14 اگست یوم آزادیِ پاکستان

پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان، قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ یہ شب عبادت، پاکستان کی سعادت پر اور یوم جمعۃ الوداع اس مملکت خداداد کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ رمضان اور قرآن استحکام پاکستان کے ضامن اور آزادی کے محافظ ہیں۔ عید آزادی ہمارا تمدنی، تہذیبی تہوار ہے۔ایک دن، ایک عہد۔رنگ مذہب اور ذات کو بالاطاق رکھتے ہوئے اکٹھے ہوئے۔ وہاں کوئی پنجابی سندھی یا پٹھان نہیں تھا۔ وہاں پاکستان تھا ۔

14 اگست کا دن ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب وطنی کا جذبے بھرپور ایک خاص دن ہوتا ہے ۔۔ ایک ایسا دن جس کا بچوں اور نوجوانوں کوعید کے دن کی طرح ہی انتظار ہوتا ہے ۔۔ گھروں ، چھتوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کو لوگ سجانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ بچوں کے سکولوں کالجوں وغیرہ میں بھی خاص پروگرام ہوتے ہیں ۔ ایک تو سب کو سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے تو سب لوگ اس دن کو پورے جوش اور جذبے سے مناتے ہیں ۔14 اگست صرف ایک دن نہیں بلکہ ایک خاص تہوار ہے جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا ۔۔ بڑے بزرگوں سے پاکستان بننے کی داستانی سسنے کو ملتی ہیں جس سے جذبہ حب الوطنی میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے ۔۔ بزرگوں کی ملک کی خاطر لازوال قربانیوں کی داستانیں سن کر ملک کی خاطر کچھ کرنے کا جذبہ و ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے بزرگوں کی طرح کچھ کرنا چاہیے انھوں نے بڑی مشکل اور محبت کے ساتھ اسے بڑی قربانیوں کے بعد بنایا ہے اب ہمیں بھی اس ملک کو مذید بہتر پرامن بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

14 اگست کا دن پاکستان میں قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اس کے علاوہ پاکستانی جو بیرونِ ملکوں میں مقیم ہیں وہ بھی بہت جوش خروش سے اس دن کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔۔ 14 اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات ملی تھی۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آ ج سمجھا جانے لگا ہے۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں تھیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا خوبصورت بات کی تھی۔: پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا:۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ بار بار سامنے آتے رہے تھے۔ برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے۔ یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان اس نظریاتی اساس کے پاسدار تھے ۔ وہ قرآن حکیم ہی کو پاکستان کا آئین و قانون تصور کرتے تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ صرف اسلامی نظام کے حوالے سے ہی مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کے علمبردار تھے۔ بانیان پاکستان کی فکر سے دوری آزادی کی برکات سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے۔

14 اگست جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔ لیکن اِدھراسلام آباد اور پنچاب کا سیاسی موسم بڑا گرم ہے ۔ پانامہ کا ہنگامہ ، نواز شریف کی نااہلی ، وزیر اعظم کی تبدیلی ، نئے الیکشن کی تیاریاں ، چل رہے ہیں ۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔ مگر کشمیر کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا کشمیر بھارت کے ظلم و ستم میں جل رہا ہے میں اپنے کئی آرٹیکل اور بلاگز میں ذکر کر چکا ہوں کہ اسکا واحد حل زور بازو یعنی اپنی بہادر افواج کے ذریعے کشمیر کو بھارت سے چھوڑانے میں ہی ہے

تحریک پاکستان کے دوران بر صغیر کے کونے کونے میں : لے کے رہیں گے ٗپاکستان ۔بن کے رہے گا ٗپاکستان ۔اورپاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔لا الہ الا اﷲ : ۔۔۔۔خیبر سے لے کرراس کماری تک ہر جگہ یہی نعرے گونجتے تھے۔ یہ نعرے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلی جذبات کے حقیقی ترجمان تھے۔عرصہ دراز سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کو آزادی ملنے کی اُمید پیدا ہو چلی تھی۔وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو بنیا کی غلامی میں چلے جائیں گئے۔ وہ ہر طرح کے سامراج سے چھٹکارا چاہتے تھے۔اس مقصد کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دیں مگر اس مقصد سے پیچھے ہٹنا انہیں گوارا نہ کیا۔ یہی جذبہ آج بھی کشمیریوں میں موجود ہے ۔ کشمیریوں کا آج بھی یہی نعرہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔لا الہ الا اﷲ ۔ ہم کیا چاہتے آزادی ‘‘ خاص کر کشمیری قوم گزشتہ اکیس سال سے لہو لہان ہے ۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کا سیاستدان چالاک اور آرٹ لوگوں کے تضحیکی کارٹون بنانا ہو۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی تاریخ بھول جاتی ہو اور قصے کہانیاں یاد رکھتی ہو ۔ ہمیں اپنی تاریخ اور کشمیر کی آزادی کو نہیں بھولنا چاہئے بلکہ کشمیریوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔۔

آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکا کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکا کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا۔ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے چند برس ميں لاکھوں کے قریب جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی ۔ سلام ہے کشمیریوں کی ہمت اور حوصلوں کو کہ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ آج بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان کو ہر ہر موقع پر یاد رکھیں تاکہ اُن کی ہمت نہ ٹوٹے ۔

پاکستان لاتعداد قربانیوں کے طفیل وجود میں آیا۔ قربانیوں کی ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے جو ہمارے آبا ؤ اجداد کے دلوں میں محفوظ ہے۔ شاذ و نادر کوئی سچا واقہ ہمارے سامنے کوئی بزرگ پیش کرتے ہیں تو انکی آنکھیں نم ہو جاتی اور آواز رندھ جاتی ہے۔ ایک فلم جو انکی بینائی سے محروم ہوتی ہوئی آنکھوں میں چلنے لگتی ہے، ان انکھوں میں آگ کے شعلے بھی نظر آتے ہیں اور ادھر ادھر بھاگتے معصوم و لاچار لوگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم اس درد کو اور اس تکلیف کو نہیں سمجھ سکے اور شاید نہ ہی سمجھ سکیں گے۔ وہ بزرگ آج بھی تصور میں وہ لال رنگ جس کی ہولی دشمن نے بہت بے رحمی سے کھیلی تھی، اپنے کپڑوں پر محسوس کرنے لگتے ہیں اور بے خیالی میں اپنے کپڑے جھاڑنے لگتے ہیں۔ تازہ تازہ لہو کی مہک پھر انہیں ستانے لگتی ہے۔ بکھری ہوئی بے سر و پا لاشیں، آبروریزی کی چیخیں انکا دل دہلانے لگتی ہی ہیں۔

یہی حال کشمیر کے مسلمانوں کا ہے وہ آزادی کی خاطر کئی سالوں سے قربانیاں دے رہے ہیں ۔۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے تقریباً6کروڑ لوگ رواں سال بھی بھارت کے یوم آ زادی کو یوم سیاہ کے طور پر روایتی انداز میں منائیں گے۔ہڑتالوں، سیاہ پرچم ، مظاہروں کے ساتھ اس عزم کا اعادہ کیاجاتا ہے کہ بھارت سے مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی ۔ جب پاکستان کا جشن آزادی کا دن ہوتا ہے تو اس دن کشمیری بھی بھرپور جوش و جذبے سے اسکو مناتے ہیں ۔۔ جو مظالم بھارت نے کشمیریوں پر ڈھائے وہ کسی چنگیز خان اور ہٹلر نے بھی نہیں ڈھائے ہوں گے۔ تا ہم بھارتی نسل کشی کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو وہ کچل نہ سکا۔ انشاءاللہ جلد ہی کشمیر اپنی آزادی کی جنگ جیت لے گا۔ ویسے بھارت کے ظلم و ستم خطے میں بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اور کئی علاقے بھارت سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ بھارت کشمیر پر ظلم و ستم کر کے اپنے ملک کے ہی ٹکڑے کر رہا ہے ۔۔ اور تو اور شمالی مشرقی بھارت میں ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، ناگا لینڈ، تری پورہ، میگھالیہ، میزورم، سکم جیسی ریاستیں جہاں بھارتی فورسز عوام پر پے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے۔ بھارت نے یہاں کے عوام کوغلام بنا رکھا ہے۔جس کے خلاف وہ بر سر پیکار ہیں۔ یہاں لا تعداد جنگجو تنظیمیں سر گرم ہیں۔ نیشنل لبریشن کونسل آف تنی لینڈ، الفا، بوڈو لینڈ کی تحریکیں، کربی لبریشن فرنٹ، یونائیٹڈ پیپلز ڈیموکریٹک، ڈھیما حالام ڈیوگا، کمتا پور لبریشن آرگنائزیشن، کوکی باغی، نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ، پیپلز نیشنل لبریشن آرمی منی پور، کنگلی پاک پارٹیاں، ناگا نیشنل کونسل، آل تری پورہ ٹائیگر فورس، ماؤ تحریکیں اور دیگر لا تعداد علٰحیدگی کی تنظیمیں سر گرم ہیں۔ یہ سب 15اگست کو پورے خطے میں ہڑتال کرتی ہیں۔ بھارتی فورسز پر حملے کئے جاتے ہیں۔ بھارت یہاں کے عوام کی بھی نسل کشی کر رہا ہے۔ یہاں کے ہزاروں قبائلی لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ لیکن بھارت خواب غفلت میں ہے جلد ہی اسکے ٹکڑے ہو جائیں گے اور کشمیر بھی آزاد ہوگا ۔۔ انشاءاللہ ۔

قربانیاں دے کر آزادی حاصل کرنے والوں کی زمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ غلام قوموں کو آزادی دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔پاکستان کو حاصل کرنے میں لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔ اور اس وقت بھی لاتعداد کشمیری قربانیاں دے چکے ہیں ہمیں ان پر بھارت کے ظلم و ستم خلاف انٹرنیشنل سطح پرہمیں آواز اٹھانی چاہیے۔ اسکے علاوہ ہمیں زور بازو سے اپنی شہہ رگ کشمیر کو چھڑوانا ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔پاکستان میں 1951ء کو کئے گئے پہلے سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی۔80لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور 60لاکھ ہندو پاکستان سے بھارت گئے۔اس دوران مختلف واقعات میں 10لاکھ لوگ مارے گئے۔50ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ ہندوانتہاپسندوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت مختلف قافلوں میں پاک سر زمین پر قدم رکھنے کے آرزو مند مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا۔بزرگوں ،بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جوان عورتوں اور کم سن بچیوں کو اغوا کرنے کے افسوسناک سانحات پیش آئے ،آج بھی ان گمشدگان کی تلاش جاری ہے ۔یہ کہنا اور سننا آسان ہے کہ فلاں شخص کی بیٹی یا بہن کو اغوا کرلیا گیا لیکن عملی طور پر یہ سانحات پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندانوں کے ساتھ پیش آئے ۔ ان کے لواحقین پر کیاگزری ہوگی؟اس بارے صرف سوچاہی جاسکتاہے اس دکھ ودردکو محسوس کرنا انتہا ئی مشکل ہے۔ ہندوانتہاپسندوں نے تلواروں،کرپانوں ،سلاخوں اور برچھیوں پر مسلمان شیر خوار بچوں کو اچھالا ۔مسلمانوں کے گھروں،املاک و باغات کو آگ لگادی ۔ بستیاں اور بازار راکھ بنادئیے گئے ۔ان کی جائیدادوں پر قبضہ جمالیاگیا ،جو قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے ان کو جگہ جگہ لوٹاگیا اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔لاتعداد لوگ زندہ جل مرے۔لاتعداد عفت مآب خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا ۔ اس داستان الم کو سن یا پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ہوا جو مسلمان بھارت میں رہ گئے انہیں مشکوک، غداراور پاکستان کے ایجنٹ مسلمان کہاجاتا ہے ۔ بھارت میں انتہا پسندوں کا آج بھی یہ نعرہ ہے ’’ہندو کا ہندوستان، مسلمان کا قبرستان‘‘۔

کشمیریوں کے خون سے بھارت میں چراغاں اورجشن ہوتا یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے اور دنیا (اقوامِ متحدہ وغیرہ) کے سامنے بھی بھارت کے ظلم و ستم واضح کرنے چاہیں ۔ شہداء کی تعددا بڑھ رہتی ہی جا رہی ہے۔ سیکڑوں بچوں کو پیلٹ فائرنگ سے نا بینا بنا دیا جاتا ہے ۔ کشمیریوں پر یوں بھی اگست کے ماہ میں بھارتی فورسز مظالم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔بھارتی ترنگا جھنڈیاں تقسیم ہوتی ہیں ۔بھارتی پرچم گھروں ،گاڑیوں اور دکانوں پر لہرانے کے احکامات ملتے ہیں ۔ اگست کی آمد پرپوری وادی کشمیر میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ کردیاجاتا ہے ۔ جسکے خلاف کشمیری احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں ۔ رہائشی گھروں پر بھارتی فوجی چوکیاں قائم کی جاتی ہیں ۔ ہزاروں نوجوان بھارتی فورسز کی حراست میں ہیں۔ ان پر شدید تشدد کیا جاتاہے۔پوری وادی کی سڑکوں پر جگہ جگہ کریک ڈاؤن ہوتے ہیں۔لوگوں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں ۔بستیوں کے تلاشی آپریشن کئے جاتے ہیں۔چھاپے ڈالے جاتے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔جیلوں سے رہاہونے والوں کو نئے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔انہیں کیمپوں اور تھانوں میں حاضر کیا جاتا ہے۔اور یہی حال پوری مقبوضہ وادی میں ہوتاہے ۔ بھارت اپنا یوم آزادی بڑے دھوم دھام سے کشمیر یوں کوقیدکر کے اور ان کی تمام آزادیاں چھین کرمناتا ہے ۔آزادی منانے کے لئے بھارت ہزاروں کشمیر یوں کو فوجی کیمپوں پر حاضر ہونے ،نظربند کرنے اور غلامی کاتصوریاد دلاتا ہے ۔کشمیر میں یوم سیاہ کے دوران عام ہڑتال ہوتی ہے اور سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں ۔عملی طور پر وادی میں سول کرفیونافذرہتا ہے ۔البتہ 14 اگست کو لوگ عقیدت واحترام میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ پاکستانی پرچم کو سلامی دیتے ہیں ۔بازاروں میں اور رہائشی علاقوں میں بھارتی فورسز کی موجودگی اور جارحیت کے باوجودلوگ چراغاں کرتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان کی طرح کشمیریوں کو بھی آزادی کی نعمت سے مالا مال کرے ۔

کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے کے لئے سب کو آگے لانے کا یہی وقت ہے۔ کشمیری ایسی قربانیاں پیش کر رہے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی قوم نے ایسی جدوجہد نہیں چلائی ہو گی۔ بھارت پر سفارتی، سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے پاکستان اور آزاد کشمیر کو اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ تا کہ بھارت کو مطالم فوری بند، فوج کا انخلاء ، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے لئے مجبور کر دیا جائے ۔ تکمیل پاکستان آزادیِ کشمیرسے وابستہ ہے،مودی نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت تسلیم کر لی ہے،عالمی برادری کو کلبھوشن ، اور بلوچستان میں مودی کی مداخلت کے ثبوت دیکھا کرہم کشمیر پر بات کرنے کا کہہ سکتے ہیں ۔ میں کس زبان سے کہوں جشن آزادی مبارک میری دھرتی کشمیر جل رہی ہے ہر طرف لہو لہو ہے میری جنت کشمیر میں میرے بھائی شہید ہو رہے ہیں بچے شہید ہو رہے ہیں ماوءں بہنوں کی عصمت داری ہو رہی ہے ہر گھر سے جنازہ اٹھا جا رہا ہے میری جنت لہولہان ہے ۔

ہمارے بزرگوں کی ساری قربانیاں ہمارے بے خوف مستقبل کیلئے تھیں۔ وہ ہماری بے خوف زندگی کے خواہاں تھے۔ ہم نے آزاد وطن میں، آزاد آب و ہوا میں، آزاد آذان کی گونج میں آنکھ کھولی ہے۔ ہم نے ہنستے بستے چہرے دیکھے ہیں۔ ہم نے لہلاتے کھیتوں میں اپنے کسانوں کو ہل چلاتے دیکھا ہے۔ ہم نے اپنی مرضی سے راستوں کا تعین کیا ہے۔ ہمیں آزادی ورثے میں ملی ہے۔ ہمارے لئے آزادی کی جد و جہد کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ مگر جو آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں انکا ساتھ تو دینا چاہیے کشمیر کو بھارت کے چنگل سے چھڑانا ہمارا فرض ہے تاکہ پاکستان کی تکمیل ہو اس پاکستان کی جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا اور جسکی خاطر اتنی قربانیاں دی۔۔

مجھے اس وقت زیادہ حوصلہ ملتا ہے جب مجھے یہ یاد آتا ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، کس کس کو دہشت گرد کہو گے، کہہ لو جس کو بھی کہنا ہے مگر ہم کہتے رہیں گے کہ کشمیر میں دہشتگری کی مجرم بھارتی فوج ہے اور بھارتی ریاست ہے، اسے ختم ہونا چاہئے، بر بریت کا یہ سلسلہ ستر سال سے جاری ہے، فرعو ن نے بڑے مظالم کئے، بخت نصر ایک جابر حکمران تھا، ہلاکو اور چنگیز نے لاشوں کے ڈھیر پر تخت سجایا،ہٹلر کو ہولو کاسٹ کا مجرم کہا جاتا ہے مگر بھارت نے جبر اور قہر اور دہشت گردی کے سارے ریکارڈ مات کر دیئے ہیں، اور ساری دنیا بھارت کی اس دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ یاد رکھیں کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے، پاکستان میں ایک لفظ کشمیر کا شامل ہے۔ اس لفظ کو شامل کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا پڑے گا-

کشمیر اس لئے بھی پاکستان کی شہہ رگ ہے کہ لفظ پاکستان میں شامل کاف کا حرف کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لئے کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔کشمیر اس لئے بھی پاکستان کی شہہ رگ ہے کہ تقسیم ہند اور آزادی کے فارمولے کی رو سے اسے ایک مسلم اکثریتی اور پاکستان سے ملحقہ ریاست کے طور پر ہمارا ہی حصہ بننا تھا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر بھارت نے جونا گڑھ اور حیدر آباد کی ہندو اکثریتی آبادی کی ریاستوں کو بزور طاقت اپنے اندر شامل کر لیا تھا۔ حالانکہ ان کے مسلمان حکمران پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکے تھے۔ مگر بھارت نے ان کے اس اعلان الحاق کو جوتی کی نوک پر رکھا اور کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے ایک جعلی اعلان الحاق کو الہامی دستاویز قرار دے دیا اورفوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ جما لیاگیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح نے رکھی تھی ۔ایک تو انہوںنے یہ فرمایا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، دوسرے انہوں نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کو روکنے کے لئے افواج پاکستان کو احکامات جاری کئے۔ جو کہ انگریزوں کی سازش کا شکار بنے مگر اب جب ہمارے پاس دنیا کی طاقت ور افواج ہیں مگر سیاست دانوں میں کوئی ایسا قائد اعظم کی طرح کوئی ایسا بہادر حکمران نہیں جو پاک فوج کو کشمیر آزاد کروانے کی اجازت دے ۔۔

