نواز شریف کی نااہلی کے بعد عاصمہ جہانگیر کی طرف سے
سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ فوج کے خلاف جو بیان بازی کی جارہی ہے اور اسی طرح
ایک میڈیا گروپ بھی اِس میں پیش پیش ہے۔ ایسے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے
کہ پاک فوج کے خلاف زہر اُگلنے کامطلب مودی کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔پاک فوج
کے خلاف جو محاذ اِس وقت کھولا جارہا ہے ایسے حالات میں جب سی پیک منصوبے
پر کام جاری ہے۔ اور پاک فوج کو بھارت افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر جس
طرح دشمن کا سامنا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کی حمایت میں آکر فوج کو تنقید
کا نشانہ بنانا درست رویہ نہیں ہے ۔ فوج ایک ادارہ ہے جوہماری سرحدوں کا
نگہبان ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں فوج پر تنقید کا سلسلہ شروع کردیا گیا
ہے اور اس کے لیے پہلے سے ہی مشور بھارتی نواز عاصمہ جہانگیر کا سہارا لیا
گیا ہے۔ قارئین آئیے نواز شریف صاحب کی سوچ کا جائزہ لیتے ہیں۔سابق
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ قومی خزانے میں کوئی کرپشن کی ہوئی
تو کوئی بات تھی مجھ پر سرکاری خزانے سے ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں
لیکن مجھے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ بہت کچھ سمجھ رہا ہوں اور کہنا بھی
چاہتا ہوں لیکن فی الحال خاموش رہنا چاہتا ہوں۔ پورا ملک درست ڈگر پر چل
رہا تھا۔ سی پیک پر زور و شور سے کام ہو رہا تھا کہ اچانک یہ سب کچھ کیا ہو
گیا؟ ترقی کاعمل رک رہا ہے انتشار کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ لیکن میں تاحال
خاموش ہوں‘ قانون پسند ہوں۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں‘ لیکن کہیں
قانون بھی تو ہونا چاہئے۔ جمہوری عمل پر یقین رکھتا ہوں۔ پاکستان اس پر
قائم رہے تو مضبوط بھی ہو گا اور ترقی بھی کرے گا۔ دائیں بائیں کرے گا تو
انتشار ہی ہو گا۔ میثاق جمہوریت پر اب بھی قائم ہوں۔ اس پر عمل کر کے
جمہوریت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ محترمہ بینظیربھٹو اور میں نے مل کر
میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ اس کی تیاری میں محمد اسحاق ڈار‘ میاں رضا
ربانی‘ احسن اقبال اور صفدر عباسی نے بڑی محنت کی۔ میں نے میثاق جمہوریت پر
عمل کر کے دکھایا ہے۔ آج بھی اس پر عمل کیلئے تیار ہوں۔ انہوں نے یہ بات
ہفتہ کو پنجاب ہاؤس میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر
صحافیوں سے خصوصی ملاقات کے دوران کہی۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے
اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب‘ سابق وفاقی وزیر پرویز رشید‘ عرفان صدیقی‘
مریم نواز اور حسن نواز بھی موجود تھے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ جب آصف
علی زرداری صدر کے منصب پر فائز تھے تو میں نے ان سے کہا‘ آپ ہمارے صدر ہیں
اور قابل احترام ہیں۔ ان کے ریٹائر ہونے پر ان کو باوقار طریقے سے رخصت
کیا۔ ہم نے بلوچستان کے قوم پرستوں سے کہاکہ وہ آگے آئیں اور مین سٹریم میں
اپنا کردار ادا کریں۔ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی معمولی اکثریت تھی۔
مولانا فضل الرحمن اور ہم مل کر حکومت بنا سکتے تھے لیکن ہم نے پی ٹی آئی
کو حکومت سازی کا موقع دیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ ملا۔ اس کو
حکومت بنانے دی۔ ہم نے میثاق جمہوریت کے پیش نظر سندھ میں پیپلز پارٹی کو
اکثریت ملنے پر اس کے مینڈیٹ کا احترام کیا‘ لیکن پیپلز پارٹی نے میثاق
جمہوریت پر عمل نہیں کیا۔ پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ ہم نے ججوں کی
بحالی کی تحریک میں حصہ لیا۔ جب ہم گوجرانوالہ پہنچے تو اس وقت ججوں کی
بحالی کا اعلان ہو گیا تو ہم نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ روک دیا‘
لیکن یہ مارچ ججوں کی بحالی کے لئے تھا۔ پنجاب حکومت کی بحالی کے لئے نہیں۔
ہم نے پنجاب حکومت کی بحالی کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہمیں ملک بدر کیا گیا۔
2006-7ء کی بات ہے مجھے اور پرویز مشرف سے ملاقات کرانے کی کوشش کی گئی اور
کہا گیا کہ وہ آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں‘ جو آپ کے مفاد میں ہے لیکن میں
نے کوئی این آر او نہیں کیا۔ چند دن پہلے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔
میں نے کہا کہ نظریاتی آدمی ہوں۔ آدمی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتا ہے۔ غلطیاں
سبق سکھاتی ہیں۔ ٹھوکریں کھاکر آدمی سنبھلتا ہے۔ ملک بدری بھی ایک ٹھوکر
تھی۔ انہوں نے کہاکہ میرے والد سے لے کر بچوں تک احتساب ہو رہا ہے۔ ایسی
کوئی عدالت قائم ہو جو ان ڈکٹیٹروں کو بھی سزا دے لمحہ فکریہ ہے سوچنا ہو
گا پاکستان کو جس طریقے سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس طرح پاکستان نہیں
چلے گا۔میاں نواز شریف نے کہا کہ آئین کی پامالی نہیں ہونی چاہئے‘ جو بھی
آئے مرضی کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں۔ قوم کو ان فیصلوں میں شامل ہونا
چاہئے۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہو گیا۔ کتنے لوگ روئے تھے پاکستان دو لخت
ہو گیا اس سے کسی نے سبق سیکھا؟ اکبر بگٹی کو بے دردی سے مار دیاگیا۔ آج
دوبارہ بلوچستان کا امن تباہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا
کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ مجھے کیوں ہٹایا
گیا۔ آہستہ آہستہ سب آنکھوں دیکھا حال بتاؤں گا۔ دھرنا 2-1 اور 3 میں کیا
ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھے نااہل قرار دیاہے۔ مجھے اس
بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‘ کوئی کک بیک لی یا سرکاری رقم خوردبرد
کی‘ پاکستان کا خزانہ لوٹا۔ اگر میں کرپشن پرنااہل ہوتا تو میری آنکھیں
شرمسار ہوتیں۔ مجھے میرے بیٹے کی فرم سے تنخواہ نہ لینے ور ریٹرن داخل نہ
کرنے پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ جب پیسہ کمایا ہی نہیں اور وصول بھی نہیں
کیا تو ٹیکس ریٹرن کیونکر فائل کی جاتی قومی سطح کا کوئی بہت بڑا غبن ہوا‘
کرپشن کا سکینڈل بنتا تو کوئی بات ہوتی۔ 10 ہزار درہم جواس وقت 15 روپے فی
درہم تھا ڈیڑھ پونے دو لاکھ روپے تنخواہ بنتی ہے۔ سرکاری خزانے سے کوئی
پیسہ بھی لیا جاتا تو اعتراض کی بات بن جاتی۔ اس سے زیادہ ملک و قوم کے
ساتھ مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں پاکستانی اور
بین الاقوامی نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میں نے کوئی سرکاری پیسہ نہیں کھایا۔
انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر کس منہ سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ جمہوریت سے آمریت
بہتر ہے۔ وہ پاکستان واپس آنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ ہم نے تو عوام کی خدمت
کی ہے۔ سٹاک ایکسچینج 19 ہزار پوائنٹ پر تھا۔ جسے ہم 54 ہزار پوائنٹ پر لے
