نواز شریف اور الطاف حسین کو فوجی آشیر باد مل جانے کا
سبب ان کا مشترکہ ہدف تھا۔پی پی ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کے لیے بڑا خطرہ تصور
کی جارہی تھی۔بظاہر تو پی پی خالی ہاتھ نظر آرہی تھی۔ایک کمزور اور تنہا
عورت بھلا سسٹم کے لیے کیا خطرہ بن سکتی تھی ۔مگراصل خوف کچھ اور تھا۔دراصل
دل کا چور انہیں اس طرح کی پیش قدمیوں پر مجبور کررہا تھا۔اپنی ان کوتاہیوں
کا خمیازہ بھگتنے کا ڈر انہیں اس بندوبست کی راہ دکھارہاتھا۔ ضیا ء الحق کے
دور میں ایسی کئی غلطیاں سرزد ہوچکی تھی۔تما م تر قوت اور رسوخ رکھنے کے
باوجود اسٹیبلشمنٹ کے اندر کا عدم اطمینان اسے پی پی کے بارے میں کس پیش
قدمی پر مجبور کرتارہا۔یہی وجہ تھی کہ نوازشریف اور الطاف حسین کو استعمال
کرنے کا فیصلہ ہوا۔یہ دونوں ہی نہیں ملک کے مخلتف کونوں میں اینٹی پی پی کے
طور پر چھوٹے موٹے دھڑے او رلوگوں کو مضبوط کیا گیا۔تاہم جو قوت ان دونوں
نے آگے چل کر پائی ۔اس کی مثال ننہیں ملتی ۔نتائج حسب توقع نکلے الطاف حسین
نے پی پی سے کراچی اورحیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقے چھین لیے ۔اور نوا
زشریف نے پنجاب کے تمام پڑھے لکھے حصے سے پی پی کا بستر گول کرویا۔دونوں نے
اپنی اپنی ذمہ داری بطریقہ احسن نبھائی۔پھر یہ دونوں رکے نہیں۔آگے ہی بڑھتے
چلے گئے۔حتی کہ مقتدر حلقے بھی ان کی قوت سے غیر مطمئن نظر آنے لگے۔الطاف
حسین نے اپنے مفتوحہ علاقوں کوقتل وغارت اور بھتہ خوری کا ایک تعارف
بنادیا۔جانے کتنی ہی بددعائیں الطاف حسین اور ان کے پروردوں کا روزانہ
پیچھا کرتی رہیں۔دوسری طرف نوازشریف کھلم کھلا بغاوت کی طرف آگئے۔ان دونوں
کے لیے جو دائرہ مقرر کیا گیاتھا۔دونوں ہی اس دائرے کو توڑ بیٹھے ۔ان دونوں
کو راستے سے ہٹانا بھی اب ان قوتوں کے لیے ایک ٹاسک سابن گیا۔
نوازشریف کی بغاوت جاری ہے۔اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد اب وہ کیا کرنا چاہ
رہے ہیں ۔ان کا اندازہ انہیں ہے ۔یا ان کے کچھ رازدانوں کو ۔یہ رازدان بھی
گنے چنے لوگ ہیں۔حالیہ پانامہ اور دھاندلی ڈراموں نے میاں صاحب کو بہت
زیادہ محتاط کردیاہے۔وہ اتنے بار ڈسے جاچکے ہیں کہ دل کی بات کسی سے بھی
کہنے سے ڈرتے ہیں۔ایسے ایسے آستین کے سانپ انہیں ڈس کر چلے گئے ۔جن کو وہ
دودھ پلاتے رہے ۔اسی سبب وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی زیادہ دھوم دھڑکے والی
نہیں بنا رہے۔وہ اپنے کارڈ آخردم تک خفیہ رکھنے کی کوشش میں ہیں۔اسلام آباد
سے لاہور کے سفر میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج تک کوئی منتخب وزیر
اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پایا۔یہ سلسلہ اب رک جانا ہیے ۔میر ا مشن ہے کہ
ملک میں قانون اور آئن کی حکمرانی ہو۔سب ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر
کام کریں۔میں دوسری جمہوری پارٹیوں کو بھی دعوت عمل دیتاہوں وہ بھی قانون
اور آئن کی بالادستی کے مشن میں ساتھ چلیں۔
نواز شریف تیسری بار اقتدار سے محروم کیے گئے ہیں۔اقتدار کی تین دفعہ بے
دخلی کے اسباب قریبا ایک سے ہی ہیں۔پہلی بار انہیں تک اقتدار سے نکالا
