ہمارے ملک میں یقینا آمریت کا غلبہ رہا ہے مگر کیا اس کے
ذمہ دار یہاں کے ناکام سیاستدان نہیں ہیں کیا؟ آمر ہمیشہ اُس وقت اقتدار پر
قبضہ کرتا ہے جب اُس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اُس کو عوام کا سہارا مل
جائے گا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد عوام یقینا مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔
پاکستان کے سیاستدان ہمیشہ جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سوال
یہ ہے کہ جو جمہوری نظام ہمارے ملک میں رائج ہے کیا اس میں عام آدمی کے لئے
بھی کچھ گنجائش ہے یا نہیں۔ کیا ہمارے ملک کا عام شہری ممبر قومی یا صوبائی
اسمبلی بن سکتا ہے۔ ایک قومی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کم از کم ایک سے
دو کروڑ کے اخراجات درکار ہوتے ہیں۔ ایک عام شہری اتنے سارے اخراجات کہاں
سے برداشت کرے گا اور جو لوگ ایک سے دو کروڑ لگا کر ممبر قومی اسمبلی یا
صوبائی اسمبلی بنتے ہیں کیا وہ اپنے دل میں خالصتاً عوامی خدمت کا جذبہ رکھ
کر آتے ہیں یا اُن کے ذہن میں ہوتا ہے کہ 1 کروڑ لگایا اور اب 1 ارب بنانا
ہے۔ ہماری عوام کے کیا بھی کیا کہنے ہیں کہ اگر کسی حلقے سے کوئی عام شہری
انتخاب میں حصہ لینے کی غلطی کر لے تو وہ کسی عام شہری کو ووٹ دینے کے لئے
تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہماری عوام ووٹ اُسی کو دیں گے جس کے پاس دولت، بڑی بڑی
گاڑیاں اور جو حسب و نسب رکھنے والا شخص ہو گا۔ ہماری عوام خود اپنے لیے
خالصتاً عوامی شخص کو پسند نہیں کرتے اور کیا کہنے ہیں ہماری جمہوری
پارٹیوں کے کہ وہ بھی ٹکٹ اسی کو دیتے ہیں جس کے پاس ٹکٹ خریدنے اور متعلقہ
سیاسی پارٹی کو فنڈنگ کے لئے پیسے ہوتے ہیں۔ سیاسی جمہوری پارٹیوں میں بھی
عام غریب کارکن کی اہمیت و حیثیت صرف نعروں کی حد تک ہے۔ بس عام کارکن
قربانیاں دیتا رہتا ہے اُس کی عمر گذر جاتی ہے مگر وہ اسمبلی میں بیٹھنے کا
اہل نہیں بن پاتا۔ ہمارے ملک پاکستان کی جمہوریت بھی عجب جمہوریت ہے۔ یہاں
اسمبلی میں قوانین میں ترمیم باآسانی ہو سکتی ہے اگر اُن ترامیم کا تعلق
براہ راست ارکان اسمبلی کے مفادات سے ہو، لیکن اگر کوئی ایسا قانون منظور
کرانا ہو جس میں عام آدمی کو رعایت ملنی ہو تو وہ شاید ممکن نہ ہو اس کے
لیے جمہوری اسمبلی میں کبھی بھی کورم پورا نہیں ہو گا۔ ہمارے جمہوری معاشرے
میں کسی بھی عوامی منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے چار سے پانچ سال درکار ہوتے
ہیں۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے بڑے منصوبے دنوں میں مکمل ہو
جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں سالوں اس لیے لگ جاتے ہیں کیونکہ ہماری عوام کو
جتنا ذلیل و خوار کیا جائے اتنا ہی وہ منصوبہ مضبوط اور کارآمد ہو گا۔ اگر
یہاں بھی بڑے بڑے منصوبے دنوں میں مکمل ہونا شروع ہو جائیں تو ہماری عوام
اس منصوبے کی مضبوطی پر سوالات اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی
جمہوریت سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہاں پر عوامی مفادات کا سودا حاصل کرنے کا نام
جمہوریت ہے۔ یہاں پر 20 کروڑ کی عوام کے لیے 50 سے زائد وزیر بنا دئیے جاتے
ہیں۔ من پسند مشیر بھی رکھ لیے جاتے ہیں۔ کچھ کو معاون خصوصی کا برائے نام
عہدہ دے دیا جاتا ہے اور جو بچ جاتے ہیں اُن کو مختلف بڑے اداروں کا
چیئرمین بنا دیا جاتا ہے۔ ہر کسی کے لیے پروٹوکول اس قدر ہے کہ سمجھ سے
بالاتر ہے۔ دُوسری طرف کینیڈا کا وزیراعظم ٹرین میں سفر کرتا ہوا نظر آتا
ہے اور چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ میں عوام کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں لگاتا ہوا
بھی نظر آتا ہے۔ یہاں پر ایک برائے نام وزیر نے گذرنا ہو تو عوام کا سکھ
چین چھین لیا جاتا ہے۔ آخر کب ہمارا جمہوری معاشرہ ٹھیک ہو گا؟ کب ہم بھی
کہہ سکیں گے کہ یہاں پر واقعتا وہ جمہوریت رائج ہو چکی ہے جس کا مقصد صرف
اور صرف عوام، عوام اور بس عوام ہیں۔ جمہوریت کا مقصد عوام کی خدمت کرنا
ہوتا ہے۔ اگر یہاں پر جمہوریت کے معنی اُلٹ ہیں یعنی عوام سے خدمت کرانا۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |