرے یقیناً
افواج پاکستان تا قیامت عالیشان سے عالیشان انداز میں جشن آزادی مناتی رہے
گی لیکن عوام اور ان کے ووٹرز پوچھتے ہیں کہ وہ وطن عزیز پاکستان کیلئے
اپنی پارٹی کے علاوہ وہ عالیشان جشن کیوں نہیں مناتے نظر آتے ہیں، ان کے
مطابق کیا سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ملی نغمے بنانے سے قاصر ہیں یقیناً
انہیں پارٹی نغموں کیساتھ خالصتاً ملی نغمے بھی بنانے چاہئیں کیونکہ سب سے
پہلے پاکستان۔۔۔۔!!!سترویں جشن آزادی میں چند روز باقی ہیں لیکن ہماری
میڈیا نے نہ ریسرچ کے تحت نئے پروگرام دیکھائے ہیں اور نہ ہی ان چند زندہ
شخصیات کے انٹرویوز پیش کیئے ہیں جنھوں نے تحریک پاکستان کو اپنے آنکھوں
سے دیکھا ہے، نہ ہماری ذہین قابل لوگوں کی خدمات کو میڈیا کا حصہ بنایا گیا،
عوام کے درماین پائی جانے والے جزبات و احساسات کو اجاگر کیا گیا۔۔۔۔۔!!ہماری
میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے چینلز کو جشن آزادی
کے اُس خوبصورت رنگ سے بھر دیں کہ دنیا کہہ اٹھے کہ پاکستانی قوم اور
حکمران زندہ ہیں اور اپنے وطن کی محبت سے سرشار ہیں ۔۔۔۔ پاکستانی میڈیا
واقعی اپنی حب الوطنی کا مظہر ہیں، آج کا کالم کا عنوان میں نے اسی لیئے
یہی چنا کہ شائد دل میں اتر جائے میری بات اور ہمارے میڈیا کے با اختیار
افسران ان چند دنوں میںروشن اور جذبہ و جوش کا بھرپور مظاہرہ پیش کرسکیں
کیونکہ بھارتی میڈیا نے سترویں آزادی کو بھرپور انداز میں منانے کا فیصلہ
کیا ہے ، پاکستان سمیت دنیا جانتی ہے کہ بھارتی حکومت نے جس طرح مظلوم نہتے
کشمیریوں پرظلم کے پہاڑ کھڑے کیئے ہوئے ہیں اور بھارت بھر میں جس طرح اقلیت
کے حقوق کو سلب کیا ہوا ہے اورقتل غارت گری کا بازار گرم کیا ہے وہ اب ڈھکا
چھپا نہیں رہا دوسری جانب ہماری افواج پاکستان بھارت سمیت دیگر پاکستان
مخالف قوتوں کے شرپسندانہ عزائم جس میں دہشتگردی کا مقابلہ کررہی ہے اسے
کوئی خاص خاطر میں نہیں لایا جاتا ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی میڈیا
حقائق کو دنیا میں بھرپور انداز سے پیش کرتی یہ حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم
لیگ نون نے انتہائی منفی انداز اپنایا ہوا ہے جس سے ملک و قوم کو نا تلافی
نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ، فوج کی مداخلت ان کیلئے سیاسی شہادت بن
سکتی ہے مگر عوام سمجھ چکے ہیں کہ پاکستانی مخالف سیاسی جماعتوں نے چینلز
کے پلیٹ فارم خرید لیئے ہیں اور تو اور پیمرا میں سیاسی چیئرمین تعینات
کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیئے جارہے ہیں اس بابت سپریم کورٹ کو بھی از
خود نوٹس لینا چاہیئے پیمرا میں کبھی بھی سیاسی چیئرمین قطعی طور پر نہیں
آنا چاہیئے کیونکہ یہ ریاست کا بہت حساس ادارہ ہے۔۔۔۔۔ معزز قائرین!!
پاکستانی میڈیا کو اس وقت تک پزیرائی حاسل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنی
نشریات کو بیلنس کرکے نہ چلائیں یوں تو ہر کوئی اپنے آپ کو نمبر ون کہتا
ہے لیکن کبھی بھی اُس ویب سائٹ کی تصویر ساتھ پیش نہیں کی جس مین نمبر ون
ظاہر کیا گیا ہو بس گویا لفظوں کی جنگ اور خودساختہ نمبر ون کی بازگشت ہوتی
رہتی ہے ۔۔۔۔۔!!درحقیقت نمبر ون وہ چینل بن سکتا ہے جو اعتدال میںرہتے ہوئے
پمیرا کے قانون کے تحت اپنی نشریات کو پیش کرسکے کیونکہ پمیرا نے بڑی تحقیق
کے بعد اپنا قانون بنایا ہے جس میں عوام کی دلچسپی کیساتھ عدل انصاف اور
اعتدال شامل ہے ،اب دیکھنا ہے کہ ہماری میڈیا اپنا قبلہ کب درست کرتی ہے ،
اللہ ہمیں سب کو ہدایت بخشے، حق و سچ کیساتھ رہنے، کہنے اور پیش کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین !! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔!! |