ہواجب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط ستون تب کے صدر غلام اسحاق سے پھڈا
شرو ع کیا ۔صدر صاحب تب جمہوری حکومت کو گھر کی باندی تصور کیے بیٹھے
تھے۔ان کی تمنا تھی کہ ایوان صدر کی رضامندی کے خلاف کوئی پالیسی نہ تیار
کی جائے ۔وزیر اعظم نوازشریف ایوان صدر کی مرضی اور رضامندی کو ضروری خیال
نہیں کرتے تھے۔اپنے عوامی مینڈیٹ کی قوت کو وہ حتمی اور کافی تصور کرتے
تھے۔اس بدتمیزی پرایوان صدر نے پہلے تو بالواسطہ طور پر تنبیہ کی ۔پھر
باقاعدہ حکومت کو ا س کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر چٹھیاں بھجوائی جانے
لگیں۔نوازشریف کے پیچھے نہ ہٹنے پر ہی صدر نے اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو گھر
بھجوایا تھا۔دوسری بار وزیر اعظم نوازشریف کو آرمی کے معاملات میں مداخلت
پر گھر جانا پڑا۔ایک منتحب جمہوری وزیر اعظم نے جب آر می چیف کو بدلنے کا
حکم نامہ جاری کیا تو فوج نے اسے مستر دکرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ
دیا۔جمہوری وزیر اعظم کو اس مداخلت کی کڑی سزا بھگنتاپڑی ۔اب تیسری بار
انہیں اقتدار سے محرومی ملی۔اس بار بھی سبب وہی ۔نافرمانی اور بغاوت قرار
پائی۔اب بھی انہوں نے اچھے بچے کی طرح جی اچھا کہنے کی بجائے۔اپنے آپ کو
باس ثابت کروانے کی سزاپائی۔چوہدری نثار ۔میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم کو
ان کا موجودہ رول بتایا۔انہیں بتادیا گیا۔کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو
تاتا دھوتا تصور کرناہے۔ وزریر اعظم نوازشریف ایک بارپھراپنے اصولوں پر
قائم رہے۔اورمشرف کے معاملے میں وہی کچھ کیا جو ان کی اپنی مرضی تھی۔ان کی
اس بار کی اقتدار سے بے دخلی کا بنیای سبب سابق صدر پرویز مشرف بنے۔اگر
نوازشریف بھی پی پی قیادت کی طرح مشرف کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے تو
شاید ان کا اقتدار بھی اپنی پوری مدت دیکھ پاتا۔
جتنی رسوائی اور ذلت کسی جمہوری حکمران کو گذشتہ ایک دہائی میں نصیب ہوئی
ہے۔کبھی نہ ہوئی ہوگی۔نوازشریف کا موجودہ دور اس ذلالت کی انتہا رہا۔ا س
قدر بے توقیری اور بے بسی آج تک کسی جمہوری حکمران کو نہیں درپیش رہی۔سسٹم
کے خدمت گاران کو ہدایت تھی کہ نوازشریف کو اتنا ذلیل کرو کہ وہ اقتدار پر
لعنت بھیجے او رمیدان چھوڑ جائے۔پلان یہ تھا۔کہ جو خلا پیدا ہوگا۔وہاں الو
باٹوں کو لا کھڑا کیا جائے گا۔یہ تابعداران لوگ سسٹم کے مفادات کی بجاآوری
ممکن بنائیں گے۔نوازشریف نے اپنی طبعیت کے خلاف غیر معمولی برداشت کا مظاہر
ہ کرکے ایک مدت تک یہ شیطانی منصوبہ ناکام بنائے رکھا۔اپنی ذلت اور رسوائی
برداشت کرلی۔مگر قوم پر الو باٹے مسلط کرنے والوں کی شیطانی چال ناکام
بنادی۔جمہوریت کو ہر قیمت پر مضبوط کرنے کی شدید تر خواہش نے نوازشریف کو
کسی بھی سطح تک جانے کا حوصلہ دیاہے۔ان کی غیر جمہوری قوتوں کے کارندوں کے
ہاتھوں بے پناہ تذلیل کسی قربانی سے کم نہیں ۔نوازشریف شیطانی کھیل کھیلنے
والوں سے قوم کو بچانے کے لیے اپنی ذات اور اپنی شخصیت کی رسوائی کو معمولی
قربانی تصور کرتے ہیں۔ |