د بنا کر رکھ دیا گیا ہے! سپیکر کے استعمال پر پابندی،
جلسے پر پابندی، جلوس پر پابندی، نعرے پر پابندی،شہر سے باہر نکلنے پر
پابندی ، شہر میں داخل ہونے پر پابندی ، فورتھ شیڈول میں نام۔۔۔ عجیب
نفسانفسی کا عالم ہے کہ کوئی طالب علم مدرسے سے گھر جاتے ہوئے گم اور کوئی
گھر سے مدرسے جاتے ہوئے لاپتہ …
کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ یہ ساری پابندیاں دیندار حضرات خصوصا
مولوی حضرات پر ہی کیوں لگائی جاتی ہیں۔۔۔!
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض شخصیات نے اپنے مفادات کے لئے چند نا سمجھ دیندار
لوگوں کو استعمال کر کے مکمل طور پر علمائے دین کو ہی بدنام کر کے رکھ دیا
ہے۔
اگر ان پابندیوں اور فورتھ شیڈول کا تعلق شدت پسندی ، تعصب ، گالی گلوچ اور
الزامات و تہمات سے ہے تو باعرض معذرت ہمارے سیاستدانوں میں یہ سب کچھ
مولوی حضرات کی نسبت کہیں گنا زیادہ پایا جاتاہے۔
ہم پرانے مردے نہیں اکھاڑتے ، ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ جب کسی چھوٹے
موٹے سیاستدان نے نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے
آزاد کشمیر کے صدر کو زلیل آدمی کہا، شیخ رشید نے کہا کہ اس فاروق حیدر
کو سی ایم ہاؤس سے نکال کر جو تیاں مارو، پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان نے
جہاں اور بہت کچھ کہا وہاں یہ بھی کہا کہ کیا پدی اور پدی کا شوربا، اپنی
اوقات کے اندر رہو، اپنی حیثیت کے اندر رہو اپنے پاجامے کے اندر رہو یہ جو
تمہارا پاجاما ہے نا اس کے اندر رہ کر بات کرو۔
ایسے میں عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں کہا کہ میں’’ تُو‘‘ کر کے بات کر
رہاہوں’’ُ تُو‘‘ کر کے، تیری اوقات کیا ہے!
یہ سب کچھ ایک ملک کے وزیراعظم ، ایک ملت کے سربراہ، ایک ایوان کے قائد
ایوان اور ایک ریاست کے رہنما کے بارے میں کہا گیا ۔ لیکن کسی ادارے نے
ازخود نوٹس کی زحمت نہیں کی، کسی سیاسی رہنما نے اسے شدت پسندی نہیں کہا،
کسی عالم دین نے اس طوفان بدتمیزی پر بد اخلاقی کا فتوی نہیں لگا یا، کسی
قاضی نے اس گستاخی پر وارنٹ جاری نہیں کئے چونکہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ شدت
پسندی نہیں ہے، سیاستدان جو مرضی ہے کریں ، ہمیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ
شدت پسند صرف مولوی حضرات ہوتے ہیں۔
اسی طرح گلالہ لئی نے جو انکشافات کئے ہیں ان پر بھی تحقیقات کے بجائے ،
مسلسل الزامات اور تہمات کا سلسلہ جاری ہے۔
اگر اس طرح کے بیانات کوئی عالم دین دیتا اور اس پر گلالہ لئی جیسے الزامات
ہوتے تو پھر ہمارے عوام ، میڈیا اور سیاستدانوں کے مذمتی بیانات کا تانتا
لگ جاتا۔
یہ ہماری ملکی تاریخ کی کڑوی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے چند نافہم مولوی
حضرات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر کے دینی مدارس اور علما حضرات کو
دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا سیاستدان جسے عدالت نااہل قرار دے کر
اس کے کرپٹ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے وہ بھی ریلیاں نکالتا ہے،کوئی
پوچھنے والا نہیں کہ آیا عدالتی فیصلے کو عوامی ریلیوں کے ذریعے چیلنج
کرنا بھی شدت پسندی ہے یا نہیں!
مقام فکر ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے کے بعد کوئی مولانا صاحب اسی طرح کی
ریلی نکالتے تو کیا انہیں اس کی اجازت دی جاتی!؟
عجیب افسوسناک صورتحال ہے کہ جس وقت کرپشن کے حق میں ریلی نکالی جارہی تھی
عین اسی دوران اپر دیر کے علاقے تیمر گراہ میں پاک فوج کے جوان، ایک میجر
سلمان علی اور تین دیگر فوجی شہیدوں کے غم میں آنسو بہا رہے تھے لیکن ان
کی دلجوئی کے لئے کوئی ریلی نہیں نکلی۔
یعنی اس ملک کے دارلحکومت میں عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے والے شدت پسندوں
کی ریلی تو نکلی لیکن شدت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے جوانوں کے حق
میں کوئی ریلی نہیں نکلی۔
آج اس ملک میں جو کچھ بھی ہے ، وہ پاک فوج کی قربانیوں کے باعث ہے، لیکن
ہمیں تو دینی مدارس کی طرح پاک فوج پر بھی فقط تنقید کرنا ہی سکھایا گیا
ہے۔ چنانچہ ہمارے میڈیا نے بھی تیمر گراہ کے ان شہدا کے بجائے کرپشن نواز
ریلی کو ہی بھرپورکوریج دی ۔
اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاون کوہی لیجئے، بے گناہ افراد کو شہید کرنا ایک جرم
ہے لیکن اس جرم کے خلاف بغیر احتجاج کے ایف آئی آر کا درج نہ ہونا بالکل
سیاسی انتہا پسندی ہے لیکن کسی نے بھی اسے انتہا پسندی نہیں کہا۔
فرض کریں، سانحہ ماڈل ٹاون کا یہی واقعہ اگر کسی دینی مدرسے سے منسوب ہوتا
تو کیا اسے انتہا پسندی نہ کہا جاتا!؟
یہ پاکستان کے دیندار حلقوں اور باشعور علمائے کرام کی زمہ داری ہے کہ وہ
نام نہاد سیاستدانوں کے آلہ کار بننے ، ان سے اتحاد کرنے اور انہیں گلے
لگانے کے بجائے اپنے دینی حلقوں کی طرف محبت اور اخوت کا ہاتھ بڑھائیں اور
معاشرے میں سیاسی آلودگیوں سے پاک ایک دینی و سیاسی کلچر متعارف کروائیں۔ |