کسی بھی تحریک میں کامیابی کے لئے خواتین کا اس
تحریک میں شامل ہونا نہایت ضروری ہے۔دنیا کی کوئی تحریک ایسی مذہبییا
سیاسیتحریکایسی نہیں ہے جس میں خواتین کسی نہ کسی شکل میں شامل نہ رہی
ہوں۔ہم تحریکِ اسلامی سے اس بات کی ابتدا کرتے ہوئے تحریک ِپاکستان کی طرف
آئیں گے۔ جب میرے نبیِ محترمﷺ نے اسلام کی تحریک کا آغاز فرمایا تو اُم
المومنین حضرت خدیجۃالکبریٰ نے تحریکِ اسلامی میں شامل ہو کر اپنا سب
کچھ(عرب کی امیر ترین خاتون ہونے کے باوجود)رسولِ محترم کی اسلامی جدوجہد
پر نا صرف قربان کر دیا بلکہ اس تحریک میں خدیجہ رضی اﷲ عنہ، رسولِ مکرم کے
ساتھ رہیں۔خدجۃالکبریٰ ہی وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے میرے نبی کی رسالت
کو بغیرکسی موٹیویشن قبول فرمایا۔جس کے دوران انہوں نے شعبِ بنی ہاشم میں
تین سال ایسی تکالیف بھی اٹھائیں جن کے نتیجے میں وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
جب تحریکِ پاکستان ابھی ابتدائی مراحل میں تھی تو مولانا محمد علی جوہراور
مولانا شوکت علی کی والدہ محترمہ ’’بی اماں‘‘نے مسلمانان ہند کو موٹیویٹ
کرنے کی غرض سے اپنے دونوں بیٹوں کو تحریکِ خلافت کے لئے آگے بڑھایا ۔ اسی
طرح تحریِک پاکستان کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح بے حد اہم خاتون تھیں۔جو
میرے قائد کی چھوٹی بہن تھیں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ اپنے
عظیم بھائی کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہیں۔کیونکہ بھائی ایسے عارضے میں
مبتلا تھے کہ دشمنوں کو خبر ہوجاتی تو پاکستان کا وجود ناممکن بنا دیتے۔جب
مسلم لیگ کی تنطیم کو خواتین میں فعال کیا گیا تو محترمہ فاطمہ جنا ح ہی
خواتین میں قائد اعظم کا پیغام پہنچایا کرتی تھیں۔محترمہ فاطمہ جناح نے
ساری زندگی شادی کا تصور تک نہ کیا۔ پاکستان اور بھائی کی خدمت میں زندگی
صرف کردی، جو ایک عظیم مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے ۔محترمہ فاطمہ جناح
مسلم لیگ کے شعبہ ِ خواتین کی مختلف کمیٹیوں کی بھی رکن رہیں لیکن کبھی بھی
کوئی عہدہ قبول نہ کیا۔قیام ِپاکستان کے بعد بھی وہ قومی تعمیری امور میں
حصہ لیتی رہیں۔ جس کے نتیجے میں قوم نے انہیں ماڈرِملت‘‘ کاکے خطاب سے نواز
ا تھا۔مگر ہمارے ایک طاقت کے نشے میں چور اقتدار کے بھوکے جنرل نے اپنے
ذاتی مفادات کے حصول کے لئے اس عظیم خاتوں کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دے کر
قیامت تک کے لئے اپنے سیاہ چہرے پر مزید کالک مل لی۔
مسلم لیگ کی تنظیم ِنو کے دوران خوتین مسلم لیگیوں کی ضرورت محسوس کی گئی
تو 1937 میں مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں خواتین مسلم لیگ کمیٹی کی صدر
بیگم مولانا محمد علی جوہر کو مقرر کیا گیا جنہوں نے خواتین مسلم لیگ کی
تنظیم نو کی، مسلم لیگ کی نائب صدر کی حیثیت سے بیگم عبداﷲ ہارون نے بیگم
جوہر کے ساتھ مل کر خواتین کے اندر تحریکِ پاکستان کے لئے بیداری کا جذبہ
پیدا کیا۔سندھ میں بھی بیگم جوہر کے ساتھ مل کر بیگم عبداﷲ ہارون نے تحریک
میں پاکستان کے لئے بہت اہم کام کئے۔ تحریک ِپاکستان میں بنگال کی خواتین
بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں۔جو ہر موقعے پر قائد اعظم کے شانہ بشانہ پیش پیش
تھیں۔ان میں بیگم شائستہ اکرام اﷲ ایک بہت اہم خاتون تھیں۔انہوں نے انڈیا