گئے۔ ہم ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک بیٹے نے باہر سے
پیسے بھجوائے دوسرے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس پر اعتراض سمجھ سے بالاتر
ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی وزیراعظم کے ساتھ اس سے بڑا اور مذاق کیا ہو سکتا
ہے کہ مجھ سے اور بچوں سے پوچھا رہا ہے کون سا پیسہ ہے جوناجائز طریقے سے
کمایا ہے؟ نیب میں جو کیسز بھیجے جاتے ہیں سرکاری خزانے میں غبن سے متعلق
ہوتے ہیں۔ یہ پہلا کیس ہے جو ہمارے باپ داداکی کمپنی کی تحقیقات کرنے جا
رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا جو کچھ ہوا سب میڈیا کے سامنے ہے۔ بیٹے کی کمپنی
سے تنخواہ ہی نہیں لی تو ریٹرنز میں فائل کرنے کی کیا ضرورت ہے، جو کچھ اس
وقت چل رہا ہے یہ پاکستان کیلئے بہتر نہیں، بہت کچھ سمجھ میں آ رہا ہے کہنا
چاہتا ہوں لیکن ابھی خاموش رہنا چاہتا ہوں، جس طرح سے یہ کام ہوا ہے میں اس
پر ابھی تک خاموش ہوں، نہیں چاہتے کہ کسی طرح کی کوئی انتشار والی بات ہو۔
لیکن میں ہمیشہ خاموش نہیں رہوں گا، آہستہ آہستہ لوگ خود سمجھ جائیں گے۔
ہمیں 1971ء کے سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھنا چاہئے تھا لیکن ہم نے نہیں سیکھا۔
ماضی کا ڈکٹیٹر (مشرف) کہتا ہے جمہوریت سے ڈکٹیٹر شپ بہتر ہے نہ جانے وہ کس
دنیا میں رہتا ہے۔ پاکستان آنے کی جرات نہیں، یہاں آئے پبلک میں بات کرے تو
اسے پتہ چلے۔ جس نے دو مرتبہ آئین کو پامال کیا اس کو کسی عدالت نے پکڑا
اور سزا دی؟ کیا کوئی ایسی عدالت بنے جو اس ڈکٹیٹر کو سزا دے سکے؟ ہم نے اس
ملک کو بہت مشکل سے بہتر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کو بے
دردی سے مارا گیا اورحالات کو خراب کیا گیا۔ کیا کسی نے ذمہ داروں سے
پوچھا؟ کیا کسی کا احتساب ہوا؟ کیا کسی کو سزا ملی؟ ہم نے ملک سے دہشت گردی
کا خاتمہ کیا اور کراچی کے حالات بہتر کئے۔ ہم جمہوریت کو آگے بڑھانا چاہ
رہے ہیں اس طرح سے کام نہیں چل رہا اور اگر ایسا چلتا رہا تو آگے بات نہیں
بنے گی اور خدانخواستہ ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
گزشتہ چار برس کے دوران انہوں نے کسی مسئلہ پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ ان
کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی چاہتے تھے کہ فوجی عدالتیں بننی چاہئیں۔ وہ خود
بھی چاہتے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے، کہیں کہیں چیزیں
بہتر کرنے کے لیے آگے بڑھے اور چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کی تھی، ملک کے
اندر بہتری کی جو صورتحال ہے وہ اس بات کا عندیہ ہے کہ گزشتہ 4 برس میں
کافی کام ہوا ہے۔ ہم نے کراچی، بلوچستان اور پورے پاکستان کے حالات کو بہتر
کیا ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ جب ملک میں جمہوریت ہو گی تو میڈیا بھی
آزاد رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ آزادی کیساتھ موثر انداز میں رابطہ
عوام مہم کو آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ثبوت تو دور کی بات کرپشن کا
الزام تک نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ گالم گلوچ کا جواب نہیں
دیا نہ وہ زبان استعمال کی، پاکستان کی سیاست کو اچھی سمت میں لے جانا
چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت سے ہٹے تو انتشار ہوگا۔ نوازشریف کا
کہنا تھا کہ ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ ملک تباہ کیا جبکہ ہم نے جمہوری اقدار کو
فروغ دیا۔ |