کشمیر پاکستان کی اس لئے بھی شہہ رگ ہے کیونکہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ ایک تو یہ ریاست مسلم اکثریتی آبادی والی ہے، دوسرے پاکستان سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں ، تیسرے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریاﺅں کامنبع کشمیرہے،انپر بھارت کے قبضے کا مطلب یہ تھا کہ وہ جب چاہے پاکستان کو اس کے حق کے پانی سے محروم کر دے ۔

بانی پاکستان کا یہ حکم کہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے بزور طاقت آزاد کرایا جائے، اس حکم کو آج کوئی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کر سکتا ہے مگر دوسری طرف پنڈت نہرو نے بھی اسی دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا تھا اور بزور طاقت ہی کشمیریوں کی امنگوں اور آرزوﺅں کے برعکس ان کو غلام بنایا تھا، صدر ٹرمپ اگر یہ کہتے ہیں کہ بزورطاقت سرحدیں تبدیل نہیں کرائی جاسکتیں تو بھارت نہرو کے دور ہی سے بزور طاقت اپنی سرحدیں تبدیل کر رہا ہے۔

اب رہا کشمیر کو بزور طاقت آزاد کرانے کا حکم جو بانی پاکستان نے جاری فرمایا ، اس پر عمل کرنے سے اس وقت کے انگریز آرمی چیف نے انکار کر دیا۔میرے پاس اس امر کی تصدیق کرنے کے ذرائع نہیں ہیں کہ کیا ان صاحب نے یہ دلیل دی تھی یا نہیں کہ سرحد کے دونوں طرف انگریز ٹروپس موجود ہیں، ا سلئے وہ کوئی ایساقدم نہیں اٹھائیں گے کہ ایک طرف کے انگریز فوجیوں کے ہاتھوں دوسری طرف کے انگریز فوجی ہلاک ہوں۔ بالفرض ان صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا بھی ہو تو ان سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ یہی اعتراض نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے متحدہ انگریز کمانڈر نے نہرو کے سامنے کیوں نہ رکھا۔ ویسے اب تو انگریز حکومت نہیں ہے اور نہ ہی آرمی چیف انگریز ہیں تو حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کو بزور طاقت کشمیر حاصل کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی ؟؟

میرا ایک سوال ہے کہ اگر افواج پاکستان حکومت کے منع کرنے کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لیے کوشش کریں تو کیا ہم عوام انکا ساتھ دیں گے ؟؟ یا نہیں ؟؟ اگر نہیں تو کیا ا س کا مطلب ہے کہ کشمیر پر ہم صرف نعرے بازی کے شوق میں مبتلا ہیںمگر عملی طور پر کشمیریوں کی مدد کرنے ا ور اپنے دریاﺅں کے منبع واگزار کروانے کے لئے ہم سنجیدہ نہیں ہیں، کیا یہ ہماری قومی بے عملی ا ور بے حسی نہیں ہے، کیا ہم نے قائد اعظم کے فرمان کی حکم عدولی بحیثیت قوم کے نہیں کی۔

دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر جتنا ظلم کشمیر میں ہو رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں شاید مشکل سے ہی ملے. نجانے وہ صبح کب طلوع ہو گی جب ہم مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر امن و محبت کے گیت لکھیں گے. جب بہتے جھرنوں کے کنارے ہم لہو داستانیں نہیں بلکہ وفا اور چاہت کے قصے دہرائیں گے. جب مئورخ صرف مسکراہٹوں کی بات کرے گا. جب اس کے پاس کوئی ظلم و بربریت کی داستان نہیں ہو گی. جب وادی کا تمام سبزہ گنگناتا ہوا نظر آئے گا. جب کشمیری آنسوؤں کی زبان میں نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے ساتھ اپنا مدعا بیان کریں گے. کب وہ دن آئے گا ۔ کشمیر جنت نظیر کو بھارتی غاصبوں کی قید میں جانے کتنے برس بیت گئے ہیں. شہادتوں کی گنتی تو کسی حساب میں ہی نہیں ہے ۔ ایک طرف تو بھارتی حکومت کشمیر میں امن کا راگ الاپتی ہے اور دوسری طرف کشمیر میں تعینات افواج کی تعداد میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے. بھارتی حکومت ہزاروں کی تعداد میں فوجی دستے کشمیریوں کو کچلنے کے لیے بھیج چکی ہے. بھارتی افواج کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ۔

پاکستان سے محبت کشمیریوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے. کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ہم اپنے جسم کے اس حصے کو کسی قیمت پر خود سے الگ نہیں کر سکتے.