گرل گائڈ فیڈریشن قائم کر کے بچیوں کو تحریکِ پاکستان کا حصۃدار بنانے میں
اپنا اہمکردار ادا کیاتھا۔
تحریکِ پاکستان میں پنجاب کی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں۔فاطمہ بیگم
قائد اعظم کے حکم پر لاہور آئیں اور اپنی ذات کو لیگی کاموں کے لئے وقف کر
دیاانہوں نے پیجاب میں ایک زنا کالج کی بنیادرکھی اور خواتین کے لئے رسائل
کا بھی اجراء کیا۔ 1946 میں جب خضر حیات حکومت نے پنجاب میں ملت سے سرتابی
کی تو قائد اعظم کا ساتھ دینے والوں میں بہت بڑی تعداد خواتین کی تھی ۔جب
بھی قائد لاہور تشریف لاتے خواتین ان کے جلسوں میں جوق درجوق شامل
ہوتیں۔سندھ کی بیگم غلام حسین ہدایت اﷲ نے پنجاب میں سول نا فرمانی کی
تحریک کی قیادت کی تو سرحد کی بیگم کمال الدین بھی ان میں پیش پیش تھیں
پنجاب کی ایک نوجوان خاتون فاطمہ صغرانے بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے لاہور
کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر مسلم لیگ کا ہلالی پرچم لہرا دیا۔جب 1947میں
ہندوستان کے مسلمانوں پرہندو مظالم بڑھے تو بیگم سلمیٰ تصدق حسین نے
مہاجرین کے لئے پنجاب میں رِلیف کیمپ قائم کیا۔ ان کے علاوہ تحریک پاکستان
کی پنجاب میں اہم خواتین میں بیگم گیتی آرا،بیگم شاہنواز،بیگم میاں محمد
شفیع، بیگم وقار النساء نون اور بیگم سلمٰی تصدو حسین شامل تھیں ۔
صوبہ سرحد موجود ہ خیبر پختونخوا میں یہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے خواتین
کے لئے تحریکِ پاکستان کا مرحلہ بہت ہی دشوار تھا خواتین کی تنظیم سازی
کرنا نہایت مشکل کام تھا۔سرحد میں خواتین مسلم لیگ کا پہلا جلسہ فاطمہ بیگم
کی کوششوں کے نتیجے میں ہوا۔جس میں سرحد کی ایک نڈر خاتون بیگم کمال الدین
ابھر کر سامنے آئیں انہوں نے گاؤں گاؤں جا کر قائد اعظم کا پیغام خواتین کو
پہنچای اورانہیں تحریکِپاکستان کیلئے منظم کیا۔اس سے قبل بیگم کمالالدین
عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے 1921 میں ترکی کا دورہ بھی کر چکی تھیں۔
1943میں سرحد (خیبر پختون خوا )کی دو خواتین کو مسلم لیگ کا رکن چُنا گیا
م۔جن میں ایک بیگم کمال الدین اور دوسری بیگم عبدالوہاب تھیں۔یہ خواتین
پنجاب میں بھی اپنابھر پور سیاسی کردار اد ا کرتی رہی تھیں۔اور گرفتار بھی
کی گیئں مگر تحریکِ پاکستان کے لئے ان کے پایائے استقلال میں کوئی فرق نہیں
آیا۔اس صوبے میں کانگریسی وزارت کے خلاف نے ضلع ہزارہ سے بیگم کمال الدین
نے سول نا فرمانی کی تحریک کا بھی آغاز کیا۔بیگم زری سرفراز کو یہ شرف حاصل
ہوا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس1941 کے مسلم لیگ کے اجلاس میں خواتین کے
کے کردار کوبھر پور انداز میں اجاگر کیا۔انہوں 1945/46کے انتخابات میں نا
صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ سول نافرمانی کی تحریک کے جلوسوں کی قیادت بھی
کرتی رہی تھیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن جب صوبہ سرحد میں آیا تو وہ خوتین کے
احتجاجی جلوس کو دیکھ کر اکا بکا رہ گیا۔زری سرفراز نے سرحد میں خواتین
نیشنل گارڈ بھی منظم کی۔ان کے علاوہ صوبہ سرحد کی دیگر اہم خواتین میں بیگم
ممتاز مجید، بیگم سردار حیدر نیازاور رضیہ بٹ قابل ذکر خواتین میں شامل
تھیں۔ درج لا تمام خوتین تحریکِ پا کستان کے خوااتین کے ہراول دستے کا حصہ
رہیں |