اب رہی بات انکی جو دوقومی نظریہ اور پاکستان کے بارے میں جو لوگ غلط باتیں کرتے ہیں انھیں کشمیر کے حالات نظر نہیں آ رہے ۔ جمعوں کشمیر میں بھارتی کیسے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ؟ برصغیر میں دو قومی نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔ ملک اور آزادی کی قدر غلام ملکوں سے پوچھو ، کشمیریوں سے فلسطینیوں ، عراقیوں سے پوچھو ۔ کشمیریوں کی چوتھی نسل تحریک آزادی میں برسرپیکار ہے۔ شہادتوں کا یہ سفر اس بات کا عزم ہے کہ بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پوری قوم قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے ۔مگر پاکستانی سیاست دان محض چند بینرز اور یک جہتی کا راگ الاپ کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ تو کررہے ہیں مگر ان کے کردار اور جدوجہد میں اخلاص نہیں ہے۔آج یوم آزادی پر وہ لوگ جو ہندوستان کے تلوے چاٹتے ہیں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں ۔تمہاری سوچ آج بھی ہندوں کی غلام ہے۔ پہلے سوچ سوچ بدلو۔ کشمیری عوام، پاکستان زندہ باد کا نعرہ وادی میں اپنے خون سے تحریر کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اخلاص اور لالچ کے بناء لڑیں اور سری نگر کے لال چوک میں قومی پرچم لہرانے کا کشمیریوں کا خواب پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔

یوم آزادی پاکستان قریب آتے ہی محب وطن شہریوں نے جشن آزادی کو بھرپور انداز میں منانے کے لئے تیاریاں شروع کی ہیں۔ ہر پاکستانی اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ منانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ پاک فوج کی کوششوں کی بدولت پرامن چودہ اگست کا انعقاد ممکن ہورہا ہے سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنایا جا رہا ہے ۔۔ پچھلے چند سالوں سے فراری خود ہی جشن آزادی کے موقعہ پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں ۔ اس بار بھی امید ہے کہ بچے کچے فراری بھی خود کو پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کر پرامن پاکستان میں شمولیت اختیار کریں گے اور ملکر ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کریں گے ۔۔ اسکے بعد بچے انھیں پھول اور تحفے پیش کرتے ہیں ۔ اور فراری عہد کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔۔میں پاک آرمی کی کوششوں کو سہراتا ہوں کہ دہشت گردی کی ستائی قوم کو روشن کل کی نوید پاک فوج سے ملتی ہے ۔ پاک فوج کے جوانوں نے ہر محاذ پر اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کا وہ حق ادا کیا کہ آج پاکستان کا ہر شہری پاک فوج کے جری جوانوں کو سلیوٹ کر رہا ہے۔ پاک فوج نے قبائلی علاقوں سے دہشتگردی کے ناسورکا خاتمہ کرنے کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں، پاک فوج کے افسروں اورجوانوں کی قربانیوں کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ انکی قربانیوں کی بدولت علاقے میں امن قائم ہورہا ہےـ فوج نے دہشتگردی پر قابو پا کر حالات سازگار بنا دیئےہیں۔پاک فوج کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیئے، پاک فوج کی قربانیوں سے ملک اور شہر محفوظ ہوئے، پاک فوج کی خدمات ہماری قوم زندگی بھر نہیں بھلا سکتی۔اقوام متحدہ نے اعلیٰ ترین سطح پر عالمی امن کیلئے پاکستانی فوج کی جانب سے پیش کی گئی قربانیوں کا اعتراف کر لیا۔ ملک بھر کے عوام یوم آزادی اتحاد ویکجہتی کے ساتھ مناکر میلی نظر رکھنے والے ملک دشمنوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیں ۔ پاکستان کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے پاکستانی قوم افواج پاکستان کے ساتھ اپنے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں ،پاکستان کا یوم آزادی منانا اللہ عزوجل کے احسان کا شکر بجالاناہے ،پاکستان ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ثمر ہے پاک فوج ملک کی سلامتی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے حالت جنگ میں ہے ،دہشتگردی کے خاتمے اور ملک کی بقاء کے لئے پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے ،ملک دشمن قوتوں کا صفایا کرکے ہی ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتاہے ،پاک فوج ،رینجرز ،پولیس کی امن وامان کے قیام اور دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں زبان،رنگ و نسل ،ذات پات سے بالاتر ہوکر سوچیں۔ پاکستان اس وقت تک جنگ نہیں جیت سکتا جب تک ہر پاکستانی محافظ اورسپاھی کی طرح نہ سوچنے کیونکہ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاھی ہے ۔
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا

ہرسال جشن آزادی کو خراب کرنے کے لیے دشمن عناصر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ہمیں اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھنی چاہیے ۔ پچھلے سال بھی دہشت گردوں نے جشن آزادی کے موقعہ پر دہشت گردی کی وارداتیں کی تھیں ۔۔ جس کا مقصد صرف اور صرف جشن آزادی کی تقریبات کو خراب کرنا ، آزادی کے رنگ میں بھنگ ڈالنا ، مگر سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پرنٹ کر کے صرف دراز میں سمبھال کر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے ؟؟ حکومت کب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرامد کروا کرسکیورٹی صورتحال بہتر بنائے گی ؟؟ خیبر سے کراچی تک اور گلگت سے گوادر تک ہمارا بچہ بچہ آزادی کے جزبے سے سرشار ہے
۔ مجھ فخر ہے ہماری نوجوان نسل پر جو اس ملک کی سر بلندی کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے آپریشن ردالفساد اور آپریشن خیبر فور چل رہا ہے ۔ ہمیں اپنی فورسز کے ساتھ ملکر اپنے ملک دشمن عناصر کو کچلنا ہے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے ۔۔14اگست کو سبز کپڑے پہن لینا یا فیس پینٹ کر لینا جزبہ آزادی نہیں ۔ ہمیں اپنے اندر ایمان کی سچائی , احساسِ ذمہ داری پیدا کرنا ہوگا ۔ سال ہہ سال سے ہم لسانی فساد کاسامناکرتے آئے ہیں۔ مگر اب ایک اور ردافساد کی ضرورت ہے۔ ردافساد جو عوام نے فرقہ واریت کے خلاف ہے ۔ 1947میں اتحاد نے پاکستان بنایا تھا آج یہ اتحاد ہی پاکستان بچا سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان ھم سب کا ہے۔اس وقت اتحاد کی قوت نے ہر فساد کو رد کیا تھا۔ آج ہمیں اسی اتحاد اور جذبے کی ضرورت ہے ۔ جس دن ہم نے ذات اور قوم کے تناسب کو چھوڑ دیا اس دن ہم حقیقی معنی میں آزاد ہوں گے... اس ملک کی سربلندی کیلیےہمیں زات اورقوم سےبالاطر ہوکرسوچناہوگا۔اس ملک پرپنجابی یہ پٹھان کازیادہ حق نہیں ہرباشندہ برابر پاکستانی ہے۔

ہمیں اس جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کی خاطر سوچنے اور کام کرنے کا پختہ ارادہ کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔۔ یہ مت سوچو کہ پاکستان نے کیا دیا بلکہ یہ سوچو کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے ۔۔ امید ہے اس 14 اگست کا سورج پاکستان میں امن و خوشحالی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا انشاءاللہ ۔

Raja Mujeeb
About the Author: Raja Mujeeb Read More Articles by Raja Mujeeb: 21 Articles with 25315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.